’’حق دو پاکستان کو‘‘

370

ہمارے دوست کہتے ہیں کہ دھرنا تو آغاز تھا جماعت اسلامی اب حکومت کے ساتھ آخری معرکے کی طرف بڑھ رہی ہے۔ مطالبات کی منظوری کے لیے 45 دن کی جو مہلت طلب کی گئی تھی وہ تیزی سے ختم ہورہی ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حکومت کی مذاکراتی ٹیم کے پاس جماعت اسلامی کے عوامی مطالبات کو منظور کرنے کا کوئی اختیار ہی نہ تھا۔ چنانچہ اس نے جان چھڑانے کے لیے 45 دن کی مہلت مانگ لی اور امیر جماعت نے بھی اتمام حجت کے لیے اس پر آمادگی ظاہر کردی، لیکن انہوں نے واضح کردیا کہ وہ معاہدے کی ایک ایک شق پر عملدرآمد کرائے بغیر چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ انہوں نے مہلت ختم ہونے کی اُلٹی گنتی شروع کردی اور محاذ کو سرد نہیں ہونے دیا۔ اب وہ ایک نئے نعرے کے ساتھ بروئے کار آئے ہیں۔ یہ نعرہ ہے ’’حق دو پاکستان کو‘‘ پاکستان اپنے رہنے والوں سے عبارت ہے، یہ محض زمین کا ایک ٹکڑا نہیں جیتے جاگتے انسانوں کی سرزمین ہے جو اپنا حق طلب کررہے ہیں۔ یہاں رہنے والا ہر شخص اپنی ذات میں پاکستان ہے جسے اس کے حق سے محروم کردیا گیا ہے۔ چنانچہ امیر جماعت ایک نئے وژن کے ساتھ میدان عمل میں اُترے ہیں اور حکمرانوں سے پاکستان کا حق طلب کررہے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ پاکستان کو اس کے بنیادی حقوق سے اور اہل پاکستان کو جینے کے حق سے محروم کردیا گیا ہے۔ پاکستان کے بنیادی حقوق یہ ہیں کہ اس کی آزادی و خود مختاری کی حفاظت بھی کی جائے اور ہر سطح پر اس کا احترام بھی کیا جائے۔ ملک کے تمام ادارے اور بحیثیت مجموعی تمام سیاسی جماعتیں اور افراد آئین کی پابندی اور پاسداری کریں، ملک میں قانون کی حکمرانی ہو اور اس میں امیر و غریب کی کوئی تمیز روا نہ رکھی جائے۔ عوام کا جینے کا حق یہ ہے کہ انہیں زندگی کی بنیادی مراعات روٹی، کپڑا، مکان، تعلیم اور علاج کی سہولتیں میسر ہوں اور ان کے حکمران ویسی ہی زندگی بسر کریں جیسی عوام کرتے ہیں۔

لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان اور اس کے عوام اس حوالے سے غیر معمولی محرومیوں کا شکار ہیں۔ پاکستان کو ابتدا ہی میں ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ کی حیثیت سے شناخت کیا گیا تھا اور قائداعظم کی زندگی میں یہ طے ہوگیا تھا کہ پاکستان میں اسلام کی عملداری ہوگی اور اسے معروف جمہوری اصولوں کے تحت چلایا جائے گا لیکن قائداعظم کی آنکھ بند ہوتے ہی ان دونوں باتوں کو پس و پشت ڈال دیا گیا اور حکمران ٹولے نے اپنی من مانی شروع کردی۔ اس نے پاکستان میں نہ اسلام کو چلنے دیا اور نہ ہی جمہوریت کو محلاتی سازشوں کے ذریعے آئے دن حکومتیں تبدیل ہوتی رہیں۔ یہاں تک کہ پڑوسی ملک کے وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے یہ کہہ کر پاکستان کا مذاق اُڑایا کہ میں روزانہ اتنی دھوتی تبدیل نہیں کرتا جتنی پاکستان میں حکومتیں تبدیل ہوتی ہیں۔ پاکستان مسلسل نو سال تک سرزمین بے آئین رہا۔ بالآخر کچھ مخلص لوگوں کی کوششوں سے 1956ء میں آئین بنا جو بڑی حد تک اسلامی بھی تھا اور جمہوری بھی۔ اس آئین کے تحت 1958ء میں عام انتخابات کا انعقاد طے پایا تو فوج کے سربراہ نے انتخابات سے قبل ملک پر قبضہ کرلیا۔ اس نے انتخابات ملتوی کردیے، آئین منسوخ کردیا اور ملک میں مارشل لا نافذ کردیا۔ عوام میں بے چینی بڑھی تو بنیادی جمہوریتوں کا راگ الاپا گیا اور اس انوکھے نظام کے تحت مشرقی و مغربی پاکستان سے 80 ہزار کونسلرز منتخب کرکے ملک کا صدر چننے کی ذمے داری انہیں سونپ دی گئی۔ اس طرح صدارتی انتخاب کا ڈراما رچایا گیا۔ اپوزیشن جماعتوں نے جنرل ایوب خان کے مقابلے میں قائداعظم کی بہن محترمہ فاطمہ جناح کو صدارتی امیدوار نامزد کیا تو احترام کا تقاضا یہ تھا کہ فوجی آمر مقابلے سے دستبردار ہوجاتا اور محترمہ فاطمہ جناح کو بلا مقابلہ ملک کی صدر منتخب کرلیا جاتا۔ لیکن جنرل ایوب خان نے اقتدار کے نشے میں اندھے ہو کر محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف نہایت غلیظ انتخابی مہم چلائی، ان پر بھارتی ایجنٹ ہونے کا الزام بھی لگایا اور زبردست دھاندلی کے ذریعے صدارتی معرکہ سر کرلیا۔ جنرل ایوب خان پہلا فوجی حکمران تھا جس نے پاکستان کے عوام کو ووٹ کے حق سے محروم رکھا اس طرح عملاً اس نے پاکستان کے حق پر ڈاکا مارا۔

اس واردات کو 60 سال کا عرصہ گزر چکا ہے، زمانہ قیامت کی چال چل گیا ہے لیکن فوجی مقتدرہ کے طور طریقوں میں کوئی خاص تبدیل نہیں آئی۔ اب دنیا میں جمہوریت کا چلن ہے اس لیے پاکستان میں بھی جمہوریت کا ڈراما رچایا جاتا ہے لیکن اسے چلنے نہیں دیا جاتا۔ انتخابات ہوتے ہیں لیکن انتخابات کے نتائج کو یرغمال بنالیا جاتا ہے اور اپنی مرضی کے نتائج مرتب کرکے ایک کٹھ پتلی حکومت بنادی جاتی ہے۔ جو سیاسی ٹولہ فوجی مقتدرہ کا آلہ کار بنتا ہے اسے کرپشن اور قومی وسائل کی لوٹ مار کے حوالے سے بین الاقوامی شہرت حاصل ہوتی ہے۔ پوری دنیا جانتی ہے کہ یہ کیسے لوگ ہیں اور انہیں اقتدار میں لانے کا مقصد کیا ہے۔ حالیہ انتخابات میں بھی یہی کھیل کھیلا گیا ہے اور اس کے نتائج پوری قوم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے۔ یہ سراسر پاکستان کی حق تلفی ہے۔ امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن اس حق تلفی کے خلاف بھی آواز اُٹھاتے رہتے ہیں لیکن فی الحال وہ عوام کا مقدمہ لے کر میدان میں نکلے ہیں اور انہیں جینے کا حق دلانا چاہتے ہیں۔ یہ حق عوام کو ملے گا تو بحیثیت ریاست پاکستان کے حق کی بھی حفاظت ہوسکے گی اور پاکستان میں آئین کی حکمرانی کو یقینی بنایا جاسکے گا۔ اس حوالے سے حافظ نعیم الرحمن نے 28 اگست کو تاجروں اور کاروباری طبقوں سے ملک گیر ہڑتال کی اپیل کی ہے۔ یہ ہڑتال کامیاب رہی تو ہم اندازہ کرسکیں گے کہ حالات کا رُخ کس طرف ہے اور پاکستان آئندہ کس تبدیلی سے گزرنے والا ہے۔ ’’حق دو پاکستان کو‘‘ کی تحریک اب چل پڑی ہے اسے روکا نہیں جاسکتا۔