فلسطین: جنگ بندی مذاکرات ناکام؟

333

غزہ میں قتل عام رکوانے اور جنگ بندی کی کوششیں ختم ہو گئی ہیں اور امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن بدھ 21 جولائی کو خاموشی سے واپس چلے گئے کیوں کہ نیتن یاہو نے فلسطینیوںکا قتل عام ختم اور جنگ بندی سے صاف انکار کر دیا اور امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فرانس اور برطانیہ کی طرح فلسطینیوں کے قتل ِ عام کے لیے اسرائیل کی مدد کر تا رہے۔ اس کے بعد امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن مصر اور آخر میں ولی عہد قطر سے ملاقات کے بعد امریکا رونہ ہو گئے اور غزہ میں جاری قتل عام کا نیا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ فلسطینیوں کا قتل عام روکنے کے لیے جنگ بندی مذاکرات مکمل طور سے ناکام ہو چکے ہیں۔ اس حوالے سے ہم اپنے کالموں میں لکھ چکے ہیں کہ ان مذاکرات میں کامیابی کے آثار نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ نومبر 2023ء کے آغاز پر ہی حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ شہید نے یہ کہہ دیا تھا کہ امن مذاکرات سے مثبت نتائج کا نکلنا مشکل نہیں ناممکن ہے لیکن اس کے باوجود یہ مذاکرات امریکا کی نگرانی میں قطر، مصر اور فرانس میں جاری رہے۔ ناکامی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اسرائیل خطے میں جنگ کا پھیلاؤ چاہتا اور اسی کو یہودیوں کی بقا بتا رہا ہے۔ انہیں وجوہ کی بنا پر غزہ جنگ بندی پوری دنیا کے لیے ایک حقیقی امتحان بن کر رہ گئی ہے۔ امریکا کی انتہا پسند اسرائیلی حکومت کی حمایت نے خود امریکیوں کو ایک مخمصے میں ڈال دیا ہے۔ غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے اور اسرائیل اور حماس کے درمیان قیدیوں کی رہائی کے لیے ثالثی کی کوششیں اب بھی جاری ہیں۔

مصر، قطر اور امریکا کی ثالثی میں ہونے والی یہ بات چیت اس ہفتے قاہرہ میں جاری ہے۔ گزشتہ ہفتے دوحا میں ہونے والی دو روزہ میٹنگ کے بعد واشنگٹن کی جانب سے پیش کیے جانے والے امور کو حل کرنے کے لیے کچھ تجاویز پیش کی گئی تھیں تاکہ خلا کو جلد پُر کیا جا سکے۔ لیکن مذاکرات سے واقف اسرائیلی، فلسطینی اور دیگر ذرائع کے مطابق اسرائیل اور حماس کے درمیان اب بھی بڑے اختلافات موجود ہیں۔ امریکا اس سب کے باوجود یہی کہہ رہا ہے کہ جنگ بندی کا معاہدہ قریب ہے؟ ’العربیہ ڈاٹ نیٹ‘ بتارہا ہے کہ عرب اور عالمی تجزیہ کاروں کا اب بھی یہی خیال ہے کہ یہ جنگ بندی مطلوبہ ہدف حاصل نہیں کر سکے گی۔ اگر اسرائیلی موقف اسی طرح سخت رہا تو جنگ بندی بات چیت پوائنٹ صفر پر بھی جا سکتی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے اسرائیل اب بھی اس جنگ بندی کے لیے قطعی تیار نہیں ہے۔

اسرائیل کی نئی رکاوٹ یہ ہے کہ غزہ کی پٹی کے جنوب اور مرکز میں بے گھر ہونے والے لوگوں کی شمالی غزہ کے علاقے میں واپسی کے طریقہ کار اور کنٹرول اسرائیل اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کچھ اہم علاقوں سے اسرائیلی فوج کے انخلا پر بھی اختلاف ہے۔ نیٹزاریم اور فلاڈیلفیا ایکسز، رفح کراسنگ آپریشن اور دونوں طرف سے رہا کیے گئے قیدیوں کی نوعیت ایسے امور ہیں جن پر حماس اور اسرائیل کے درمیان شدید اختلاف ہے اور اس پر اسرائیل اور حماس متضاد موقف رکھتے ہیں۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ فلاڈیلفیا محور اور نیٹزارم پر اپنی فوج برقرار رکھنا چاہتا ہے مگر حماس ہرصورت میں اسرائیلی فوج کا انخلا چاہتی ہے۔

اس سے قبل حماس کے رہنما اسامہ حمدان نے تصدیق کی تھی کہ تنظیم رواں سال مئی میں امریکی صدر جو بائیڈن کی جانب سے پیش کی گئی تجویز پر آمادہ ہو گئی تھی تاہم واشنگٹن نیتن یاہو کو اس پر قائل کرنے میں ناکام رہا ہے۔ حماس ان امور پر ڈٹی ہوئی ہے کہ غزہ کی پٹی سے اسرائیلی فوج کا مکمل انخلا عمل میں آئے، فائر بندی کو پوری طرح یقینی، امدادی سامان کو داخل ہونے دیا جائے۔ فلسطینی بے گھر افراد کو بنا کسی قید کے غزہ پٹی کے جنوب سے شمال میں واپس آنے دیا جائے اور اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینیوں میں سے بعض کی رہائی میں حائل اسرائیلی ویٹو کو ختم کیا جائے۔ حماس کے عہدے داروں کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ جنگ بندی کے معاہدے میں قیدیوں کی رہائی میں سب سے ہائی پروفائل 21 سال سے قیدی مروان برغوتی کی رہائی شامل ہونی لازمی ہے جن کا نام فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس کے ممکنہ جانشین کے طور پر لیا جاتا رہا ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ واشنگٹن نے اس عرصے کے دوران جنگ بندی کی کوششیں تقریباً غیر معمولی انداز میں تیز کر دی تھی اور امریکی وزیر خارجہ بلنکن غزہ پر جنگ کے آغاز کے بعد اپنے نویں یا دسویں دورے پر خطے میں آئے ہیں تو یہ بات منطقی یا قابل فہم نہیں ہے کہ امریکا کی یہ کوششیں بھی ناکامی پر ختم ہوں گی۔ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کی کامیابی کے بغیر واپسی اسرائیل کی خطے میں جنگ کو عروج تک پہنچانے کی ہر ممکن کوشش ہے۔ اسرائیل کی شرائط پر جنگ بندی مکمل طور پر ضرور ہو جاتی لیکن، یہ مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے نہیں، بلکہ انسانی امداد پہنچانے اور قتل و غارت کی کارروائیوں کو روکنے تک محدود رہتا۔

اگرچہ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے گزشتہ روز اعلان کیا تھا کہ اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو گزشتہ ہفتے دوحا میں پیش کی جانے والی نئی امریکی تجویز پر آمادہ ہو گئے ہیں تاہم حماس نے باور کرایا ہے کہ یہ تجویز گزشتہ ماہ تنظیم کو پیش کی جانے والی تجویز سے یکسر مختلف ہے جس پر حماس آمادہ ہو گئی تھی۔ اتوار اور پیر کے روز قاہرہ میں ہونے والی بات چیت سے با خبر ذرائع کے مطابق اسرائیلیوں نے نیتن یاہو کے حکم پر ایک نقشہ پیش کیا جس میں فلاڈلفی راہ داری سے اسرائیلی فوج کے انخلا کے بجائے محض تعداد میں کمی دکھائی گئی۔ امریکی نیوز ویب سائٹ axios کے مطابق اس نقشے سے واضح ہوا کہ اسرائیلی فورسز ابھی تک پوری فلاڈلفی راہ داری میں تعینات ہیں۔ اس امر نے مصر کو چراغ پا کر دیا اور اس نے مذکورہ نقشہ مسترد کر دیا۔

اگر بین الاقوامی برادری حماس کے رہ نما اسماعیل ہنیہ کے تہران میں اور حزب اللہ کمانڈر فواد شکر کے بیروت میں قتل کے بعد لمحہ بہ لمحہ ایرانی ردعمل کا انتظار کر رہی ہے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ جنگ بندی مذاکرات امید کی ایک کرن ہیں جو اس متوقع ردعمل کی شدت کو کم یا محدود کر سکتے ہیں۔ خطے میں بڑی جنگ کو روکنے کے لیے برف کا گولہ دھیرے دھیرے گھوم رہا ہے اور نیتن یاہو اس گولے کو جنگ کی آگ میں تبدیل کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہا ہے۔ امریکا میں انتخابات کے دوران امریکی یہ سوال اُٹھانا چاہتے ہیں۔ کیا اسرائیلی مفادات امریکا کے اسٹرٹیجک مفادات سے زیادہ اہم ہوگئے ہیں؟ واشنگٹن انتہا پسند اسرائیلی موقف کی وجہ سے خطے اور حتیٰ کہ دنیا میں اپنی پوزیشن مزید خراب ہونے کا انتظار کر رہا ہے؟ لیکن پوری دنیا میں اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔