نتاشا اور سوشل میڈیا

165

کارساز پھر مشہور:
کراچی میں ٹریفک حادثات کو ئی نئی بات نہیں۔پوری دُنیا میں ٹریفک حادثات ایک لازمی امر ہیں۔گذشتہ ہفتے شام 6 سے 7 کے درمیان ،کراچی کی معروف سڑک کارساز پر یہ حادثات کی ترتیب ہوئی ۔کارساز سڑک ویسے بھی کراچی میں کئی حوالوں سے مشہور ہے ۔ہوا یہ کہ ایک لینڈ کروزر گاڑی جس کی قیمت اس وقت 8 کروڑ روپے کے قریب ہےاُس نے ایک موٹر سائیکل سوار باپ بیٹی کو ایسی طاقتور ٹکر ماری کہ وہ موقع پر جاں بحق ہو گئے۔لینڈ کروزر ایک خاتون چلا رہی تھی جو اُس کے بعد مزید بھاگی اس دوران مزید ایک گاڑی کو ٹکر ماری پھر بھری سڑک پر اس درندگی دیکھ کر جب لوگ جمع ہوئے تو لینڈ کروزر مزید بے قابو ہوکر سڑک کی ایک جانب ٹکرا کر اُلٹ گئی۔موقع پر عوام اور رینجرز پہنچ گئی کیونکہ وہ سڑک انتہائی حساس ہے۔بعد میں معلوم ہو اکہ وہ خاتون موٹرسائیکل سے پہلے بھی ایک گاڑی کو ٹکرا کر بھاگی تھی۔ خاتون کی جو وڈیو ز سوشل میڈیا پر آئیں ، وہ صاف بتا رہی ہے کہ خاتون اپنے ہوش و حواس میں نہیں تھی ، غالب گمان یہی ہے کہ وہ ’’خاص ‘‘نشے کی حالت میں تھی۔ اس بات کی تصدیق اُس فوٹیج سے ہوا جس میں موٹر سائیکل سوار کو ٹکر مارنے سے قبل وہ خاتون جس طرح لہراتے ہوئے انداز سے گاڑی چلاتی ہوئی ایک اور گاڑی اور دو موٹر سائیکل سواروں کو جیسے ٹکر مارتی ہے وہ اُس کی حالت سمجھانے کا خاصا اچھا ثبوت ہے۔

نتاشا :
سوشل میڈیا پر ایک بار پھر زبردست مباحث چھڑ گئے، خاتون ، جس کا نام ’نتاشہ اقبال زوجہ دانش اقبال بتایا گیا ہے ، اُ س کی ‘مخصوص حالت‘ کو ذہنی مریضہ کا عنوان دینے کی جو بھی کوشش کی گئی وہ یوں ناکارہ ہوگئی کہ لوگوں نے خاتون کا سارا بائیو ڈیٹا نکال کرشیئر ر دیا ۔ اُس کے مطابق وہ خاتون ’نتاشا‘ کوئی 9 کمپنیوں کی مالکن( چیف ایگزیکٹیو آفیسر) تھی اس میں گل احمد سمیت کئی آزاد پاور کمپنی بھی شامل ہے ۔ اَب ظاہر سی بات ہے کہ 9 بڑے بڑے اداروں کی مالکن کیسے ذہنی مریضہ ہو سکتی ہے۔ سوشل میڈیا پوسٹوں سے ثابت کیا گیا کہ خاتون اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی ہے۔ یہ خاتون اعلیٰ تعلیم یافتہ اور کئی کمپنیوں کی مالکن ہی نہیں بلکہ وہ ملک کی ایلیٹ کلاس ارب پتی گھرانے سے تعلق رکھتی ہے۔عدالت نے سارے معاشرتی دباؤ کی وجہ سے ارب پتی خاتون کو جیل ریمانڈ پر بھیج دیا ہے۔ مجرم خاتون کے وکیل عامر منصوب نے نتاشا کو نفسیاتی قرار دے دیا اور عدالت میں بیان حلفی دیا کہ خاتون ذہنی مریضہ ہے ، خاتون کے پاس برطانیہ کا ڈرائیونگ لائسنس ہے جو حیرت انگیز طور پر پاکستان میں قابل قبول نہیں ہوتا ۔ویسے بھی یہاں سے نیا سوال پیدا ہوگیا کہ ایک ذہنی مریضہ کو برطانیہ کیسے ڈرائیونگ لائسنس جاری کرسکتا ہے؟پھر ایسی مریضہ کے ہاتھ میں ایسی خطرناک گاڑی کیسے دے دی گئی؟ ایسی مریضہ کو باندھ کر ، بند کمرے میں رکھا جاتا ہے مگر اُس کو کیسے کھلا چھوڑ دیاگیا؟

 

سوشل میڈیا تبصرے:

 

سوشل میڈیا پر دوسری جانب متوفی خاتون اور اُس کے غریب باپ کی داستانوں کو بھی گلوریفائی کیا جاتا رہا۔ گلزار ہجری اسکیم 33 میں یہ رہتے تھے ۔ ماں باپ نے محنت مزدوری کرکے بچی کو تعلیم دلائی اور نوکری کرکے وہ باپ کا ہاتھ بٹا رہی تھی۔ متوفی کا بھائی والد سے علیحدہ ہو چکا تھا، بڑی بہن شادی ہو کر جا چکی تھی، والدین کے ساتھ صرف یہ چھوٹی بیٹی ہی تھی جو گھر کی مالی طور پر مدد کر رہی تھی ۔دوسری جانب نتاشا کی صفائی میں یہ بیانیہ جاری کیا گیا کہ ،’’نتاشا اقبال سے ایک اتفاقی ایکسیڈنٹ ہوا ہے ، جان بوجھ کر قتل نہیں کیا،نتاشا اپنی لائن میں جارہی تھی موٹر سائیکل اچانک سامنے آئی جس پر بہت افسوس ہے۔‘‘ یہ بھی کہا گیا کہ نتاشا کا اپنے شوہر سے جھگڑا رہتا تھاکہ اُس کا شوہر ناجائز تعلقات میں ملوث تھا۔ ایک جانب یہ بھی کہا گیاکہ ’’اگر کسی لڑکی نے دو ، چار انسانوں کو مار دیا ہےتو آپ کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ آپ اُس کو ہاتھ لگائیں ، اُس کو ہراساں کریں، بدسلوکی کریں، بدتمیزی کریں۔‘‘یہ والے کمنٹس دیکھ کر تو بہت غصہ آیا کہ ’ ہمارے ملک میں مجمع کے بارے میں تو کچھ اور کہا جاتا ہے ، مگر یہاں تو ایسا کچھ نہیں ہوا۔محض ہاتھ لگانے کو ایشو بنانے کی ہمت کیسے کوئی کر سکتا ہے؟ جس کو زندہ جلایا جا سکتا تھا ، اُس پر محض دو چار جملے کسے گئے ، یا ہوش میں لانے کے لیے ہاتھ لگایاگیا؟

 

روشن ماضی:

 

بہرحال ہم جانتے ہیں کہ ماضی میں پاکستان میں تواتر سے یہ واقعات ہوتے رہے ہیں ۔ امیر زادے ہمیشہ بچ کر نکل جاتے ہیں ۔ شاہ رخ جتوئی کیس سے لیکر کوئٹہ میں چوک پر کھڑے پولیس کانسٹیبل کی موت تک ، رانی پور (خیر پور )کی حویلی میں معصوم بچی فاطمہ کا کیس تو بالکل تازہ ہے، حویلی کے با اثر ، امیر وڈیرے بے گناہ قرار پاگئے۔عجیب صورتحال ہے کہ بچی مر گئی مگر اسکا کوئی قاتل ہی نہیں۔یہ ایک دو نہیں ڈھیروں کیسز ہیں۔ دیت کی رقم کے بارے میں بھی ڈسکشن شروع ہو گیا ہے جو کہ قابل از وقت کہا جا رہا ہے۔ متوفیوں کے گھر میں اب ایک بوڑھی ماں کے علاوہ باقی بچا ہی کون ہے؟اب اگر وہ بوڑھی خاتون ہمت کر کے طے کر لے کہ ’نشئی ‘خاتون کوسزا دلواکر مثال قائم کرنی ہے تو عین ممکن ہے کہ پورا معاشرہ اُس کے ساتھ کھڑا ہوجائے۔مگر ہم جانتے ہیں کہ ایسا آسان نہیں ، کیوں نہیں ، ہم اس موضوع پر بات کرنے کو تیار نہیں ۔ اس سچ کو ہضم کرنے ، اِس حقیقت کا سامنا کرکے اپنی حالت بدلنے کو تیار نہیں۔اس لیے کہ ہم ایک نو آبادیاتی جبر سے نکلے ہیں اور ’’سرمایہ دارانہ نظام‘‘کو اپنانے کی دوڑ میں لگ گئے ہیں ۔ یہ نظام ایک ظلم کی ایسی شکل میں یوں ہی رہے گا کیونکہ ایک مخصوص طبقہ ہی اس سے ہمیشہ فائدہ اٹھائے گا ، دوسرا محروم ہی رہے گا ، وہ احساس محرومی میں مستقل رہے گااور اچھی زندگی کےحصول کے لیے مستقل دوڑتا رہے گا ۔ اس پوری دوڑ سے صرف سرمایہ دار ہی امیر ہوتا رہے گا؟

سڑک کی نفسیات:
ویسے تو ہمارے چیف ایڈیٹر شاہنواز فاروقی اس موضوع پر ایک جامع کالم جسارت میں شائع کر چکے ہیں۔میں تازہ کیس کی نسبت مباحث کی وجہ سے اُس کالم کی تفہیم دوبارہ دہراؤں گا۔سڑک کی اپنی نفسیات ہے، یہ سڑک ، یہ ٹریفک اپنی نہاد میں ، اپنے جوہر میں غیر اقداری نہیں بلکہ خالص ’’منفی قدر ‘‘رکھتے ہیں، یہ سرمایہ کی قوت ، سرمایہ کی پشت پر کھڑی ایک ایسی چیز ہے جس کے اظہار سے مجھے سوشل میڈیا بھرا نظر آیا۔یہ سڑکوں کی تاریخ انتہائی خونی اور ہولناک ہے۔یہ تاریخ بھی نوٹ کرلیں کہ موجودہ سڑکوں کا جال 20ویں صدی میں استعمار نے اپنے سرمایہ دارانہ مقاصد کے لیے بچھایا تھا اس لیے اس کے اندر انسانی جانوں کا قتل، اُن کی معذوری لازمی ہے۔یہ سارے کیسز آپ کو مشینی دور سے قبل کی سواریوں میں نہیں ملیں گے کیونکہ آپ جس جاندار پر سفر کرتے تھے وہ آپ کو جانتا تھا، پہچانتا تھا اسکی وفاداری تھی، وہ زخمی ہوکر بھی آپ کا ساتھ نبھاتا تھا ، اس کے پاس ایسی حس تھی کہ اندھیرے میں ، کئی دن کی بھوک پیاس کے باوجود کام کرتا تھا۔ یہ کام آپ کی گاڑی نہیں کر سکتی کیونکہ اس کوپیٹرول ،ا ٓئل سمیت لاتعداد چیزوں کی ضرورت ہے اس کے بغیر وہ کچھ نہیں کر سکتی۔ یہ بات بھی ایک درجے میں درست ہےکہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ بندہ جو کراچی میں بڑے مزے سے ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرتا ہے اگر وہ ’’اسلام آباد، دبئی یا یورپ چلاجائے تو خود سیدھا ہوجاتا ہے۔‘‘یہ بات صرف اس لیےدرست ہے کہ وہاں رشوت لیکر چھوٹنا اتنا آسان نہیں ہوتا۔مگر میں آپ کو امریکہ، یورپ ، جاپان سب کی مثال پیش کردیتا ہوں تاکہ آپ سمجھ جائیں کہ یہ سب بے کارباتیں ہیں۔یہ حادثات امیر غریب ، قانون کی پابندی اور عدم پابندی کی تفریق سے ماورا ہیں ۔ یہ امریکہ ، یورپ ، کینیڈا سمیت ہر جگہ مستقل ہوتے ہیں، جہاں ٹریفک ہو ، سڑک ہو، بے شک قوانین کی بھرمار ہو۔ صورتحال یہ ہے کہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کو دنیا کے کسی بھی ملک کے سب سے زیادہ سالانہ کار حادثات کا اعزاز حاصل ہے ۔عالمی ادارہ صحت کے مطابق بھارت میںہر سال 150000 لوگ ٹریفک حادثات میں مرتے ہیں۔ چین میں تعداد اموات کی ڈھائی لاکھ ہے۔یہ تو مرنے والوں کی تعداد ہے زخمی و معذور ہونے والوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ 2019 میں امریکہ میں ساڑھے 19 لاکھ کار ایکسیڈنٹ رپورٹ ہوئے ۔اس کے بعد جاپان ہے جس میں 540000 کی تعدادسالانہ ٹریفک حادثات کی ہے ۔ یہ ایک سال کے حادثات و اموات کی تعداد صاف بتا رہی ہے کہ یہ سارا خونی کھیل ہے۔ آپ سڑک پر گاڑی چلاتے وقت مکمل طور پر بے اختیار ہوتے ہیں، کچھ نہیں معلوم کب آپ کی گاڑی کے بریک فیل ہوجائیں، ٹائر پنکچر ہوجائے، کرنٹ بند ہوجائے ، چین ٹوٹ جائے ، پلگ شارٹ ہوجائے اور پیچھے سے حادثہ ہوجائے ، کوئی ڈمپر ، کوئی کار آپ کو کسی بھی وقت کچل جائے چاہے آ پ پوری قوانین کی پابندی ہی کیوں نہ کر رہے ہوں۔ تو ضروری ہے کہ آپ اس ’سڑک کی نفسیات‘ سے آگاہ ہوں۔ یقین مانیں ایسے میں آیت الکرسی و دیگر دُعاؤںکے علاوہ آپ کا کوئی سہارا نہیں ۔

 

گاڑی کی معاشرتی قدر :

 

اس ’ٹریفک‘ کی منفی قدر کا اندازہ آپ یوں بھی کریں کہ ایک شخص ہونڈا سی ڈی 70موٹرسائیکل سے اُترے اور ایک شخص چمکتی دمکتی ہونڈا سوک گاڑی سے اُترے تو دونوں کو دیکھ کر آپ کے ذہن میں کیا تاثر پیدا ہوگا ۔ جو بھی ہوگا وہ اُس شے کی قدر ہوگی ۔ آپ کے نزدیک لاکھ تکریم انسان کی ہو مگر ہونڈا سوک والا ، موٹر سائیکل والے کی نسبت اِس تکریم میں بازی لے جائے گا۔ اب آپ سڑک پر آجائیں اور ترتیب دیکھیں، تانگے سے سائیکل پھر موٹر سائیکل ، پھر رکشہ، پھر ٹیکسی ، پھر بس،منی بس ، کار، بڑی کار، جیپ، پھر ویگو، ڈالے ، یہی نہیں کنٹینر، ٹرک سمیت یہ پوری ترتیب ہے جو سڑک پر آٹو میٹک درجات پید اکرتی ہے۔ یہ ویگو، ڈالا ، جیسی گاڑیاں کیوں خریدی جاتی ہیں؟یہ اندر سے صرف 4 سیٹر گاڑی ہے اس کے باوجود کوئی اِس کی عقلی توجیہہ بھی نہیں دے سکتا ماسوائے ایک ایسے ’’اسٹیٹس سمبل‘‘ کے ۔ یہ لوگ لائن میں لگتے نظر نہیں آئیں گے۔ اندازہ کریں کہ امیر جماعت اسلامی پاکستان 3ماہ سے چیخ چیخ کر ملک میں جن امیروں پر ٹیکس لگانے کا کہہ رہے ہیں وہ دراصل یہی ’’ویگو‘‘ والے ہیں ۔ اس گاڑی میں اُتر کر آپ جہاں ، جس جگہ ، جس دفتر ، جس محفل میں جاتے ہیں وہاں آپ کا مقام از خود تبدیل ہو جاتا ہے ۔ یہ ہے گاڑی کی ’’منفی قدر‘‘ یعنی صرف گاڑی رکھنے سے ویلیو تبدیل ہوجائے اور جس کے پاس وہ گاڑی نہ ہو بے شک وہ آپ سے زیادہ متقی ، پرہیز گار، عقلمند، ذہین، باصلاحیت ہی کیوں نہ ہو ، ویگو والا ، ڈالے والا آپ سے بہتر درجے میں ’ٹریٹ‘ ہوگا۔میں نے شروع میں بتایا کہ کراچی میں ٹریفک حادثات نئے نہیں ۔ نتاشا کے حادثے کے اگلے ہی دن ’’گلستان جوہر میں موٹر سائیک پر سوار ایک خاتون کو ایک ڈمپر نے کچل کر ہلاک کردیا تھا۔‘‘ یہ خبر کیوں نمایاں نہیں ہو رہی ؟ اس کے بعد مزید حادثات ہوئے ہیں مگر یقین مانیں اسٹوری صرف ’’نتاشا‘‘ کی کیوں؟ اس لیے کہ 8 کروڑ کی لینڈ کروزر، نتاشا سرمایہ دار ہے، جس کا ’’ڈمپر ڈرائیور ‘‘ سے کوئی سماجی، معاشی موازنہ نہیں ممکن ۔ اس لیے وہ خاتون موٹرسائیکل سوارکی بھی کوئی سُنوائی نہیں۔

مبارک کیس فیصلہ:
الحمد للہ ۔ ملعون مبارک ثانی کیس کے سلسلے میں اہل حق کو کامیابی مل گئی۔چیف جسٹس سپریم کورٹ کی جانب سے 6 فروری 2024 کو مجرم کی ضمانت ، اسکے بعد 24 جولائی 2024 کو نظر ثانی کا متنازعہ فیصلہ 22 اگست کو تیسری مرتبہ زیر سماعت لایا گیا۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ کے جاری کردہ مختصر فیصلے کے مطابق سابقہ دونوں فیصلوں سے متنازعہ پیراگراف نکال دیئے ہیں اور ساتھ ساتھ ٹرائل کورٹ کو اصل کیس کے مطابق ٹرائل چلانے کی ہدایت کی گئی ہے ۔ مجرم مبارک ثانی پر جو تحریف قرآن اور اسکی تقسیم کے سنگین جرم کی دفعات تھیں وہ ویسے ہی برقرار ہو گئی ہیں۔ساتھ ہی یہ بھی طے ہوگیا کہ 24 جولائی کا فیصلہ بھی کسی کیس میں بطور مثال پیش نہیں کیا جا سکتا۔6 ماہ کی یہ طویل قانونی جنگ تھی جو پوری قوم نے اپنے نبی پاک ﷺ کے ناموس کی خاطر لڑی۔ایسی صورتحال میں چیف جسٹس کو ضمانت واپس لینی چاہیے تھی کیونکہ اگر 295 کی دفعہ بحال ہو گئی ہے تو اس میں قانونی طور پر ضمانت نہیں دی جا سکتی ۔ علمائے کرام نے بھی یہی کہا ہے ۔تاہم ابھی تفصیلی فیصلہ آنا باقی ہے۔ ہم مدعی مقدمہ حسن معاویہ کے ساتھ تمام دینی جماعتوں ، دینی اداروں، علمائے کرام ، اراکین پارلیمنٹ کا شکریہ بھی ادا کرتے ہیں کہ اس موقع پر اُن سب نے اتحاد اور اجماعی فیصلے کی مثال قائم کر دکھائی۔قوم ناموس رسالت ﷺ کے معاملے پر بالکل یکسو ہے اور کوئی گنجائش نہیں دینا چاہتی۔ مرزا کو اگر اُس کے ظہور و اعلان کے وقت ہی نمٹا دیا جاتا تو یہ انتہائی پیچیدہ صورتحال نہ ہوتی ۔