ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ جنگل میں بادشاہ نہیں تھا تو جنگل کی اسٹیبلشمنٹ نے پھرتی اور تیزی دیکھ کر بندر کو بادشاہ بنادیا، اور بندر کی حکمرانی شروع ہوگئی۔ اس کا ہمارے ملک کے حالات سے تعلق نہیں، ہمارے ملک میں تو ایک دفعہ کا نہیں یہ ہر دفعہ کا ذکر ہے، قصہ مختصر بندر کی حکمرانی جیسی ہوتی ہے ویسی ہی تھی، آپ لوگ دیکھتے تو رہتے ہیں۔ پرانی کہانی ہے اس لیے ایک ہی دفعہ جو ذکر ہوا وہی دہرایا جاتا ہے کہ بھیڑیا جو کبھی کچے میں اور کبھی پکے میں رہتا تھا بکری کا بچہ لے گیا، شکایت دربار بندر میں پہنچی اس نے ایک بڑے درخت کی ایک شاخ سے چھلانگ لگائی دوسری پر جا بیٹھا جیسے ہمارے والے فلور کراسنگ کرتے ہیں، اور وہاں بیٹھ کر تشویش کا اظہار کیا کہ یہ تو بری بات ہے اور اس ڈالی چھلانگ لگاتے ہوئے دوسری سے تیسری شاخ پر جا لٹکا، کہنے لگا جائو میں دیکھ لوں گا، اب اس کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ چند ہی روز گزرے بھیڑیا پھر بکری کا ایک اور بچہ لے گیا، پھر دربار سجا سائل آئے بندر بادشاہ نے چھلانگیں لگائیں اور کہا کہ اب تو برداشت نہیں کریں گے۔ تم جاؤ ہم دیکھ لیں گے، ہنگامی اجلاس بلایا اور اعلان کردیا کہ جو کچے یا پکے کے کسی بھیڑیے کا ساتھ دے گا اس کا برا حشر کریں گے، فوری طور پر حفاظت پر مامور جانوروں کو معقول فنڈز فراہم کردیے گئے لیکن چند ہی روز میں ہرن، بکری، گائے کے بچے غائب ہوگئے اب سب نکل کر آگئے اور دربار سجا بندر کی چھلانگیں اور خوں خوں سننے کے بعد سب نے شور مچانا شروع کیا تو بندر کے نائب الو اور دربار سے مستقل چمٹی ہوئی چمگادڑ نے کہا کہ خاموش رہو تم لوگ جنگل کا امن اپنے ہاتھ میں نہ لو جس نے ایسا کیا وہ جنگل کا دشمن قرار پائے گا۔ دیکھتے نہیں بادشاہ سلامت کی محنت دن رات ایک ڈالی سے دوسری پر جارہے ہیں تمہاری خاطر اتنی تو بھاگ دوڑ کررہے ہیں، یوں سبھوں نے حالات سے سمجھوتا کرلیا اور ان کے بچے اور بڑے بھی غائب ہوتے رہے۔
قارئین بھی سوچ رہے ہوں گے کہ یہ کیا پرانے واقعے میں نمک مرچ لگا کر دوبارہ پڑھوا رہے ہیں۔ تو چھوڑیں اپنے ملک کی بات کرتے ہیں لطیفہ یہیں چھوڑ دیں نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف قومی اداروں میں اصلاحات لانے کے لیے دن رات محنت کر رہے ہیں۔ شہباز شریف کی قیادت میں معیشت دوبارہ بحال ہوگی، ہم پاکستان کو دنیا میں معاشی طور پر باوقار ملک بنائیں گے۔ یہ بات انہوں نے حضرت داتا گنج بخش کے عرس مبارک میں شرکت کے موقع پر کہی، انہوں نے شہباز شریف کی ڈالی سے چھلانگ لگائی اور کہا کہ نواز شریف کی قیادت میں 2017ء میں پاکستان دنیا کی 24 ویں بڑی معیشت تھا لیکن اس کے بعد اگلے 4 سال میں پاکستان معاشی لحاظ سے 47 ویں نمبر پر آ گیا اور یہ کوئی چھوٹا نقصان نہیں ہے، آج جو ملک کے مسائل ہیں یہ اسی وجہ سے ہیں۔
یہ جو دن رات محنت ہے ناں اس پر صدقے جانے کو جی چاہتا ہے، دن رات کی یہ محنت یہ لوگ گزشتہ پچاس سال سے کررہے ہیں اور لوگ ہر سال پہلے سے زیادہ پریشان ہورہے ہیں۔ اس کو جنگل کے ایک دفعہ کے ذکر سے نہ ملایا جائے، کیونکہ جنگل کا بھی کوئی قانون ہوتا ہے۔ یہ دن رات کی محنت شہباز شریف پچیس گھنٹے روز کام کرتے ہیں، کام کیا کرتے ہیں اس کا تو پتا نہیں لیکن ان کی پھرتیاں بھی سب کو نظر آتی ہیں۔ اور ڈالر، پٹرول، بجلی، گیس، آٹا، چینی سب مہنگا ہوتا جارہا ہے۔ ان کی چھلانگیں جاری ہیں، آج لندن گئے کل امریکا گئے، کبھی سعودی عرب اور کبھی چین لیکن نتیجہ وہی رہا۔
چلیں اس کو بھی چھوڑیں یہ تو قوم کے گلے پڑے ہوئے ہیں۔ گلے پڑنے پر چند روز قبل کا عمران خان کا بیان یاد آگیا کہ اگر اسلام آباد میں جلسہ کرلیتے تو ایک اور 9 مئی گلے پڑجاتا، اچھا کیا جلسہ نہ کیا کامیاب ہوجاتے تو پھر قوم کے گلے پڑ جاتے، یار لوگ اب تو کرکٹ کے معاملات میں حکومتی مداخلت کے بارے میں بڑی دور کی کوڑی لائے ہیں کہ حکومت کی کوشش ہوتی ہے کہ پاکستان کسی طرح بھی سیمی فائنل سے آگے نہ بڑھے بلکہ بسا اوقات اس سے بھی پہلے باہر ہو جائے، کیونکہ اس بات کا خدشہ ہے کہ پاکستان سیمی فائنل میں آگیا اور سامنے سے کوئی ہلکی ٹیم آگئی تو پاکستان کے فائنل میں پہنچنے کے امکانات (ان کی نظر میں خدشات) پیدا ہو جائیں گے، لیکن اس میں کیا بڑی بات ہے؟ تحقیق پر پتا چلا کہ حکمرانوں اور اسٹیبلشمنٹ کو خطرہ ہے کہ ایک ورلڈ کپ آج تک پاکستان کے گلے پڑا ہوا ہے ایک اور کے ہم (اسٹیبلشمنٹ) متحمل نہیں ہوسکتے۔ اس لیے ٹیم، کپتان، مینجمنٹ سب کچھ اس طرح تیار کیا جاتا ہے کہ پاکستان کا سیمی فائنل سے پہلے واپس آنا یقینی ہو جائے۔ بھئی مان گئے اپنی اسٹیبلشمنٹ ہے بڑی دور اندیش۔ یہی دور اندیشی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کچھ وقت گزار کر عمران خان میں بھی آگئی ہے چنانچہ انہوں نے جلسہ ملتوی کرکے اچھا کیا، ورنہ ایک اور نو مئی ان کے گلے اور وہ قوم کے گلے پڑ جاتے۔ اب تو وہ اتنے دور اندیش ہوگئے ہیں کہ انہوں نے لاہور کا جلسہ بھی ملتوی کردیا، ہماری دعا ہے کہ اللہ انہیں مزید دور اندیشی عطا فرمائے اور دوبارہ گلے پڑنے سے قوم کو بچالے۔
یہ گلے پڑنے کی روایت بھی پرانی ہے، جب پہلی مرتبہ ایوب خان آئے اور گلے پڑگئے اس وقت لوگ سمجھے ہی نہیں کہ واردات کیا ہوئی ہے، پھر بھٹو صاحب نے عوامی پارٹی عوامی انقلاب اور عوام کو طاقت کا سرچشمہ قرار دیا اور گلے پڑگئے، تحریک نظام مصطفی شروع ہوئی اور جنرل ضیا الحق نے 90 روز کے وعدے پر رخ بدل دیا، پھر وہ جو گلے پڑے تو گیارہ سال تک گلے پڑے رہے، کیا اپنے کیا غیر سب کہنے لگے کب جائے گا، بالآخر 17 اگست کا حادثہ ان کے گلے پڑا اور وہ کئی جرنیلوں سمیت چلے گئے۔ اس کے بعد مختصر مدت کے انتظامات ہوتے رہے اور پھر جنرل پرویز مشرف یہ کہہ کر گلے پڑ گئے کہ ڈرتا ورتا کسی سے نہیں، وہ بھی نو سال تک گلے پڑے رہے اور امریکا کو ایسا گلے لگایا کہ چھڑانے سے بھی نہ چھوٹے، انہیں بھی اپنوں ہی نے ہٹایا، اس کے بعد قوم کو تبدیلی کا تحفہ بھی دیا گیا اور یہ تبدیلی لانے والوں ہی کے گلے کی ہڈی بن گئی ہے، عوام تو خیر گلے پڑنے والوں کے عادی ہوچکے ہیں۔ سو اگر قوم دور اندیشی سے کام لے تو کسی کو گلے پڑنے ہی نہ دے، اب تو اسٹیبلشمنٹ اور قوم یہ دیکھ چکے کہ جس کو گلے لگایا وہ گلے ہی پڑگیا۔