اور کورٹ مارشل شروع ہو گیا…!

261

چند دن پہلے آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے واشگاف الفاظ میں کہا تھا کہ پاکستان کی بقاء اور سلامتی کے لیے ہزار عاصم منیر قربان کرنے پڑے، تو دریغ نہیں کیا جائے گا، اور ففتھ جنریشن وار کے تحت ملکی سلامتی کے خلاف کام کرنے والوں کو کسی صورت معاف نہیں کیا جائے گا، ان کو انجام تک پہنچایا جائے گا۔ سپہ سالار کے اس بیان سے عوام کو ایک نیا حوصلہ ملا، اور اس کے چند دن بعد ہی جنرل فیض حمید کی گرفتاری پاکستان میں ایک ہاؤسنگ اسکیم کے اسکینڈل کی تحقیقات کے نتیجے عمل میں آئی۔ جنرل فیض حمید، جو سابق ڈی جی آئی ایس آئی رہ چکے ہیں، پر الزام ہے کہ انہوں نے ’’ٹاپ سٹی‘‘ ہاؤسنگ اسکیم سے متعلق ایک نجی رئیل اسٹیٹ کمپنی کے مالک کے خلاف چھاپا مارا اور اس دوران میں طاقت کا ناجائز استعمال کیا۔ یہ معاملہ اس وقت سامنے آیا جب ہاؤسنگ اسکیم کے مالک نے عدالت عظمیٰ میں شکایت درج کروائی۔ عدالت عظمیٰ نے اس معاملے کی تحقیقات کا حکم دیا، جس کے نتیجے میں فوج نے ایک انکوائری کمیٹی تشکیل دی۔ تحقیقات کے بعد، جنرل فیض حمید کو حراست میں لے کر ان کے خلاف پاکستان آرمی ایکٹ کے تحت کورٹ مارشل کا عمل شروع کیا گیا ہے۔

لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید پاکستان کے ایک اہم فوجی افسر تھے، جنہوں نے مختلف عہدوں پر خدمات سرانجام دی ہیں، جن میں سب سے نمایاں حیثیت ڈائریکٹر جنرل انٹر سروسز انٹیلی جنس (ڈی جی آئی ایس آئی) کی تھی۔ فیض حمید نے پاکستان ملٹری اکیڈمی سے کمیشن حاصل کیا اور پاک فوج کی بلوچ رجمنٹ میں شمولیت اختیار کی۔ وہ اپنے کیریئر کے دوران مختلف اہم عہدوں پر فائز رہے، جن میں کمانڈ، اسٹاف، اور انٹیلی جنس اسائنمنٹس شامل ہیں۔ فیض حمید کو 2019 میں ڈی جی آئی ایس آئی مقرر کیا گیا تھا۔ ان کے اس دور میں آئی ایس آئی نے کئی اہم بین الاقوامی اور قومی سطح کے آپریشنز انجام دیے۔ ان کا دور مختلف تنازعات اور سیاسی معاملات کے حوالے سے بھی اہم رہا، اور ان پر الزام لگایا گیا کہ وہ ملکی سیاست میں مداخلت کر رہے ہیں۔ فیض حمید نومبر 2021 میں ریٹائر ہو گئے تھے۔ تاہم، 2024 میں ان پر ’’ٹاپ سٹی‘‘ ہاؤسنگ اسکیم کے اسکینڈل میں ملوث ہونے کا الزام لگایا گیا، جس کے نتیجے میں ان کے خلاف انکوائری ہوئی اور انہیں گرفتار کر کے کورٹ مارشل کا سامنا کرنا پڑا۔ جنرل فیض حمید کا کیریئر پاکستانی فوج اور انٹیلی جنس کمیونٹی میں ایک نمایاں حیثیت رکھتا تھا، اور ان کی گرفتاری نے ملکی سیاست اور عسکری حلقوں میں بڑی ہلچل مچائی۔

پاکستان میں کورٹ مارشل ایک عسکری عدالت کا عمل ہے جو فوجی قوانین کی خلاف ورزی کرنے والے فوجی اہلکاروں کے مقدمات کی سماعت کرتی ہے۔ کورٹ مارشل کے قوانین اور طریقہ کار پاکستان آرمی ایکٹ 1952، پاکستان نیوی آرڈیننس 1961، اور پاکستان ائر فورس ایکٹ 1953 میں وضاحت کی گئی ہے۔ 1۔ جب کسی فوجی اہلکار پر جرم کا شبہ ہوتا ہے، تو متعلقہ یونٹ کے کمانڈنگ افسر الزامات کی تحقیقات کرتا ہے۔ 2۔ اگر کمانڈنگ افسر کو لگتا ہے کہ الزام درست ہے تو وہ ثبوتوں کی سمری تیار کرتا ہے اور اس کے بعد کیس کورٹ مارشل کے لیے بھیجا جاتا ہے۔ 3۔ کورٹ مارشل کا انعقاد، سمری کورٹ مارشل: یہ سب سے سادہ اور فوری کورٹ مارشل ہے، جو عام طور پر نچلے درجے کے جرائم کے لیے ہوتا ہے۔ ڈسٹرکٹ کورٹ مارشل: اس میں زیادہ سنگین جرائم کی سماعت ہوتی ہے اور اس میں جج ایڈووکیٹ کے ساتھ تین فوجی افسران شامل ہوتے ہیں، جنرل کورٹ مارشل: یہ سب سے اعلیٰ سطح کا کورٹ مارشل ہوتا ہے جو انتہائی سنگین جرائم کے لیے ہوتا ہے۔ 4۔ فیصلہ اور سزا: اگر اہلکار کو مجرم پایا جاتا ہے، تو کورٹ مارشل سزا کا اعلان کرتا ہے، جس میں قید، برخاستگی، یا پھانسی بھی شامل ہو سکتی ہے۔ 5۔ اپیل: مجرم اہلکار کے پاس اپیل کا حق ہوتا ہے، اور وہ اپنی سزا کے خلاف اپیل کر سکتا ہے، جو کہ اعلیٰ فوجی یا سویلین عدالت میں سنی جا سکتی ہے، کورٹ مارشل کا عمل مکمل طور پر فوج کے دائرہ اختیار میں آتا ہے، اور یہ سویلین عدالتوں سے مختلف ہوتا ہے۔ کورٹ مارشل کی سماعت کے دوران قانونی مشیروں کا بھی عمل دخل ہوتا ہے، جو کہ ملزم اور فوج دونوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ کورٹ مارشل کا مقصد فوج کے نظم و ضبط کو برقرار رکھنا اور انضباطی کارروائیوں کو یقینی بنانا ہے۔ شنید ہے کہ اس کورٹ مارشل کے ذریعے، ملک بھر میں 9 مئی کے واقعات، ارشد شریف کے قتل اور ملک بھر میں فیک نیوز پھیلانے جیسے نیٹ ورک بارے میں ہوشربا معلومات حاصل ہوں گی۔

جنرل عاصم منیر نے جس جرأت اور عزم کے ساتھ اپنے گھر سے صفائی کا آغاز کیا ہے، وہ ملک و قوم کے لیے ایک روشن مثال ہے۔ انہوں نے ثابت کر دیا ہے کہ قوم کی خدمت اور ملک کی بقاء کے لیے کسی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کیا جائے گا۔ جنرل عاصم منیر کے اس قدم نے یہ پیغام دیا ہے کہ پاکستان کی سلامتی اور وقار سے کھیلنے والوں، ملک میں افراتفری پھیلانے والوں، اداروں کے خلاف اکسانے والوں کو کسی صورت معاف نہیں کیا جائے گا۔ جنرل عاصم منیر کا یہ جرأت مندانہ اقدام ہمارے روشن مستقبل کی ضمانت ہے۔