انڈیا کے دورے کے دوران انڈین کونسل آف ورلڈ افیئرز کے پروگرام سے خطاب میں ملائیشیا کے وزیر اعظم انور ابراہیم کا کہنا تھا کہ، انہوں نے مودی سے ملاقات میں ہندوستان میں اقلیتوں پر مظالم کا مسئلہ اٹھایا ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ ہندوستانی حکومت کو کچھ سنگین مسائل کا سامنا ہے جس سے اقلیتوں یا مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہے اور ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ انہوں نے یہ امید بھی ظاہر کی کہ ہندوستان اقلیتوں کے مسائل سے نمٹنے میں اپنا صحیح کردار ادا کرتا رہے گا۔ نیوز پورٹل ’’آج تک‘‘ کے مطابق ملائیشیا کے وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ میں اس حقیقت سے انکار نہیں کرتا کہ بھارتی حکومت کو اقلیتوں یا مذہبی جذبات کو متاثر کرنے والے کچھ سنگین مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن ہمیں امید ہے کہ بھارت اس سے نمٹنے کے لیے اپنا صحیح کردار ادا کرتا رہے گا اس کے فوری بعد یہ اطلاع بھی آنے لگی کہ بھارت نے ڈاکٹر ذاکر نائک کی واپسی کے لیے وزیر اعظم انور ابراہیم پر دباؤ ڈالا ہے، اس بارے میں انور ابراہیم نے کہا کہ یہ بات تین سال قبل مودی نے کہی تھی، اس دورے کے دوران مودی نے اس سلسلے میں کوئی بات نہیں کی۔ انور ابراہیم کی بات کہاں تک ٹھیک اس بارے میں مودی یا انور ابراہیم ہی درست بات بتا سکتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ملائیشیا کے وزیر اعظم انور ابراہیم نے اپنے دورۂ بھارت کے دوران ذاکر نائیک کے حوالے سے یہ بڑا بیان کیوں دیا ہے کہ مودی نے تین سال قبل یہ مسئلہ اُٹھایا تھا اور ہم نے اس وقت بھی بھارت سے کہا تھا کہ اگر ہندوستان نائک کے خلاف کافی ثبوت فراہم کرتا ہے تو ان کی حکومت نائک کو ہندوستان کے حوالے کرنے کے بارے میں سوچ سکتی ہے۔ یہ سوال اس لیے بھی پیدا ہوتا ہے کہ انور ابراہیم کے دورے کے فوری بعد بھارتی لوک سبھا میں بی جے پی کے ارکان نے ذاکر نائیک کو دہشت گر قرار دیتے ہو ئے مودی سے مطالبہ شروع کر دیا کہ نائیک کو ملائیشیا سے فوری طور پر واپس بھارت لا کر ان پر دہشت گردی کا مقدمہ چلایا جائے۔ انور ابراہیم نے کہا ہے کہ اس مسئلہ سے دونوں ممالک کے تعلقات متاثر نہیں ہونے چاہئیں۔
انور ابراہیم نے یہ بیان ایسے وقت میں دیا ہے جب ہندوستان اور ملائیشیا کے درمیان دو طرفہ تعلقات آہستہ آہستہ پٹڑی پر واپس آ رہے ہیں۔ قبل ازیں بھارت نے 5 اگست 2019 کو جموں و کشمیر سے آرٹیکل 370 کو ختم کیا تو ملائیشیا کے اس وقت کے وزیر اعظم مہاتیر محمد نے اس پر تنقید کی تھی۔ مہاتیر نے شہریت ترمیمی بل (سی اے اے) کے حوالے سے بھی ہندوستان کو غلط کہا تھا۔ ہندوستان نے اس پر سخت اعتراض کیا تھا اور ملائیشیا کو تیل کی برآمدات روک دی تھیں۔ یہ درست ہے کہ ہندوستان اور ملائیشیا کے تعلقات بتدریج بہتر ہو رہے ہیں، تاہم بھارت ذاکر نائیک کو دو طرفہ تعلقات کو آگے لے جانے میں ایک بڑی رکاوٹ بنا کرپیش کر رہا ہے۔ یہ سب ایک ایسے موقع پر بھارت کر رہا ہے جب اس کو خلیج ِ بنگال کے ایک اور اسلامی ملک بنگلا دیش سے مشکل کا سامنا ہے۔ اس کے ساتھ ہی خلیجِ بنگال کا ایک اور ملک مالدیب بھی بھارت اور امریکا سے جان چھڑا کر چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے میں شامل ہو چکا ہے۔
نائک 2016 میں ہندوستان سے ملائیشیا چلے گئے تھے۔ اسی دوران 2018 میں ان کو شہریت دے دی گئی تھی۔ ڈاکٹر نائک پر بھارت میں اشتعال انگیز تقریریں کرنے، منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کو فروغ دینے کا الزام ہے۔ مودی نے 2019 میں ٹیرر فنڈنگ کیس میں ذاکر نائک کے خلاف چارج شیٹ بھی داخل کی تھی۔ یہ سب ویسے الزامات تھے جیسے مسلمانوں پر عالم کفر کی جانب سے لگائے جاتے ہیں۔
دوسری جانب بنگلا دیش نے ڈاکٹر ذاکر نائیک کے خلاف تمام الزامات کے باوجود ان کے ’’پیس‘‘ چینل کی بنگلا نشریات بنگلا دیش میں بحال کر دی ہے۔ اس کے ساتھ بنگلا دیشی عبوری حکومت نے بھارت پر الزام لگایا ہے اس نے بھارتی ڈیم کے دروازے کھول کر بنگال اور آسام کی مسلمان آبادیوں والے علاقوں میں بدترین سیلاب کی صورتحال پیدا کر دی ہے۔ بنگلا دیشی حکام کا کہنا ہے کہ قریب 31 لاکھ افراد بے گھر ہوئے ہیں جبکہ دو لاکھ افراد کو کچھ اونچائی پر عارضی پناہ گاہوں میں منتقل کیا گیا ہے۔ لیکن کمال یہ ہوا کہ بنگلا دیش کی سرحدی فوج نے بھارتی مغربی بنگال میں انڈین فوج کو دونوں اطراف باڑھ لگانے سے روک دیا اور وہاں کام کرنے والوں سے کہا بھاگ جاؤ ورنہ مارے جاؤ گئے۔ اس کے ساتھ ہی بنگلا دیش نے بھارت میں بنگالیوں کے قتل میں ملوث مفرور سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ کا پاسپورٹ ختم کر دیا اور بھارت سے مطالبہ کیا ہے وہ شیخ حسینہ کو واپس بنگلا دیش بھیج دے۔ بی جے پی کو بنگلا دیش میں مداخلت نہ کرنے کی تنبیہ کرتے ہوئے بنگلادیشی حکومت نے کہا ہے کہ بھارت بوکھلاہٹ کا شکار ہے اور بنگلا دیش میں امن و امان کی صورت حال خراب کرنا چاہتا ہے۔ بی جے پی بنگلا دیشی سیاست میں بڑے پیمانے پر مداخلت کر رہی ہے جس پر خطے میں تشویش کی لہر ہے۔ مودی سرکار اپنے اوچھے ہتھکنڈوں سے خطے کا امن
تباہ کرنا چاہتی ہے۔ شیخ حسینہ واجد بنگلا دیش میں بھارتی کٹھ پتلی وزیر ِاعظم کی حیثیت سے کام کر رہی تھیں۔ بنگلا دیش کو سیاسی بحران کے بعد اس وقت بھارت کی طرف سے مداخلت کا سامنا ہے۔ آخر کب تک مودی سرکار انتہا پسندی کی سیاست کو فروغ دیتی رہے گی؟
بنگلا دیش میں اب اسلام پسند عناصر ابھر کر آئے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ نئی حکومت شیخ حسینہ کے ساتھ کیسا رویہ رکھتی ہے۔ لیکن اگر ان کے ساتھ نرمی کی گئی تو بنگلا دیش کو بھارت سے خطرات کا سامنا ہو گا۔ چوں کہ بنگلا دیش میں ہونے والے مظاہروں میں بھارت مخالف جذبات کا بھی دخل ہے لہٰذا اب وہاں بھارت کے مفادات پر اثر پڑ سکتا ہے۔ سمجھا یہ جاتا ہے کہ بنگلا دیش میں نئی حکومت پر جماعت ِ اسلامی کا اثر رہے گا۔ مظاہروں میں جماعت ِ اسلامی کے کارکن بھی شامل تھے۔ جماعت ِ اسلامی سے بھارتی حکومت کے تعلقات کبھی خوشگوار نہیں رہے۔ شیخ حسینہ کی حکومت نے بھی بھارت کو خوش کرنے کے لیے جماعت ِ اسلامی کے خلاف سخت اقدامات کیے تھے۔
سیلاب سے بنگلا دیش میں انسانی بحران کا خدشہ ہے۔ پورا شہر سلہٹ، سونم گنج بیلٹ زیر آب ہے اور لاکھوں لوگ پھنسے ہوئے ہیں۔ انڈین ریاست آسام میں مون سون کی شدید بارشوں کا سارا پانی سلہٹ، سونم گنج بیلٹ کی طرف بہا دیا گیا ہے جس کی وجہ سے ڈھاکا اور سلہٹ کے درمیان کے سیکڑوں گاؤں، کھڑی فصلوں اور آبادیوں کو شدید نقصان کا سامنا ہے۔ جنوبی ایشیا میں موسمی بارشیں کسانوں کے لیے مددگار ثابت ہوتی ہیں تاہم ہر سال ان سے بڑے پیمانے پر جان و مال کا نقصان بھی ہوتا ہے۔ بنگلا دیش اور انڈیا دونوں نے حالیہ برسوں کے دوران خراب موسم سے ہونے والا نقصان جھیلا ہے۔ لیکن اس مرتبہ بھارت سارا پانی بنگلا دیش بھیج رہا ہے جس سے بنگلا دیش کو بھاری جانی اورمالی نقصان ہو رہا ہے۔