ملک بھر کے تاجر صنعتکاراور عوام نے 28اگست کو امیر جماعتِ اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمان کی شٹر ڈاؤن ہڑتال کی مکمل حمایت کر تے ہو ئے اعلان کیاہے کہ حکومت کی معاشی پالیسوں اور بجلی و گیس کے لامحدود بلز کے خلاف حافظ نعیم الرحمان کی شٹر ڈاؤن ہڑتال کی حمایت کر تے ہو ئے ہڑتا کر یں گ؎ے، تاجروں کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ یہ ہے اس ہڑتا ل کا سیاست کے بجائے عوام تاجروں اور صنعتکاروں کے حقیقی مسائل سے ہے
کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (کے سی سی آئی) کے صدر افتخار احمد شیخ نے چیمبر کے تمام ممبران کو مشورہ دیا ہے کہ وہ 28 اگست کو تاجر برادری کی جانب سے اعلان کردہ ملک گیر ہڑتال کی مکمل حمایت کریں اور اپنے کاروبار مکمل طور پر بند رکھیں تاکہ حکومت کو فوری طور پر متنازعہ تاجر دوست اسکیم واپس لینے کے ساتھ ساتھ بجلی کے بھاری بلوں اور دیگر ٹیکسوں کو کم کرنے کے لئے مجبور کیا جاسکے۔
اس کے علاوہ رجسٹرڈ اور غیر رجسٹرڈ تاجروں اور دکانداروں کوساٹھ ہزار روپے ماہانہ کے بھاری ایڈوانس ٹیکس کا مطالبہ کرنے کے لیے نوٹس دینا انتہائی غیر منصفانہ ہے جو کہ تمام مارکیٹوں میں ہراساں کرنے کا سبب بن گیا ہے۔ اس طرح کا ناقابل برداشت حد تک زیادہ ٹیکس پورے شہر کے 80 فیصد سے زیادہ دکاندار برداشت نہیں کر سکتے۔
حکومت کی جانب سے اگرچہ یہ یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ محض ایک ہزار سے بارہ سو روپے تک کا ٹیکس عائد کیا جائے گا لیکن ایف بی آر ساٹھ ہزار کا مطالبہ کر رہا ہے جس کی کراچی چیمبر شدید مذمت کرتا ہے۔تاجر دوست اسکیم کو فوری طور پر کم از کم تین ماہ کے لیے موخر کرے اور تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کی جائے تاکہ متنازعہ اسکیم کو حقیقی معنوں میں دوستانہ بناکر اسے پورے ملک کے وسیع تر مفاد میں لاگو کیا جائے ۔ پالیسی سازوں کو متعدد خطوط لکھے جن میں متنبہ کیا گیا ہے کہ اس تاجر دوست اسکیم کوغلط طریقے سے لاگو کرکے اس اسکیم کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے لیکن بدقسمتی سے اب تک اس اہم مسئلے پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔اس اسکیم پر فوری طور پر نظر ثانی کی جانی چاہیے اور صرف وہی اقدامات کیے جائیں جو قابل عمل ہو نے کے ساتھ ساتھ تمام اسٹیک ہولڈرز کے لیے قابل قبول ہوں۔ کے سی سی آئی کے صدر نے کہا کہ کراچی چیمبر ایک اہم چیمبر اور پوری تاجر برادری کی سرکردہ آواز ہونے کے ناطے چھوٹے تاجروں اور دکانداروں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا ہے تاکہ یہ مسئلہ تاجروں و دکانداروں کی امنگوں کے مطابق خوش اسلوبی سے حل ہوجائے۔ مہنگائی کے موجودہ دور میں دکانداروں کے لیے اپنا کاروبار جاری رکھنا انتہائی مشکل ہو گیا ہے جبکہ حکومت نے ریلیف دینے کے بجائے بھاری ٹیکس لگا نے اور بجلی کے بلوں میں اضافے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے جو کسی بھی تاجر کے لیے قابل قبول نہیں لہذا کراچی چیمبر نے صورتحال کی سنگینی کو مدنظر رکھتے ہوئے 28 اگست کو ملک گیر ہڑتال کی کال کی مکمل حمایت کا فیصلہ کیا۔
ود ہولڈنگ ٹیکس اور تاجر دوست اسکیم پر تاجربرادری کے شدید تغفظات،کراچی میں چھوٹے تاجر احتجاج پر اتر آئے،ود ہولڈنگ ٹیکس اور تاجر دوست اسکیم پر ملک کا سب سے بڑا ہول سیل بازار مکمل بند کردیا گیا۔چھوٹے تاجروں کے احتجاج میں کراچی چیمبر شامل ہوگیا۔ ود ہولڈنگ ٹیکس پر تاجروں کی ہڑتال سمیت ہر احتجاج کی حمایت کرتے ہیں۔کراچی چیمبر کا کہنا ہے کہ ود ہولڈنگ ٹیکس اور تاجر دوست اسکیم پر کراچی چیمبر چھوٹے تاجروں کے ساتھ ہے،ہم نے ود ہولڈنگ ٹیکس اور تاجر دوست اسکیم پر اعتراض کرکے اناملی بنائی ہے اور اسے وزیراعظم کو بھیج دیا ہے۔
صدر کراچی چیمبر نے کہا کہ تاجر دوست اسکیم کو مسترد کرتے ہیں، حکومت 60 ہزار روپے ماہانہ ٹیکس کا ازسرنو جائزہ لے،چھوٹے تاجر کسی صورت اس رقم کو ادا نہیں کرسکتے۔ گروسرز مارکیٹایسوسی ایشن کے صدرعبدالرؤف ابراہیم نے کہا کہ 14 اگست کی وجہ سے اجناس منڈیوں کی ہڑتال موئخر کی ھے،ہمارے مطالبات نہیں مانے گئیے تو ملک بھر کی غلہ منڈیاں غیر معینہ مدت کے لئیے بند کردینگے۔ تاجر رہنما رؤف ابراہیم نے کہا کہ اگار تاجروں کے مسائل پر آواز اٹھانا جرم ہے تو میں یہ جرم کرتا رہوں گا۔انہوں نے کہا کہ کراچی چیمبر کی قیادت اسٹیک ہولڈرز کا پروگراموں میں مدعو نہیں کرتی جبکہ کراچی چیمبر کے عہدیدارٹی ڈیپ کے سربراہ زبیرموتی والا کے سامنے بول نہیں سکتے اور اگر کوئی بولے گا تو وہ گونگا بنا دیا جائے گا،زبیرموتی والا نے ہمیں کہا کہ وہ ہم سے نہیں ملیں گے لیکن میں یہ واضح کردوں کہکراچی چیمبر کو تاجروں کی آواز بننا پڑے گا۔
یونائٹیڈ بزنس گروپ کے مرکزی رہنماسید مظہر علی ناصر نے کہا ہے کہ گردشی قرضہ، جو پاکستان کی معیشت کے لیے ایک مستقل اور بڑھتا ہوا چیلنج ہے، گزشتہ دہائی کے دوران خطرناک حدوں تک پہنچ چکا ہے اورحکومت یہ سب کچھ عوسم سے وصول کیا جارہا ہے ۔
معاشی ترقی کو روک رہا ہے اور ملک کی مالیاتی استحکام کو کمزور کر رہا ہے۔انکا کہنا تھا کہ گردشی قرضہ 2012 میں تقریباً 400 ارب روپے سے بڑھ کر 2024 میں 2.5 کھرب روپے کی حیرت انگیز حد تک پہنچ گیا ہے، جو چھ گنا اضافہ ظاہر کرتا ہے،گردشی قرضہ میں بے تحاشا اضافہ بنیادی طور پر آزاد بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں (آئی پی پیز) کو کیپٹیو چارجز کے تحت کی جانے والی بھاری ادائیگیوں کی وجہ سے ہوا ہے، سید مظہر علی ناصر نے کہاکہ اس کا نتیجہ سنگین نتائج کی صورت میں نکلا ہے، جن میں بجلی کے شعبے میں نقدی کی کمی، پیداوار اور ترسیلی ڈھانچے میں سرمایہ کاری کی کمی، صارفین پر زیادہ ٹیرف کی صورت میں بوجھ کا اضافہ، قومی خزانے پر بھاری بوجھ، ملک کی کریڈٹ ریٹنگ پر منفی اثرات، اور سرمایہ کاروں کے اعتماد میں کمی شامل ہیں۔مظہر علی ناصر نے مزید کہا کہ گردشی قرضہ کا بنیادی سبب آئی پی پیزکو کیپیسٹی چارجز کی ادائیگیاں تھیں، جن کی کل مالیت 1.3 کھرب روپے سے زائد تھی، یہ ادائیگیاں، بجلی کی پیداوار سے قطع نظر، بجلی کے شعبے پر ناقابل برداشت مالی بوجھ بن گئیں۔سید مظہر علی ناصر نے حکومت پر زور دیا کہ بجلی کے شعبے میں ساختی اصلاحات کو نافذ کیا جائے، آئی پی پیزمعاہدوں کو دوبارہ سے گفت و شنید کر کے کیپیسٹی چارجز کو کم کیا جائے، بجلی پیدا کرنے کی کارکردگی کو بہتر بنایا جائے اور صارف ٹیرف میں معقولیت لائی جائے۔سید مظہر علی ناصر نے کہا کہ گردشی قرضہ پاکستان کی معاشی ترقی کی راہ میں ایک بڑا رکاوٹ بن چکا ہے، یہ لازمی ہے کہ حکومت فوری اور فیصلہ کن اقدام کرے تاکہ اس مسئلے کو حل کیا جا سکے، اور قوم کے لیے ایک پائیدار اور خوشحال مستقبل کو یقینی بنایا جا سکے تاکہ قوم کو اس ناانصافی سے بچایا جا سکے۔
اگر حکومت کاروبار کرے گی تو عوامی فلاح و بہبود پر کون توجہ ے گا، ورلڈ بینک کی رپورٹ کہہ رہی ہے کہ لوٹ مار کے سبب جنوبی ایشیائی ریجن میں پاکستان کے سرکاری تحویل میں چلنے والے اداروں کا منافع دیگر ممالک کے مقابلے میں کم ترین ہے۔ 2018ء میں جب حکومتی اور نجی تحویل میں چلنے والے آئی پی پیز کا معاملہ اٹھا تو صرف 16 آئی پی پیز کی حد تک ڈالر کی انڈیکٹیشن 148 روپے پر اور منافع 12 فیصد تک کردیا گیا۔ اِس وقت صورت حال یہ ہے کہ حکومتی تحویل میں چلنے والے 52 فیصد آئی پی پیز 33 فیصد کپیسٹی پر پلانٹ چلا کر 100 فیصد کپیسٹی کے چارجز لے رہے ہیں جبکہ پرائیویٹ سیکٹر 36 فیصد کپیسٹی استعمال کر کے 100 فیصد کپیسٹی کے چارجز لے رہا ہے۔ یہ مس مینجمنٹ کی اعلیٰ ترین مثال ہے۔ ایس ایم تنویر کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ اگر صرف فرانزک آڈٹ کروا دے تو سب کچھ کھل کر سامنے ا?جائیگا کہ معاہدوں میں غلطیاں تھیں۔ یہ بھی پتہ چل جائے گا کہ انٹرنیشنل انوسٹرز کے پیچھے بھی مقامی انوسٹرز ہی ہیں۔پاکستان بزنس گروپ کے سرپرست اعلیٰ فراز الرحمان نے کہا کہ اِس وقت پاکستان میں اکانومی پرفارم نہیں کر رہی، صنعت کا پہیہ نہیں چل رہا اور ایکسپورٹس 23 بلین ڈالر پر منجمد ہیں۔ حکومتی ا?ئی پی پیز کی مس مینجمنٹ عوام پر ڈالی جا رہی ہے۔فراز الرحمان کا کہنا تھا کہ خطرہ یہ ہے کہ یہی صورت حال رہی تو ملک بھر کی تمام صنعتیں بند ہو جائیں گی۔
ملک مہنگائی اور بے روزگاری کی وجہ سے ملکی برآمدات میں جولائی کے دوران سالانہ بنیادوں پر11.77فیصد اوردرآمدات میں 15.90فیصدکااضافہ ریکارڈکیاگیا،مالی سال کے پہلے مہینہ میں پاکستان کے تجارتی خسارہ میں سالانہ بنیادوں پر21.14فیصد اضافہ جبکہ ماہانہ بنیادوں پر18.08فیصدکی کمی ریکارڈکی گئی ہے۔پاکستان بیوروبرائے شماریات کی رپورٹ کے مطابق جولائی 2024میں ملکی برآمدات کاحجم 2.307 ارب ڈالرریکارڈکیاگیا جوگزشتہ سال جولائی کے مقابلہ میں 11.77فیصدزیادہ ہے، گزشتہ سال جولائی میں ملکی برآمدات کاحجم 2.064 ارب ڈالرریکارڈکیاگیاتھا، جون کے مقابلہ میں جولائی میں ملکی برآمدات میں ماہانہ بنیادوں پر9.81 فیصدکی کمی ریکارڈکی گئی ہے، جون میں برآمدات سے ملک کو2.558 ارب ڈالرزرمبادلہ حاصل ہواجو جولائی میں کم ہوکر2.307 ارب ڈالر ہو گیا۔اعدادوشمارکے مطابق جولائی میں پاکستان کی مجموعی درآمدات پر4.278 ارب ڈالرکازرمبادلہ خرچ ہواجوگزشتہ سال جولائی کے مقابلہ میں 15.90 فیصدزیادہ ہے،گزشتہ سال جولائی میں ملکی درآمدات پر3.691 ارب ڈالرزرمبادلہ خرچ ہواتھا، جون کے مقابلہ میں جولائی میں ملکی درآمدات میں ماہانہ بنیادوں پر13.82 فیصدکی کمی ریکارڈ کی گئی ،جون میں درآمدات پر4.964 ارب ڈالرزرمبادلہ خرچ ہواتھا۔ اعدادوشمار کے مطابق جاری مالی سال کے پہلے مہینہ میں پاکستان کے تجارتی خسارہ میں سالانہ بنیادوں پر21.14فیصد اضافہ جبکہ ماہانہ بنیادوں پر18.08فیصدکی کمی ہوئی، جولائی میں تجارتی خسارہ کاحجم 1.971 ارب ڈالرریکارڈکیاگیا جوجون میں 2.406 ارب ڈالر اورگزشتہ سال جولائی میں 1.627 ارب ڈالرتھا۔