ایک وقت تھا جب اڈیالہ جیل کا قیدی اپنے مخالف سیاستدانوں پر حاوی تھا اور اس کا دبائو کسی حد تک اسٹیبلشمنٹ پر بھی محسوس ہوتا تھا۔ اس چیز کا اندازہ الفاط اور بیانات کی جنگ سے ہوتا رہتا تھا۔ ایک طرف ان کو عدالتوں سے کچھ ریلیف بھی مل رہا ہے تو دوسری طرف کچھ عدالتی معاملات میں عمران خان اور بشریٰ بی بی مشکلات میں گھرے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ دوسری طرف ان کے اکتالیس اراکین اسمبلی معلقی کے رسے پر جھول رہے ہیں۔ پارلیمنٹ میں قانون سازی کے بعد الیکشن کمیشن نے خاموشی اور بے حسی کی چادر اوڑھ رکھی ہے۔ دوبارہ گنتی کے نام پر تین نشستیں تحریک انصاف کی پہلے ہی کم ہو گئیں۔ عدالت عظمیٰ کے فل بنچ کے تیرہ ججوں میں سے صرف دو نے اپنے اختلافی نوٹ کا میڈیا میں تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ بقیہ گیارہ ججوں کی متفقہ رائے یہ تھی کہ تحریک انصاف کے نشان بلے کے حوالے سے جو فیصلہ الیکشن سے پہلے عدالت عظمیٰ کا آیا اسے الیکشن کمیشن نے ٹھیک سے سمجھا ہی نہیں۔ عدالت عظمیٰ کے گیارہ ججوں کی اس آبزرویشن اور آٹھ ججوں کے متفقہ فیصلے کو حکومتی حلقوں میں پسندیدگی کی نظروں سے نہیں دیکھا جارہا ہے۔ اسی لیے عدالت عظمیٰ کے اس فیصلے کو بے اثر کرنے کے لیے قومی اسمبلی میں قانون سازی کی گئی۔ اس طرح پارلیمنٹ اور عدلیہ آمنے سامنے آگئی ہیں۔
یہ آئینی اور قانونی جھگڑے کس منطقی نتیجے پر پہنچیں گے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ اگر عدالت عظمیٰ کے فیصلے کو من و عن تسلیم کرلیا جاتا ہے تو قومی اسمبلی میں نمبر گیم تبدیل ہو جائے گا، حکومت تو برقرار رہے گی لیکن اس کی دو تہائی اکثریت ختم ہو جائے گی، پھر وہ آئینی ترمیم نہیں ہو سکے گی جس کے ذریعے سے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی مدت ملازمت میں توسیع ہو سکے۔ دوسری صورت میں موجودہ حکومت کی گردن پر یہ تلوار لٹکتی رہے گی کہ نئے چیف جسٹس فارم 45 اور فارم 47 والے کیس کو ری اوپن کر دیں اور اس طرح حکومت کا قائم رہنا ہی مشکل ہوجائے۔ اس مشکل سے نکلنے کے لیے ہو سکتا ہے کہ کسی مرحلے پر صدارتی آرڈنینس کا سہارا لیا جائے کیا آصف زرداری صاحب ن لیگ کی حکومت برقرار رکھنے کے لیے آسانی سے اپنا کندھا فراہم کردیں گے۔ یہ ایک ملین ڈالر سوال ہے صدر صاحب ن لیگ کو تو انکار کردیں گے۔ اس انکار کی وجہ ن لیگ سے کوئی سیاسی اختلاف نہیں ہوگا بلکہ وہ چاہیں گے کہ کوئی اور ان سے کہہ کہ آپ ایسا کردیں پھر وہ جواب میں اپنی قیمت وصول کرسکتے ہیں کہ سندھ اور بلوچستان میں پی پی پی کی صوبائی حکومت ہے اس لیے یہاں بھی وفاقی حکومت بجلی کے بلوں وہی 14 فی صد رعایت دے جو صوبہ پنجاب میں دیا گیا ہے۔ پھر کے پی میں بھی گورنر پی پی پی کا ہے وہ بھی اپنے صوبے کے لیے ایسی ہی رعایت کا مطالبہ کرے گا۔ یہ تو صرف ہمارے اندازے ہیں ہوسکتا ہے ملکی سیاست کوئی اور رُخ اختیار کرلے۔
مضمون کے آغاز میں لکھا تھا کہ اڈیالہ جیل کا قیدی اپنے مخالف سیاسی جماعتوں کو دبائو میں لیے ہوئے ہے لیکن اب ایسا لگ رہا ہے کہ یہ قیدی خود اسٹیبلشمنٹ کے دبائو میں آرہا ہے پہلے سیاسی جماعتوں سے مذاکرات کے انکار کا تسلسل تھا البتہ اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کا اصرار تھا لیکن مقتدرہ کی طرف سے صاف انکار کے بعد محمود خان اچکزئی کی قیادت میں اتحاد بنایا گیا کہ یہ سیاسی جماعتوں سے مذاکرات کریں گے لیکن اس میں بھی کوئی قابل اطمینان پیش رفت نہ ہو سکی۔ ملکی سیاست میں سابق ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید کی گرفتاری کے بعد سے ایک ہلچل سی پیدا ہوگئی ہے۔ ان کی یہ گرفتاری کورٹ مارشل کے تناظر میں ہوئی ہے اور گرفتاری کی دو وجوہات بتائی گئی ہیں ایک تو ٹاپ ہائوسنگ سوسائٹی کا معاملہ اور دوسری وجہ یہ بتائی گئی کہ ریٹائرمنٹ کے بعد کی ان کی کچھ سیاسی سرگرمیاں ایسی رہی ہیں جو نہیں ہونا چاہیے تھیں۔ جبکہ معروف صحافی دانشوروں کی طرف سے تجزیوں میں یہ بات آرہی ہے کہ دوران ملازمت ان کی کچھ قابل اعتراض سیاسی سرگرمیوں کے حوالے سے کچھ ثبوت اکٹھا کیے گئے ہیں۔ چونکہ فیض حمید عمران خان کے بہت قریب تھے اس لیے جب ان کا آئی ایس آئی سے تبادلہ کیا گیا تو عمران خان نے اسے پسند نہیں کیا اور پھر اسی وجہ سے فیض حمید کی گرفتاری پر عمران خان کا یہ بیان آیا کہ ایک باصلاحیت شخص کو ضائع کردیا گیا۔
آج کے اخبار میں سابق وزیر اعظم عمران خان کا بیان آیا ہے کہ سابق آئی ایس آئی سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کو میرے خلاف وعدہ معاف گواہ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے سارا ڈراما مجھے ملٹری کورٹ لے جانے کے لیے کیا جارہا ہے۔ اڈیالہ جیل میں صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ان سب کو معلوم ہے میرے خلاف باقی سارے کیسز فارغ ہوچکے ہیں یہ اس لیے اب مجھے ملٹری کورٹ کی طرف لے جانا چاہتے ہیں یہ فیض حمید سے کچھ نہ کچھ اگلوانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ باجوہ نے بتایا کہ فیض ایک قابل جنرل ہے۔ جب میں نے غلط کام نہیں کیا تو مجھے فیض کے وعدہ معاف گواہ کے بیان کا کوئی خدشہ یا ڈر نہیں۔ نواز شریف کے کہنے پر جنرل فیض کو ہٹا کر دوسرے جنرل کو ڈی جی آئی ایس آئی تعینات کیا گیا میں نے سابق آرمی چیف جنرل باجوہ کی مکمل حمایت کی لیکن انہوں نے میری پیٹھ میں چھرا گھونپا اور میری حکومت گرادی چیف جسٹس کے متعلق بات کرتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ ان کو ڈر ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ چلے گئے تو ان کی الیکشن کی چوری کھل جائے گی۔
ایسا لگ رہا ہے کہ عمران خان پر یہ دبائو بڑھایا جارہا ہے کہ وہ موجودہ رجیم سے مذاکرات کریں اور کم از کم تین سال کے لیے موجودہ سیٹ اپ پر راضی ہو جائیں اس کے بعد مڈ ٹرم انتخابات پر بھی بات چیت ہوسکتی ہے لیکن فی الحال عمران خان ایسے کسی بندوبست پر آمادہ نہیں ہوں گے کیونکہ وہ اس وقت مقبولیت کے جس مقام پر پہنچ چکے ہیں اس کو برقرار رکھنا بہت ضروری ہے انہوں نے ذرا سا بھی اپنے موقف میں لچک دکھادی تو ہوسکتا ہے کہ ان کے لیے قبولیت کے دروازے کھلنے کے امکانات بڑھ جائیں لیکن پھر مقبولیت کے مقام سے نیچے گرجائیں گے جو ان کے سیاسی مستقبل کے لیے نقصان دہ ہوگا اس طرح اس وقت عمران خان اگر دیکھا جائے تو مقبولیت اور قبولیت کے درمیان سینڈ وچ بنے ہوئے ہیں۔