جاپان کی سیاسی تاریخ میں وزرائے اعظم کا تقرر اور استعفے ہمیشہ اہم مراحل تصور کیے جاتے ہیں، جو ملکی سیاست اور بین الاقوامی تعلقات پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں۔ جاپان میں پارلیمانی جمہوریت کی مضبوط بنیادوں پر، لبرل ڈیموکریٹک پارٹی (ایل ڈی پی) کی قیادت میں حکومتیں بدلے بغیر آتی رہی ہیں۔ ہر وزیر اعظم نے اپنے دور میں مختلف چیلنجز کا سامنا کیا، اور بعض اوقات انہیں عوامی عدم اطمینان یا پارٹی کے اندرونی تنازعات کی وجہ سے عہدہ چھوڑنا پڑا۔ اس کے باوجود، اکثر اوقات وزرائے اعظم کے استعفے جاپانی پالیسیوں میں زیادہ تبدیلی کا باعث نہیں بنتے کیونکہ جاپان کی سیاسی اور انتظامی ساکھ کا دارو مدار پارٹی کے اجتماعی فیصلوں پر ہوتا ہے۔
حالیہ صورتحال میں، جاپان کے وزیر اعظم فومیو کیشیدا نے اعلان کیا ہے کہ وہ ستمبر میں ہونے والے پارٹی لیڈر شپ کے انتخابات میں حصہ نہیں لیں گے، جس سے جاپان کے نئے وزیر اعظم کے انتخاب کا راستہ ہموار ہو گیا ہے۔ یہ اعلان ایسے وقت میں آیا ہے جب کیشیدا کی حکمران جماعت ایل ڈی پی کو متعدد کرپشن اسکینڈلز کی وجہ سے عوامی حمایت میں نمایاں کمی کا سامنا ہے۔ فومیو کیشیدا 2021 میں ایل ڈی پی کے صدر منتخب ہوئے تھے، اور ان کی تین سالہ مدت ستمبر میں ختم ہو رہی ہے۔ ان کے اعلان نے پارٹی کے لیے ایک نئے چہرے کی تلاش کو ضروری بنا دیا ہے جو عوام کے سامنے بہتر امیج پیش کر سکے۔ کیشیدا نے ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ایل ڈی پی کو ازسرنو جنم لینے کی ضرورت ہے، اور پیچھے ہٹنا اس عمل کا پہلا قدم ہے۔
کیشیدا کی حکومت کو حالیہ برسوں میں کئی کرپشن اسکینڈلز کا سامنا کرنا پڑا ہے، جس کی وجہ سے ان کی عوامی حمایت 20 فی صد سے بھی زائد کم ہو گئی ہے۔ نتیجتاً، ایل ڈی پی کے اندرونی حلقوں میں بھی کیشیدا کی قیادت پر عدم اطمینان کا اظہار کیا جانے لگا۔ اپنے بیان میں، انہوں نے سیاست میں عوامی اعتماد کی بحالی کی اہمیت کو تسلیم کیا، جس کے لیے پارٹی کے اندر تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔
کیشیدا کے استعفے کے اعلان کے بعد ممکنہ امیدواروں کے بارے میں قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں۔ ایل ڈی پی کے کئی سینئر ارکان ممکنہ امیدواروں کے طور پر سامنے آئے ہیں، جن میں توشی میتسو موتیگی، تارو کونو، سانائے تاکائیچی، شیگیرْو ایشیبا، اور یوکو کامیکاوا شامل ہیں۔ جو بھی ایل ڈی پی کا صدر منتخب ہوگا وہ جاپان کا اگلا وزیر اعظم بن جائے گا۔
اپنی قیادت کے دوران، کیشیدا نے کئی اصلاحات نافذ کیں، جن میں توانائی کی پالیسی میں تبدیلیاں، فوجی بجٹ میں اضافہ، جنوبی کوریا کے ساتھ تعلقات کی بہتری، اور سیاسی اصلاحات شامل ہیں۔ تاہم، ان کوششوں کے باوجود ان کی حکومت کو عوامی پزیرائی نہیں ملی۔ کیشیدا نے کئی کابینہ کے وزراء اور دیگر افراد کو پارٹی کے ایگزیکٹو عہدوں سے ہٹا دیا اور سیاسی فنڈز پر کنٹرول سخت کر دیا، لیکن یہ اقدامات ان کی ساکھ کو بچانے میں ناکام رہے۔ کیشیدا کے استعفے کے ساتھ، ایل ڈی پی نے ایک نئے رہنما کی تلاش شروع کر دی ہے جو پارٹی کو دوبارہ متحد کر سکے اور عوام کے اعتماد کو بحال کر سکے۔ یہ آنے والے انتخابات جاپان کی مستقبل کی سیاست میں ایک اہم موڑ ثابت ہو سکتے ہیں، کیونکہ نئی قیادت پارٹی کو ایک نئی سمت میں لے جانے کی کوشش کرے گی۔ تاہم، جاپان کے سیاسی نظام کی خصوصیت یہ ہے کہ یہاں فرد کی نسبت نظام کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔
جاپان میں سیاسی شفافیت اور احتساب کا ایک مضبوط نظام موجود ہے جو اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ جب بھی کرپشن یا عوامی عدم اعتماد جیسے مسائل سامنے آتے ہیں، تو اس کا ازالہ کرنے کے لیے فوری اقدامات کیے جاتے ہیں۔ فومیو کیشیدا کے استعفے کا فیصلہ بھی اسی نظام کا حصہ ہے، جہاں فرد کے بجائے نظام کی مضبوطی اور پالیسیوں کی تسلسل کو یقینی بنایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جاپان میں وزرائے اعظم کے استعفے عموماً پالیسیوں پر محدود اثر ڈالتے ہیں، کیونکہ یہاں حکومتی پالیسی ڈھانچہ مضبوط ہے اور پارٹی کی اجتماعی رائے کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ جاپان کے سیاسی نظام میں احتساب کا عمل ہمیشہ سے موجود رہا ہے، اور یہی وجہ ہے کہ یہاں کی سیاست میں نظام کا استحکام برقرار رہتا ہے، چاہے قیادت میں کتنی ہی تبدیلیاں کیوں نہ آئیں۔ اس سلسلے میں اگرجاپانی وزراء اعظم کے ماضی میں دیے جانے والے اہم استعفوں کا جائزہ لیا جائے تو نظر آتا ہے کہ ان استعفوں کے پس پشت اہم قومی امور سے متعلق عوامی اعتماد کا فقدان ان استعفوں کا سبب بنا جس کی چند مثالیں قارئین کے لیے پیش ہیں۔
1۔ نوبو سوکے کیشی (Nobusuke Kishi) – 1960:
نوبو سوکے کیشی نے جاپان اور امریکا کے درمیان سیکورٹی معاہدے (ANPO) کی توسیع کے دوران بڑھتی ہوئی عوامی مخالفت کے باعث استعفا دیا تھا۔ اس معاہدے کے خلاف شدید عوامی احتجاج نے کیشی کو استعفا دینے پر مجبور کر دیا۔
2۔ تومئیچی مورا یاما (Tomiichi Murayama) -1996:
جاپان کے سوشلسٹ وزیراعظم تھے۔ ان کے دور حکومت میں کوبے زلزلہ اور گیس حملے جیسی آفات آئیں، اور معاشی مشکلات بھی پیش آئیں، جس کی وجہ سے وہ استعفا دینے پر مجبور ہوئے۔
3۔ یوکیو ہاتویاما (Yukio Hatoyama) -2010: نے اوکی ناوا میں امریکی فوجی اڈے کے مسئلے پر اپنی حکومت کی ناکامی کے بعد استعفا دیا۔ ان کا انتخاب اس وعدے کے ساتھ ہوا تھا کہ وہ فوجی اڈے کو منتقل کریں گے، لیکن ناکامی پر عوامی دباؤ کے باعث انہوں نے استعفا دے دیا۔
4۔ ناوتو کان (Naoto Kan) -2011: کے دور حکومت میں 2011 کا فوکوشیما ایٹمی حادثہ پیش آیا۔ حکومتی بحران سے نمٹنے میں ناکامی اور عوامی تنقید کی وجہ سے انہوں نے استعفا دے دیا۔
5۔ شنزو آبے (Shinzo Abe) جاپان کے سب سے طویل المدت وزیراعظم تھے، انہوں نے صحت کی خرابی (السرائٹس) کی وجہ سے استعفا دیا۔ بعد میں انہیں قتل کردیا گیا۔
6۔ یوشی ہیدے سوگا (Yoshihide Suga) – 2021 نے کووڈ 19 کی وبا کے دوران عوامی حمایت میں کمی اور معاشی مسائل کے باعث استعفا دیا۔ ان کی حکومت پر ٹوکیو اولمپکس کے انتظامات اور ویکسی نیشن کے عمل کی سست روی کے حوالے سے عوامی تنقید بڑھتی جا رہی تھی۔
7۔ فومیو کیشیدا (Fumio Kishida) -2024: جن کے استعفے کی خبریں حالیہ دنوں میں زبان زد عام ہیں۔
اس جائزے سے بہر حال ایک بات تو ثابت ہو جاتی ہے کہ جاپان میں وزرائے اعظم کے استعفے اکثر عوامی دباؤ، معاشی مشکلات، داخلی اور خارجی مسائل، اور سیاسی دباؤ کے نتیجے میں ہوتے ہیں۔ جاپان کی سیاسی ساخت میں عوامی حمایت اور سیاسی استحکام کا بہت اہم کردار ہے، اور ان دونوں عوامل کی کمی کے باعث وزرائے اعظم اکثر استعفا دینے پر مجبور ہوتے ہیں۔
جاپان کے سیاسی نظام کی خصوصیت یہ ہے کہ یہاں فرد کی نسبت نظام کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ جاپان میں سیاسی شفافیت اور احتساب کا ایک مضبوط نظام موجود ہے جو اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ جب بھی کرپشن یا عوامی عدم اعتماد جیسے مسائل سامنے آتے ہیں، تو اس کا ازالہ کرنے کے لیے فوری اقدامات کیے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جاپان میں وزرائے اعظم کے استعفے عموماً پالیسیوں پر محدود اثر ڈالتے ہیں، کیونکہ یہاں حکومتی پالیسی ڈھانچہ مضبوط ہے اور پارٹی کی اجتماعی رائے کو مقدم رکھا جاتا ہے۔ ،(جاری ہے)