دوماہ کی فقط چاندنی ہے

350

اس طرح کے لطیفے تو آپ نے سنے ہی ہوں گے کہ ایک چینی نے کہا ’’ہمارے یہاں کتے اسکوٹر چلاتے ہیں‘‘۔ امریکی بولا ’’ہمارے یہاں بلیاں کار چلاتی ہیں‘‘۔ انگریز بولا ’’ہمارے یہاں بندر جہاز چلاتے ہیں‘‘۔ پا کستانی بولا ’’اس میں کون سی بڑی بات ہے۔ ہمارے یہاں گدھے ملک چلاتے ہیں‘‘۔ صاحبو! لطیفہ اپنی جگہ لیکن آئی پی پیز سے کیے گئے معاہدوں کی شرائط دیکھیں تو ایسا ہی لگتا ہے کہ یہ ملک گدھے چلاتے رہے ہیں۔ اس خرابے سے دوماہ کے لیے ہی سہی، صرف پنجاب کے عوام کے لیے ہی سہی، 201 سے 500 یونٹ بجلی استعمال کرنے والے صارفین کے لیے ہی سہی، فی یونٹ 14 روپے ہی سہی، کسی بھی قسم کی ریلیف برآمد کرنے کو، بزبان غالب یہی کہا جاسکتا ہے کہ ’’اسداللہ خان قیامت ہے‘‘۔

اٹلی کا مسو لینی پتلی عورتوں کو اس قدر ناپسند کرتا تھا کہ اس نے ان کی تصویریں بنانے پر بھی پابندی لگادی تھی۔ مہنگائی کے باب میں ایسا ہی رویہ آئی ایم ایف کا ہے۔ وہ ان حکمرانوں کو سخت ناپسند کرتی ہے جو اپنے ملک میں مہنگائی کم کریں یا عوام کو ریلیف دیں۔ ایسے میں میاں نوازشریف کا پنجاب حکومت کی جانب سے ریلیف!! آئی ایم ایف کو چڑانے کے مترادف ہے جب کہ آج کل پاکستان کے حکمرانوں اور آئی ایم ایف کا رشتہ بلڈ کا کم اور بلڈ پریشر کا زیادہ ہے۔

ہیرلڈ لیم نے اپنی کتاب کے پہلے صفحے پر لکھا ہے ’’امیر تیمور نے دنیا کو درہم برہم کیا‘‘۔ امیر تیمور نے دنیا کو اتنا درہم نہیں کیا جتنا نواز شریف نے پنجاب میں بجلی کے بلوں میں کمی کرکے اپنے ناقدین کو برہم کیا ہے۔ خصوصاً دیگر صوبوں کے حکمران طبقے کو۔ بعض لوگ اس اعلان کو نوازشریف کی لطیفے سنانے کی عادت باور کرا رہے ہیں۔ جس حساب سے پاکستان میں بجلی کے بل آرہے ہیں زندگی کا ایک ہی مقصد رہ گیا ہے اتنا کمانا کہ بجلی کے بل بھرسکیں۔ بجلی کے بل بھرنے کے بعد بھی اگر کمائی میں سے کچھ بچ رہے توکھانے پینے پر بھی لگا سکتے ہیں۔ اب دو مہینے تک اہل پنجاب کی اکثریت تھکنے اور کچھ سمجھ میں نہ آنے کی صورت میں، رج کے کھابے کھا سکتی ہے۔ اس دوران میں اگر الیکشن ہو جائیں تو پنجاب میں ن لیگ کی کامیابی پکی۔ سو فی صد۔ اس ریلیف سے ایک بات اور پکی ہوئی ہے وہ یہ کہ پاکستان ایک آزاد ملک ہے۔ دو مہینے کے لیے اپنی عوام کو بجلی کے معاملے میں ریلیف دے سکتا ہے۔

جس طرح شادی کے بعد جو سب سے بڑی خواہش جاگتی ہے وہ اولاد کی ہوتی ہے، بجلی کے بلوں پر جماعت اسلامی نے اس طرح رولا ڈالاہوا ہے۔ اس دبائو اور مسلسل دبائو کے بعد ناممکن ہے کہ اقتدار حاصل کرنے کے بعد صاحب اقتدار کے دل میں جو پہلی آرزو جاگے وہ بجلی کی قیمتوں میں کمی کے سوا کچھ اور ہو۔ جو احباب نواز شریف کی اس مختصر ریلیف کا مذاق اڑا رہے ہیں انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ نواز شریف کی اس پوسٹ کو پنجاب کے 13 کروڑ سے زائد لوگوں نے لائک کیا ہے اور پھر ویسے بھی سیانے کہہ گئے ہیں کہ ’’بیکار مباش کچھ کیا کر، کپڑے ہی ادھیڑ کر سیاکر‘‘۔ نواز شریف نے جس طرح عرصے بعد سیاست میں انٹری دی ہے اور عوام کی نبض پر ہاتھ رکھا ہے اس سے ایک بات ثابت ہے وہ آج بھی میدان سیاست میں اس طرح چو کس ہیں جس طرح باتھ روم میں بغیر کنڈی کے بیٹھا ہوا شخص۔

ایک لڑکا ایک مزار پر گیا۔ وہاں سات پیر زمین پر دریاں بچھاکر بیٹھے ہوئے تھے۔ ایک پیر نے پوچھا ’’بیٹا کیا مسئلہ ہے کیوں آئے ہو‘‘ لڑکا بولا: ’’بابا جی جس لڑکی سے میں پیار کرتا تھا اس نے شادی سے انکار کردیا ہے‘‘۔ پیر صاحب نے یہ سن کر صدا لگائی ’’اوئے چھوٹے اندر سے اک دری ہور لے آ‘‘ جو لوگ آئی ایم ایف کے مقابل پاکستان کے حکمرانوں کو اتنا ہی بے بس سمجھتے تھے کہ بس دری بچھا کر لیٹ جائیں، نواز شریف کے اقدام سے ان کی غلط فہمی دور ہو گئی ہو گی۔ انہیں یقین آگیا ہو گا کہ دو ماہ کے لیے سہی ’’ہم زندہ قوم ہیں پائندہ قوم ہیں‘‘ اور۔۔ اور۔۔ یہ کہ۔۔ نواز شریف ان لیڈروں میں سے نہیں آئی ایم ایف کی سائیکل پر جن کی شلوار کا پائنچہ چین میں آجاتا ہے۔

جو لوگ نواز شریف کے اس اقدام پر چیں بہ چیں ہیں تو یہ ان کی سوچ کی منفیت ہے۔ سوچ مثبت ہو تو شعلے کے گبر سنگھ کے کردار میں بھی خوبیاں تلاش کی جا سکتی ہیں۔ امتحان میں بچوں کو گبر سنگھ پر لکھنے کے لیے کہا گیا تو ایک بچے نے لکھا

’’سادہ زندگی تھی۔ بھیڑ بھاڑ سے دور پہاڑوں میں رہتے تھے۔ ایک ہی لباس میں کئی کئی دن گزار دیتے تھے۔ پانی کی بچت کے لیے کبھی کبھار ہی نہاتے تھے۔ رحم دلی کا یہ عالم تھا کہ ٹھاکر کو قبضے میں لینے کے بعد صرف اس کا ہاتھ کاٹ کر چھوڑ دیا تھا اگر وہ چاہتے تو اس کا گلا بھی کاٹ سکتے تھے۔ فنون لطیفہ کے دلدادہ تھے۔ ان کے ہیڈ کواٹر میں ڈانس اور میوزک کے پروگرام چلتے تھے۔ بسنتی کو دیکھتے ہی پرکھ لیا تھا کہ وہ ایک ماہر رقاصہ ہے۔ مزاح کو سمجھنے والے تھے۔ کالیا اور اس کے ساتھیوں کو ہنسا ہنسا کر مارا تھا، خود بھی ٹھٹھے مار مار کر ہنستے تھے۔ وہ اس دور کے لافنگ بدھا تھے۔ عورت کی عزت وآبرو کے حوالے سے بھی بہت حساس تھے۔ بسنتی کے اغوا کے بعد صرف اس کا رقص دیکھنے کی درخواست کی تھی۔ فقیری کی زندگی گزاری انہوں نے۔ ان کے آدمی صرف زندہ رہنے کے لیے خشک اناج مانگتے تھے۔ کبھی بریانی یا چکن تکے کی مانگ نہیں کی‘‘۔

دیکھا آپ نے۔ لطیفہ کس طرح بری صورت حال کو آسان حتیٰ کہ گبر سنگھ جیسے کردار کو بھی قابل قبول بنا دیتا ہے۔ کچھ لوگ نواز شریف کے اقدام کا ٹھٹھا اڑانے کے باوجود ان سے اس طرح ناراض ہیں جیسے انہوں نے اہل پنجاب کو دو مہینے کے لیے جیل میں پلاٹ الاٹ کیے ہوں۔

ایک سردار امتحان کے دوران جوابی کاپی پر اپنا ہاتھ بنا رہا تھا۔ نگران ٹیچر وہاں سے گزری تو بولی ’’پیپر میں تو ایسا کوئی سوال نہیں تم ہاتھ کیوں بنارہے ہو‘‘ سردار بولا ’’میں پیپر بنانے والوں پر لعنت بھیج رہا ہوں‘‘۔ بجلی کے بھاری بھرکم بل بھرتے وقت ایسی ہی حالت پاکستانیوں کی ہوتی ہے۔ ان کی آنتیں آئی ایم ایف اور آئی پی پیز سے عوام دشمن معاہدے کرنے والے حکمرانوں پر لعنت بھیج رہی ہوتی ہیں جن کی بدولت بجلی کے بل بھرنا کسی کے لیے بھی آسان نہیں رہا۔

میاں نواز شریف نے جس طرح خاموشی اختیار کر رکھی تھی کچھ لوگ ان کا ذکر اس طرح کرنے لگے تھے جیسے کسی مرحوم سیاست دان کا۔ ان کی پریس کانفرنس نے ثابت کردیا کہ ان کے پلیٹلٹس ابھی زندہ ہیں اور خون میں بخوبی دوڑ رہے ہیں۔ آئی ایم ایف اور آئی پی پیز کے معاہدوں کی وجہ سے فی الوقت ان کے لیے اتنا ہی کرنا ممکن تھا لیکن مسئلہ یہ ہے کہ دو مہینے چٹکی بجاتے گزر جاتے ہیں اور عوام کا حافظہ بھی کچھ کمزور سا ہی ہوتا ہے۔