کراچی ( رپورٹ: محمدانور) میئر کراچی مرتضٰیٰ وہاب کی عدم توجہ کے باعث حال ہی میں کے ایم ڈی سی کا درجہ بڑھاکر اسے یونیورسٹی میں تبدیل کرنے والے تعلیمی ادارے میں ابتدا ہی سے خلاف ضابطہ کارروائیاںعروج پر پہنچ چکی ہیں۔ سرکاری ذرائع کے مطابق یونیورسٹی میں روز اول سے اب تک آڈٹ نہ کرائے جانے کا سلسلہ جاری ہے،4ماہ گزر جانے کے
باوجود یونیورسٹی کو معروف قوانین کے مطابق چلانے کا سلسلہ شروع کیا گیا اور نہ ہی اس کے اکاؤنٹس کھولے جاسکے۔ میئر کراچی اس یونیورسٹی کے پرو وائس چانسلر ہونے کے باوجود یونیورسٹی کے ضروری امور کی انجام دہی سے مبینہ طور پر غفلت کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ ان کی غفلت کے باعث تاحال یونیورسٹی میں قوانین کے تحت رجسٹرار اور مستقل اکاؤنٹ افسران اور آڈٹ افسران سمیت نصف درجن اہم اسامیوں پر آفیسرز کا تقرر نہیں کیا جاسکا۔ ان اسامیوں میں ڈائریکٹر فنانس، ڈائریکٹر ہیومن ریسورسس و ایڈ منسٹریشن، ڈائریکٹر سپورٹس اور ریزیڈنٹ ؤڈیٹر شامل ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ان اسامیوں کو عدالت عظمیٰ کے احکامات کے خلاف دیگر اداروں سے ڈی پارٹیشن پر عارضی طور پر خدمات حاصل کرنے والوں کو تعینات کرکے کام چلایا جا رہا ہے جو یونیورسٹی کے قوانین کے بھی خلاف ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ آڈٹ افسر نہ ہونے کی وجہ سے میئر کراچی نے کے ایم سی کے آڈٹ افسر سہیل احمد کو عارضی طورپر قائم مقام آڈیٹر کی ذمہ داری سونپ کر تقرر کیا تھا لیکن انہوں نے تقرری کے ساتھ ایمانداری سے ذمہ داری ادا کرنا شروع کی اور رجسٹرار سمیت دیگر افسران کی تنخواہوں کے بلوں جو 2 لاکھ روپے سے 5 لاکھ روپے تک کے ہے پر اعتراض کیا تھا آڈٹ افسر کا اعتراض یہ تھا کہ اس قدر بھاری تنخواہیں انہیں نہیں دی جاسکتیں،مزید یہ کہ جب یونیورسٹی کے اکاؤنٹس ہی نہیں کھولے گئے توتنخواہوں کی ادائیگی کیسے ممکن ہے؟میٹرو پولیٹن کمشنر افضال زیدی نے سہیل احمدکو فوری طور پر آڈیٹر کی اضافی ذمہ داری ادا کرنے سے روک دیا اور انہیں واپس بلدیہ عظمیٰ کے آڈٹ افسر کی ذمہ داری پر بھیج دیا۔ یونیورسٹی کے اساتذہ نے ایک اچھے افسر کو خلاف قانون ہٹائے جانے پر یونیورسٹی کے اساتذہ اور دیگر افسران تشویش میں مبتلا ہیں۔ خیال رہے کہ رجسٹرار کی حیثیت سے قائم مقام رجسٹرار کی ذمہ داریاں ادا کرنے والے محمود الحسن میٹرو پولیٹن کمشنر کے قریبی رشتہ دار ہیں۔ افسران کا کہنا ہے کہ اس طرح اس یونیورسٹی کا قوانین کے تحت چلنا مشکل نظر آتا ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ حکومت سندھ کی جانب سے تاحال کے ایم ڈی سی یونیورسٹی کو قواعد کے تحت نہ چلائے جانے کا کوئی نوٹس نہیں لیا گیا۔