بنگلا دیش کے ادھورے انقلاب سے کچھ لوگ یہ امید لگا بیٹھے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بھی شاید کوئی انقلاب آجائے۔ حقیقت یہ ہے کہ بنگلا دیش میں، فرقے اور قومیتیں نہیں، ایک فرقہ اور ایک ہی قوم یعنی بنگالی قوم رہتی ہے۔ جب کہ وطن عزیز قومیتوں اور فرقوں کی نعمتوں سے مالا مال ہے۔ کبھی آپ نے غور کیا ہے کہ بجلی کے ریٹ بڑھنے پر غریب بھڑک اٹھے ہوں۔ انہوں نے روڈ بلاک کردیے ہوں۔ ہنگامہ کھڑا کردیا ہو۔ نہیں کبھی نہیں۔ لیکن جب بجلی بند ہوجائے تو یہ فوراً باہر نکلتے ہیں راستے بند کردیتے ہیں۔ توڑ پھوڑ کرتے ہیں۔ نجی اور سرکاری املاک کو اور گاڑیوں کو نقصان پہنچاتے ہیں جلا دیتے ہیں۔
میرے ملک میں کرپشن کے خلاف تحریک کیوں موثر نہیں ہوتی تو عرض ہے کہ عام تاثریہ ہے کہ مفتی کرپٹ ہے، ملا کرپٹ ہے، مدرس کرپٹ ہے، استاذ، ٹیچر، پروفیسر کرپٹ ہے، تاجر، صنعت کار، مزور کرپٹ ہے، ڈاکٹر، حکیم، طبیب، نرس کرپٹ ہے، کسٹم والا، پولیس، جج، وکیل، افسر شاہی کرپٹ ہے تو پھر…!
کیوں؟ کیوں کہ بجلی کی قیمتیں بڑھنے سے ان کی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ان کے کنڈے لگے ہوئے ہیں۔ چارجز ماہانہ فکسڈ ہیں۔ یہ سہولت ان کو کون دے رہا ہے کچھ بتانے کی ضرورت نہیں۔ کیا یہ ممکن ہے کہ بجلی چور، گیس چور، پانی چور، غریب کرپشن کے خلاف اٹھے گا۔ کیا ملاوٹ کرنے والا دودھ فروش، کم تولنے والا سبزی والا، دھوکے سے گلے سڑے پھل بیچنے والا پھل فروش، چھتیس لیٹر کی ٹینکی میں پینتالیس لیٹر ملاوٹ زدہ پٹرول ڈیزل ڈالنے والا پٹرول پمپ مالک یا پٹرول پمپ کا ملازم، بڑے چھوٹے سپر اسٹورز کے کرپٹ مالک وملازم یا حرام سے پلنے والی ان کی اولادیں کرپشن کے خلاف مہم چلائیں گے۔
بنگلا دیش جیسی کسی تحریک کی کامیابی ناکامی کے تجزیے میں یہ ملحوظ خاطر رہے کہ ایک تو یہ کہ یہ ’’پاکستانی‘‘ نام کی چیز کوئی قوم ہے ہی نہیں۔ یہ اپنی آزادی کے باجے بجانے والا ایک بے ترتیب بے مقصد بے ہنگم بے سمت کرپٹ انسانوں کا ریوڑ ہے۔ تو کرپٹ ریوڑ کرپشن کے خلاف کیسے اٹھ سکتا ہے۔ اس ’’قوم نما‘‘ کو کئی تقسیموں کا سامنا ہے۔
عقیدے کے نام پر یہ مسلکوں میں تقسیم ہے۔ ہر مسلک کو (الا ماشاء اللہ) اپنے سچے ہونے اور ربّ کا چہیتا ہونے اور دوسرے مسلک کے جھوٹا ہونے کا کامل یقین ہے۔ مسجدیں مسلکی ہیں، مدرسے مسلکی ہیں، علماء مسلکی ہیں، مفتی مسلکی ہیں حتیٰ کہ ’’ولی‘‘ بھی مسلکی ہیں۔ قرآن وحدیث کی تشریحات اور فقہی تعبیریں مسلکی ہیں۔ ’’اسلامی ٹچ‘‘ اب سیاستدانوں سے ہوتا ہوا بہت آگے نکل گیا ہے۔
ایک اور بہت بھیانک اور مضبوط تقسیم نسلی، علاقائی اور لسانی تقسیم ہے۔ انسانوں کی اس وسیع بستی میں ہر قومیت کی رہائش گاہ کا دروازہ دوسری قومیتوں کے پچھواڑے کی جانب کھلتا ہے۔ لیکن قومیتوں کے گدھ لیڈر اکٹھے بیٹھ کر اپنی اپنی قومیتوں کے پرندوں کا گوشت اطمینان سے نوچتے ہیں۔ پاکستانی قوم کے نام پر بنے اس باڑے میں پاکستانی قوم نہیں، پانچ دس قومیتیں رکھی گئی ہیں۔ یہ قومیتیں کسی نظریے کی وجہ سے نہیں ’’چوکیدار‘‘کے ڈنڈے کے خوف سے متحد ہیں۔ رہا ظلم، مہنگائی اور کرپشن کا معاملہ تو کیا مہنگائی، ظلم اور کرپشن صرف حکمران کرتے ہیں۔ کیا مہنگائی بڑھانے میں تاجر شریک نہیں ہے جو ڈالرکے نام پر اشیاء کی قیمتیں بڑھاتا چلا جاتا ہے چاہے ڈالر کی قیمت کم ہو یا بڑھے۔ کیا مہنگائی بڑھانے میں ٹرانسپورٹر شریک نہیں ہے جو پٹرول کی قیمت بڑھے تو کرایہ کئی گنا بڑھا دیتا ہے اور کم ہو تو کرائے میں کمی کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔
اس اعتراف کے ساتھ کہ عمومی زوال اور اس گئے گزرے دور میں بھی ہر شعبہ حیات میں اہل ایمان، اہل خیر اور اچھے لوگ موجود ہیں۔ برائی کا غلبہ ہے مگر دنیا خیر سے یکسر خالی نہیں ہوئی ہے۔ عام تاثر یہ ہے کہ مفتی کرپٹ ہے، ملا کرپٹ ہے، مدرس کرپٹ ہے، استاذ، ٹیچر، پروفیسر، معلم کرپٹ ہے، تاجر، صنعت کار، مزدور کرپٹ ہے، ڈاکٹر، حکیم، طبیب، نرس کرپٹ ہے۔ کسٹم والا، پولیس، جج، وکیل، کلرک، افسر شاہی کرپٹ ہے۔ ظلم اور کرپشن کی عمر پون صدی ہے اور ان کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ مقتدر طبقہ کرپٹ ہے اور کرپشن کا محافظ بھی۔ جب حالت یہ ہے تو پھر سوچیے کرپشن کے خلاف تحریک کون کس کے خلاف چلائے گا۔
وہ چند ایک لوگ جو کرپشن سے بچے ہوئے ہیں وہ جب تحریک چلاتے ہیں تو قوم کے کرپٹ طبقات ان کے خلاف طنز کے تیر اور تلواریں لے کر سوشل میڈیا کے ’’پانی پت‘‘ میدان میں برسر پیکار ہو جاتے ہیں۔ کرپشن کے خلاف اٹھنے والوں پر غلیظ زبان اور مکروہ تبصروں کی گولہ باری شروع کر دیتے ہیں۔ مخالفت کی ایسی بے شرمی پر اُتر آتے ہیں کہ یہ بھی نہیں سوچتے کہ مہم اگر کامیاب ہو تو فائدہ چند لوگوں کا نہیں، سب کا ہے۔ مالک ارض وسماء کا واضح اعلان ہے کہ: ان اللہ لا یغیر ما بقوم حتی یغیروا ما بانفسہم (الرعد: ۱۱)
حقیقت یہ ہے کہ اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی۔