اسلام آباد: ہائی کورٹ نے لاپتا افراد سے متعلق کیس کی سماعت میں ریمارکس دیے ہیں کہ لوگوں کو اٹھایا جارہا ہے مگر چیف ایگزیکٹو کچھ نہیں کررہے۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے اظہر مشوانی کے لاپتا 2 بھائیوں کی بازیابی کے حوالے سے مقدمے کی سماعت کی، جس میں عدالت کے استفسار پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل نے بتایاکہ آج بھی اعلیٰ سطح پر رابطہ کیا ہے، اس معاملے میں ہر طرح سے کوششیں جاری ہیں۔
دوران سماعت درخواست گزار کے وکیل ڈاکٹر بابر اعوان نے اپنے دلائل میں کہا کہ 5 قوانین بغاوت اور بغاوت پر اکسانے کو ڈیل کرتے ہیں۔ کہیں نہیں بتایا گیا قومی مفاد کیا ہے۔ مجھ سے پوچھیں گے قومی مفاد کیا ہے تو میں کہوں گا بجلی کی قیمت کم کرو ۔ بلوچستان والا کہے گا مجھے گیس فراہم کرو اس کا یہ قومی مفاد ہے۔
پولیس کی جانب سے عدالت کو صورت حال سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا گیا کہ فیملی نے جو سی سی ٹی وی فوٹیج دی ہے، اس کی ریزولیوشن بہت کم ہے، جس وجہ سے نادرا یا فرانزک ایجنسی سے کوئی معلومات نہیں مل سکی۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ بظاہر یوں لگ رہا ہے کہ حکومت ہی جبری گمشدگیوں کی بینیفشری ہے۔ کیسے اس ملک میں لوگ اغوا ہوتے ہیں اور چیف ایگزیکٹو کچھ نہیں کرتے۔ اٹارنی جنرل نے کہا تھا وزیراعظم کو اس معاملے پر بریف کروں گا۔ چیف ایگزیکٹو کو ان معاملات کا پتا ہے مگر پھر بھی لوگ جبری طور پر لاپتا ہو جاتے ہیں۔
عدالت نے سربراہ جے آئی ٹی ایس پی لاہور کو رپورٹس جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ پولیس کو یہ دیکھنا ہوگا کہ غیر پولیس نے پولیس کی وردی پہنی کیسے؟ ۔ اس موقع پر بابر اعوان کی جانب سے عدالت سے سخت آرڈر پاس کرنے کی استدعا کی گئی، جس پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ میں اس کیس پر آرڈر پاس کروں گا۔