ناموسِ رسالت اور عصمت ِ انبیاء ایمان کا لازمی جزو

472

’’عصمت رسالت‘‘ سے مراد رسول اللہؐ اور دیگر انبیاء کرامؑ کی معصومیت ہے، یعنی انبیاء کرام کو اللہ تعالیٰ نے گناہوں سے محفوظ رکھا ہے۔ انبیاء کرام کو غلطیوں اور گناہوں سے پاک اور معصوم سمجھا جاتا ہے تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کا پیغام صحیح اور بے خطا طور پر انسانوں تک پہنچا سکیں۔ اس عقیدے کے مطابق، انبیاء کرام کے کردار، گفتار اور عمل میں کوئی بھی ایسی بات شامل نہیں ہوتی جو اللہ کی مرضی کے خلاف ہو۔ اسلامی تعلیمات میں عصمت رسالت کا تصور انتہائی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس کے بغیر نبی کی تعلیمات اور پیغام پر ایمان لانا مشکل ہو جائے گا۔ اس لیے مسلمانوں کا ایمان ہے کہ رسول اللہؐ کی زندگی ہر قسم کی خطا اور لغزش سے پاک ہے اور آپؐ کی ذات مبارکہ مکمل طور پر اللہ کے احکامات کے مطابق ہے۔ موجودہ دور میں شاتم رسول مختلف افراد اور گروہوں کی صورت میں سامنے آئے ہیں۔ یہ افراد یا گروہ مختلف ذرائع استعمال کرکے رسول اللہؐ کی شان میں گستاخی کرتے ہیں۔ ان کے اقدامات مسلمانوں کے دلوں میں شدید غم و غصّہ پیدا کرتے ہیں، اور اس کے نتیجے میں مسلم دنیا میں احتجاج اور ردّعمل سامنے آتا ہے۔

’’ناموسِ رسالت‘‘ اور عظمت کی حفاظت اور دفاع یہ عقیدہ اور جذبہ مسلمانوں کے دلوں میں بہت گہرا ہے کہ رسول اللہؐ کی شان میں کوئی گستاخی یا بے ادبی برداشت نہیں کی جا سکتی۔ اسلامی تاریخ میں، نبی کریمؐ کی ناموس کے دفاع کو ہمیشہ اہمیت دی گئی ہے۔ مسلمانوں کے عقیدے کے مطابق، رسول اللہؐ کی ذات پاک پر ایمان اور محبت کا تقاضا یہ ہے کہ ان کی عزت اور حرمت کی حفاظت کی جائے اور ہر طرح کی توہین و گستاخی کی سخت مخالفت کی جائے۔

آج کے دور میں بھی ناموسِ رسالت کے حوالے سے بہت حساسیت پائی جاتی ہے، اور جب بھی کوئی اس حوالے سے نازیبا یا گستاخانہ عمل کرتا ہے، تو مسلمان دنیا بھر میں اس کے خلاف احتجاج کرتے ہیں اور اس کے ردِعمل میں قانونی یا سماجی اقدامات اٹھانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ رسول اللہؐ کی شان رسالت میں جان و مال کی قربانی دینا مسلمانوں کے ایمان کا ایک اہم جزو ہے۔ یہ عقیدہ اس بات پر مبنی ہے کہ نبی کریمؐ کی محبت اور عزت ایمان کا تقاضا ہے اور اس محبت میں کسی بھی قسم کی قربانی دینا، چاہے وہ جان کی ہو یا مال کی، باعث ِ فخر اور ثواب ہے۔ تاریخ اسلام میں بے شمار مثالیں ملتی ہیں جہاں صحابہ کرامؓ نے رسول اللہؐ کی محبت اور ان کی عزت و حرمت کے لیے اپنی جان و مال قربان کیے۔ غزوات اور جنگوں میں صحابہ کرامؓ نے اپنی جانیں دے کر رسول اللہؐ کی حفاظت کی اور آپؐ کی شان میں کسی بھی قسم کی بے حرمتی کو روکنے کے لیے ہمیشہ تیار رہے۔ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ رسول اللہؐ کی محبت دنیا کی ہر چیز سے زیادہ قیمتی ہے، اور اس محبت کا تقاضا ہے کہ اگر کبھی ضرورت پیش آئے تو اپنی جان اور مال بھی قربان کر دی جائے۔ اس جذبے کا مقصد صرف رسول اللہؐ کی ذات کی حفاظت نہیں، بلکہ اسلامی اقدار اور اصولوں کی بقا کے لیے بھی یہ قربانی دی جاتی ہے۔

آج بھی مسلمان رسول اللہؐ کی شان میں کسی بھی گستاخی کو برداشت نہیں کرتے اور اس کے خلاف ہر ممکن اقدامات اٹھانے کے لیے تیار رہتے ہیں، چاہے اس کے لیے جان کی قربانی ہی کیوں نہ دینی پڑے۔ ناموسِ رسالت پر جان و مال کی قربانی دینے والوں کی اہمیت اور افادیت اسلامی تاریخ اور عقیدے میں انتہائی بلند مقام رکھتی ہے۔ ان لوگوں کو ایمان کی اعلیٰ ترین مثال سمجھا جاتا ہے، کیونکہ وہ اپنی جان و مال کی پروا کیے بغیر رسول اللہؐ کی عزت و حرمت کے دفاع کے لیے میدان میں اترتے ہیں۔ جو لوگ ناموسِ رسالت کے لیے جان و مال کی قربانی دیتے ہیں، ان کا ایمان بہت مضبوط اور پختہ ہوتا ہے۔ یہ افراد اللہ اور اس کے رسول کی محبت کو دنیا کی ہر چیز پر فوقیت دیتے ہیں اور اسی محبت کے تحت اپنی جان و مال کو قربان کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ ناموسِ رسالت پر قربانی دینے والے افراد کی قربانیاں اس بات کی گواہ ہوتی ہیں کہ وہ اسلامی اقدار اور نبی کریمؐ کی عزت و حرمت کے لیے ہر ممکن کوشش کرتے ہیں، چاہے اس کے لیے انہیں اپنی جان کی بازی کیوں نہ لگانی پڑے۔ یہ لوگ امت مسلمہ کے لیے ایک زندہ مثال ہوتے ہیں۔ ان کی قربانیاں آنے والی نسلوں کے لیے حوصلہ اور جذبہ فراہم کرتی ہیں، اور انہیں اس بات کا درس دیتی ہیں کہ رسول اللہؐ کی محبت اور عزت کے لیے ہر طرح کی قربانی دینا ایک مسلمان کا فرض ہے۔

ناموس رسالت کے دفاع کے لیے دی جانے والی قربانیاں اسلامی شعائر کی حفاظت کا ذریعہ بنتی ہیں۔ یہ قربانیاں دشمنان اسلام کو یہ پیغام دیتی ہیں کہ مسلمان اپنی مقدس ہستیوں کی حرمت کی حفاظت کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ اسلامی عقیدے کے مطابق، جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کے لیے اپنی جان و مال قربان کرتے ہیں، انہیں اللہ کی رضا حاصل ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو دنیا میں عزت اور آخرت میں جنت کی بشارت دیتا ہے۔ ان وجوہات کی بنا پر، ناموسِ رسالت پر جان و مال کی قربانی دینے والوں کو اسلامی تاریخ میں ہمیشہ عظیم مقام حاصل رہا ہے، اور ان کی افادیت اور اہمیت ہمیشہ برقرار رہے گی۔ صحابہ کرامؐ نے رسول اللہؐ کی محبت میں اپنے مال و اسباب کو قربان کیا۔ کئی مواقع پر انہوں نے اپنی املاک، تجارت اور وسائل کو رسول اللہؐ کی خاطر چھوڑ دیا۔ ان کی یہ قربانیاں اسلامی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھی جاتی ہیں۔ دنیاوی چیزیں اور آسائشیں مسلمانوں کے لیے ثانوی ہیں جب بات رسول اللہؐ کی حرمت کی ہو۔ ایسے افراد کے ایمان کی پختگی اور دینی غیرت کو بہت بلند مقام دیا جاتا ہے۔

اسلامی تعلیمات کے مطابق، جو شخص رسول اللہؐ کی خاطر اپنے املاک کا نقصان برداشت کرتا ہے، اس کے لیے آخرت میں عظیم جزا کا وعدہ ہے۔ قرآن اور احادیث میں اس بات کا ذکر موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے راستے میں دی جانے والی ہر قربانی کا بہترین بدلہ عطا فرماتا ہے۔ جب کوئی فرد ناموسِ رسالت کے لیے قربانی دیتا ہے، تو یہ دوسرے مسلمانوں کے لیے بھی ایک مثال اور حوصلہ بن جاتی ہے۔ اس طرح کی قربانیاں امت مسلمہ کے لیے جذبۂ ایمانی کی تجدید کا باعث بنتی ہیں۔

ناموس رسالت کے دفاع میں مال اور جان کی قربانی دینے والوں کو جنت کی بشارت دی گئی ہے۔ ان کا یہ عمل اللہ کے ہاں مقبول اور باعث ِ اجر ہوتا ہے۔ رسول اللہؐ نے فرمایا کہ جو کوئی اللہ کے راستے میں مال خرچ کرتا ہے، اللہ اسے سات سو گنا بڑھا کر واپس کرتا ہے۔ ناموسِ رسالت کے لیے مال کی قربانی اس سے بھی بلند مقام رکھتی ہے، جس پر اللہ تعالیٰ کی جانب سے اجر عظیم عطا کیا جاتا ہے۔

صحابہ کرامؓ نے بھی رسول اللہؐ کی ناموس کی خاطر اپنے مال و املاک قربان کیے اور ان کی قربانیوں کو اللہ تعالیٰ نے قبول فرمایا۔ آج ان کا ذکر خیر اور ان کی قربانیوں کا اجر مسلمانوں کے لیے مشعل راہ ہے۔ ایسے افراد کی قربانیاں امت مسلمہ کے لیے ایک سبق اور مثال بنتی ہیں، جس سے ایمان کی تازگی اور تقویت حاصل ہوتی ہے۔ ان کی قربانیوں کو دیکھ کر دیگر مسلمانوں میں بھی جذبۂ ایمانی کی تجدید ہوتی ہے۔

مسلم دنیا میں ان شاتم رسول کے خلاف سخت ردِعمل ظاہر کیا جاتا ہے، اور اکثر ممالک میں ایسے افراد کے خلاف قانونی کارروائیاں کی جاتی ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ، عالمی سطح پر مسلمانوں کی جانب سے پر امن احتجاج، بائیکاٹ، اور دیگر ذرائع سے اپنے غم و غصّے کا اظہار کیا جاتا ہے۔ ان واقعات سے ایک بات واضح ہوتی ہے کہ مسلمانوں کے لیے رسول اللہؐ کی عزت و حرمت کا معاملہ انتہائی حساس ہے، اور اس میں کسی بھی قسم کی گستاخی برداشت نہیں کی جا سکتی۔ مسلمان ہمیشہ سے ایسے واقعات کے خلاف آواز اٹھاتے رہے ہیں اور اٹھاتے رہیں گے۔