پچھلے دنوں یہ خبر موصول ہوئی کہ معزز ایوان میں چوہوں کا بسیرا ہو گیا ہے اور اس کے خاتمے کے لیے تجربہ کار بلیوں سے بھی مدد لی جائے گی، بحرکیف حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ ان چوہوں کا خاتمہ ضروری ہے اور اس مقصد کے لیے ایک ٹینڈر بھی پاس کیا جا رہا ہے، اور بلیوں کو بھی اس مہم میں شامل کیا گیا ہے۔
مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ چوہے عام طور پر اس جگہ پائے جاتے ہیں جہاں صفائی کا ناقص انتظام ہو یا جہاں گندگی کا ڈھیر ہو، لیکن اگر چوہے پارلیمنٹ ہائوس جیسے معزز اور طاقتور ادارے میں پائے جاتے ہیں، تو یہ صرف جسمانی گندگی کی نہیں بلکہ ایک گہری سیاسی گندگی کی علامت بھی ہوتی ہے، کیونکہ سیاسی چوہے اور حقیقی چوہے دونوں اپنی بقا کے لیے غیر صاف ستھری اور بدعنوانی سے بھری جگہوں کا انتخاب کرتے ہیں، پارلیمنٹ میں چوہوں کی موجودگی ایک ایسی سیاسی گندگی کی علامت ہے جہاں بدعنوانی اور رشوت ستانی نے جڑ پکڑ لی ہو۔ سیاست دان جو عوام کے نمائندے ہونے کے بجائے ذاتی مفادات کے پیچھے لگے ہوں، وہ سیاسی گند پھیلاتے ہیں۔ یہ گندگی ان پالیسیوں اور فیصلوں کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے جو عوامی مفاد کے بجائے ذاتی فائدے پر مبنی سیاسی گندگی پھیلاتی ہو، جس کا ایک اور عنصر غیر شفافیت ہے۔ جب پارلیمنٹ میں موجود سیاست دان عوامی وسائل کا غلط استعمال کرتے ہیں، قومی مفادات کو نظر انداز کرتے ہیں، اور اقتدار کی ہوس میں مبتلا ہو جاتے ہیں، تو وہاں ایک ایسا ماحول پیدا کرتے ہیں جہاں چوہوں کا ہونا کوئی حیرت کی بات نہیں، کیا واقعی ہم اس نہج پر پہنچ گئے ہیں جہاں پارلیمنٹ ہائوس جیسے عظیم ادارے میں بھی چوہے اپنی ریاست قایم کر چکے ہیں، ایک وقت تھا جب اس عمارت میں صرف سیاسی چوہے ہوا کرتے تھے، جو اپنی چالاکیوں اور سیاست بازی سے ہر کسی کو مات دیتے تھے مگر اب لگتا ہے کہ حقیقی چوہوں نے بھی پارلیمنٹ ہائوس میں اپنی ریاست بنا لی ہے، بالکل ایسے ہی جیسے الیکشن کے دنوں میں اچانک پارلیمنٹ میں ایسے افراد کا ہجوم ہو جاتا ہے جن کو کوئی نہیں جانتا اور نہ ہی ان کے بارے میں کوئی سوال اْٹھایا جاتا ہے کہ یہ کہاں سے آئے ہیں جیسے آج پارلیمنٹ میں چوہے پوری بیوروکریسی کو چکمہ دے کر داخل ہو گئے، نہ ان کے پاس فارم 45 ہے نہ فارم 47 مگر اب وہ آزادانہ اس پارلیمنٹ کا حصہ ہیں اب یہ فرق کرنا مْشکل ہو گیا ہے کہ سیاسی چوہے کون ہیں اور حقیقی چوہے کون، یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ کیا حکومتی بلیاں کیا واقعی چوہوں کے خاتمے کے لیے سنجیدہ ہیں، کہیں ایسا تو نہیں پارلیمنٹ میں موجود حقیقی چوہوں نے اگر بلیوں کو مخصوص نشستوں کی آفر دے کے اور حکومتی خزانے سے بے پناہ مراعات دے کر اپنی جانب کر لیا تو حکومتی سارے دعوے دھرے کے دھرے رہ جائیں گے پھر یہ سیاسی چوہے کس کی مدد حاصل کریں گے، لہٰذا حکومت کو اس پر بھی غور کرنا ہو گا کہ چوہے صرف وہ نہیں جو دیواروں میں سوراخ کرتے ہیں، چوہے وہ بھی ہیں جو قوم کے وسائل کو چٹ کر جاتے ہیں پالیسیوں میں سوراخ کرتے ہیں اور فیصلوں میں دراڑ ڈالتے ہیں، تو ضروری ہے کہ ٹینڈر جاری کرتے وقت یہ سوچنا ہو گا کہ کیا واقعی ان چوہوں کا بھی خاتمہ ہو جائے گا جو عوام کے حقوق کو اپنے نوکیلے دانتوں سے چوہوں کی طرح کْترتے ہیں، اس لیے پارلیمنٹ میں موجود اصلی چوہے ایک علامتی پیغام ہی نہیں ایک حقیقت بھی ہیں کیونکہ سیاسی نظام میں گندگی پھیل چکی ہے۔ یہ چوہے صرف ایک حیاتیاتی مسئلہ نہیں ہیں بلکہ ایک گہرے سیاسی مسئلے کی علامت ہیں۔ جب تک پارلیمنٹ میں سیاسی چوہوں کے خاتمے کا حل نہیں نکالا جائے گا، ملک کی ترقی میں رکاوٹیں برقرار رہیں گی، جیسے چوہے گندگی میں پرورش پاتے ہیں، اسی طرح سیاسی چوہے بھی اس ماحول میں پنپتے ہیں جہاں اخلاقیات کا زوال ہو چکا ہو، یہ زوال سیاست میں جھوٹ، فریب، اور وعدہ خلافی کی صورت میں نظر آتا ہے، سیاست دانوں کو ’’سیاسی چوہے‘‘ اس لیے کہا جاتا ہے کیونکہ وہ خاموشی سے نظام میں گھس کر ذاتی فائدہ اٹھاتے ہیں، اور عوامی فلاح و بہبود کو نظر انداز کر دیتے ہیں، یہ لوگ عوام کے اعتماد کو توڑتے ہیں اور اپنے ذاتی فائدے کو قومی مفاد پر ترجیح دیتے ہیں۔
آخر میں صرف اتنا ہی کہوں گا چوہے جو کبھی اندھیری نالیوں میں چھپتے تھے آج پارلیمنٹ ہائوس کے روشن دلانوں میں گھومتے نظر آ رہے ہیں ا گر حکومت ان چوہوں کو مارنے میں کامیاب ہو گئی تو شاید معزز پارلیمنٹ کی عمارت کو سکون میسر ہو جائے گا، مگر سوال یہ بھی ہے کیا سیاسی چوہے بھی اپنے انجام کو پہنچ پائیں گے، اگر نہیں تو پھر یہ مہم بھی حکومت کی ایک ناکام کوشش ہو گی۔