جمعرات 23 اگست 2024 کو عدالت نے اپنا زیادہ تر وقت فضل الرحمان مولانا تقی عثمانی کے ساتھ مکالموں میں ضائع کیا جس کی اتنے اہم ترین کیس کی سماعت میں قطعی گنجائش نہیں تھی۔ ایسا لگ رہا تھا کہ قاضی فائز عیسیٰ کیس کو ٹالنے کی کوشش کر رہے ہیں جبکہ یہ نہ صرف پاکستان کے 25 کروڑ غلامان رسول کے ایمان کا معاملہ ہے بلکہ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے عقیدۂ ختم نبوت پر غیر متزلزل ایمان کا بھی معاملہ ہے۔ اتنے بڑے منصب پر بیٹھ کر چیف جسٹس صاحب اٹکھیلیاں کرتے رہے یہ احساس بھی نہ کیا کہ ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے علاؤہ اربوں غیر مسلموں کی نگاہیں بھی اس کیس کے نتائج پر لگی ہوئی ہیں۔ یہی غیر سنجیدگی جو ہمارے حکمرانوں اور اشرافیہ نے اپنا رکھی ہے ملک کو اقوام عالم میں مذاق بنا کر رکھ دیا ہے۔
اس پورے کیس میں اگر پارلیمنٹ کے 7 ستمبر 1974 کا حوالہ کہیں دیا گیا ہو تو دوستوں سے گزارش ہے کہ میری رہنمائی فرمائیں۔ پنجاب کی صوبائی اور وفاقی کی حکومت نے جو نظر ثانی درخواستیں دائر کی ہیں ان کو منظور کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ نے مختلف مکتبہ ٔ فکر کے علمائے کرام کو اپنا اپنا موقف بیان کرنے کا موقع فراہم کیا۔
پیرا گراف سات کے تحت ضمانت 1932 کے قانون کو سامنے رکھتے ہوئے دی گئی جبکہ یہ مد نظر نہیں رکھا گیا کہ یہ قانون انگریز دور کا ہے اور انگریز کا ہی کھڑا کیا ہوا یہ فتنہ بھی ہے تو اس نے کم سے کم سزا چھے ماہ ہی رکھی ہے جس کو بنیاد بنا کر ہماری قاضی القضاء نے مبارک ثانی قادیانی کی ضمانت منظور کر لی حالانکہ یہ تو ناقابل ضمانت جرم ہونا چاہیے۔ کل ہی پنجاب حکومت نے پتنگ بنانے بیچنے کو ناقابل ضمانت جرم قرار دے دیا ہے۔ غور فرمائیے پتنگ بازی کا کاروبار تو ناقابل ضمانت جرم ہو اور قادیانی تحریف شدہ تفسیر صغیر کی اشاعت کرے اس جرم میں سزا بھی صرف چھے ماہ اور جرم بھی قابل ضمانت ایسا گھناؤنا جرم جس سے دنیا بھر کے ڈیڑھ ارب فرزندان توحید، عاشقان رسول، ناموس رسالت کے شیدائی، غلامانہ رسول کے دل چھلنی ہوجائیں ایسا قبیح اور گھناؤنا جرم قابل ضمانت اور سزا صرف چھے ماہ اور مبارک ثانی کو یہ کہہ کر چھوڑا گیا کہ چونکہ انگریز کے بنائے ہوئے قانون مجریہ 1932 کے تحت سزا صرف اور صرف بلکہ فقط چھے ماہ ہے اور مجرم بیچارہ پہلے ہی تیرا 13 ماہ کی سزا بھگت چکا ہے اس لیے رہا کیا جاتا ہے حالانکہ اس کی سزا عمر قید یا سزائے موت ہونی چاہیے۔ اگر پیرا گراف 7 اور 42 حذف کردیے گئے تو ضمانت بھی کینسل کر کے ازسر نو مقدمہ چلایا جائے۔
پچھلے فیصلے کے پیرا بیالیس اور سات دونوں سے اس تاثر کو تقویت پہنچتی ہے کہ چیف جسٹس کو قادیانیوں کے ساتھ دلی ہمدردی ہے اسی لیے بڑی محنت شاقہ سے یہ نکات جمع کیے کہ انگریز کے بنائے ہوئے قانون مجریہ 1932 کے تحت ضمانت دے دی لیکن یہ بھول گئے کہ یہ فتنہ کس کا کھڑا کیا ہوا ہے اور دوسرے یہ کہ تحفظ ناموس رسالت پر جو جذبات ایک مسلمان عاشق رسول اور غلامانہ رسول کے ہوسکتے ہیں وہ کسی اسلام دشمن گورے کے تو نہیں ہو سکتے۔
پیرا نمبر بیالیس میں یہ عذر گناہ بد تر از گناہ کے مصداق قادیانیوں کو تبلیغ کی اجازت اس شرط کے ساتھ دے دی کہ کمرے کے اندر جتنی چاہو تبلیغ کرو، گھر بلا کے تفسیر صغیر تقسیم کرو، شعائر اسلام کو اختیار کرو مگر باہر نہیں۔ حضور! نوے فی صد تبلیغ اور لیٹریچر کی تقسیم انڈور ہی ہوتی ہے۔ چیف جسٹس کو اپنے اس رویے پر قوم سے معافی مانگنی چاہیے اور 7 ستمبر 1974 کے قومی اسمبلی سے پاس کردہ قانون جو کہ الحمدللہ آئین کا حصہ ہے، سے کھلے عام انحراف کرنے پر تجدید ایمان بھی کرنی چاہیے ورنہ دلوں کا حال تو ربّ جانتا ہے۔ یہ کرنا اس لیے بھی ضروری کہ کیا گارنٹی ہے کہ محترم چیف جسٹس صاحب پیرا 42 کا اعادہ نہیں کریں گے اور آنے والے چیف جسٹس صاحبان پیرا 42 سے اجتناب نہیں کریں گے۔