نریندر مودی بھارت میں کبھی یکساں سول کوڈ نافذ نہیں کرسکتے

179

کراچی ( رپورٹ:قاضی جاوید) بھارت کے وزیراعظم نریندرمودی کے یونیفارم سول کوڈ یعنی یکساں سول کوڈکے بارے میں بیان کے بعد ملک بھر میں بحث چھڑگئی ہے ۔یکساں سول کوڈکے تحت ہر شہری کے لیے یکساں قانون ہوگا۔ قانون کا تعلق کسی خاص مذہب سے نہیں ہوگا۔ مختلف مذاہب کے پرسنل لاز ختم ہو جائیں گے۔ شادی، طلاق اور جائداد کے معاملے میں صرف ایک قانون لاگو ہوگا۔ مذہب کی بنیاد پر کسی کو کوئی خاص فائدہ نہیں ملے گا۔اس سلسلے میں جسارت نے معروف شخصیات سے سوال کیا کہ’’کیا بھارت میں مودی کی حکومت یکساں سول کوڈ لانے میں کامیاب ہوجائے گی؟‘‘ جماعت اسلامی کے نائب امیر محمد سلیم انجینئر نے سوال کے جواب میں کہا کہ بھارت بہت سارے مذاہب کا ملک ہے اور ہزاروں سال سے اس ملک میں یکساں سول کوڈ کو کسی نہ کسی طرح بیان کیا جاتا رہا ہے۔ہندو ازم میں درجنوں مذاہب ہیں جس میں کسی بھی طرح کی یکسانیت نہیںہے ،نریندرمودی اب تک نافذ سول کوڈ کو غلط کہہ رہے ہیں اس پر ان کو کوئی دلیل میسر نہیں ہو رہی ہے ۔ ان کا یہ بیان خود اپنے آپ میں انتہائی عجیب سا محسوس ہو رہا ہے۔انھوں نے کہا کہ دستور سازوں نے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ ملک میں جو مذہبی تنوع ہے وہ متاثر نہ ہو اور تمام مذاہب کے ماننے والوں کو اپنے مذہب پر چلنے کی آزادی ہو۔ان کے مطابق پرسنل لاز صرف مسلمانوں کے ہیں لیکن ایسا نہیں ہیں بلکہ تمام مذاہب کے ماننے والوں کے ہیں، قبائلیوں کے بھی ہیں۔ وزیرِ اعظم کا بیان کوئی نیا نہیں ہے البتہ نئے الفاظ میں پرانی بات دہرائی گئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس کا مقصد صرف مسلمانوں کو نشانہ بنانا ہے۔ وائس آف امریکا دہلی کے نمائندے سہیل انجم کہا کہ ایسا محسو س ہو رہا ہے کہ مودی کہناکچھ چاہتے تھے اور وہ عجلت میںکچھ اور ہی کہہ گئے ہیں۔ وزیرِ اعظم نریندر مودی کی جانب سے یوم آزادی پر خطاب میں مختلف مذاہب کے سول کوڈ کو کمیونل یا فرقہ پرست سول کوڈ کہنے پر ایک تنازع پیدا ہو گیا ہے۔جہاں حزبِ اختلاف اور مسلم تنظیموں نے وزیرِ اعظم کے بیان کو تفریق آمیز قرار دیکر مذمت کی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بی جے پی نے ان میں سے اپنے2 اہم ایجنڈوں پر عمل کر لیا ہے، تیسرا ایجنڈا باقی ہے۔ اس کی کوشش ہے کہ ملک میں مختلف مذاہب کے عائلی قوانین کی جگہ پر ایک یکساں قانون ہو۔سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی کانگریس کے جنرل سیکرٹری جے رام رمیش کا کہناہے کہ بھارت جیسے ملک میں ایسا ممکن ہی نہیں ہے ۔ وزیر اعظم کا یہ کہنا کہ جو سول کوڈ نافذ ہے وہ فرقہ پرست ہے آئین کے خالق بھیم راؤ امبیڈکر کی سخت توہین ہے۔انھوں نے فیملی لا کی اصلاحات سے متعلق حکومت کے لا کمیشن کی مشاورتی دستاویز کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اختلافِ رائے کا مطلب تفریق نہیں بلکہ یہ ایک مضبوط جمہوریت کی نشانی ہے اوریہ بات مودی کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔جسارت کے سوال کے جواب میں بی بی سی کے صحافی نیاز فاروقی کا کہناہے کہ مودی کے حالیہ اعلان کے بعد بھارت میں شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔ اس قانون کے حامیوں نے اس کا خیر مقدم کیا لیکن ناقدین اسے ایک سیاسی فیصلہ قرار دے رہے ہیں۔ مودی کا بیان لا کمیشن آف انڈیا، جو کہ قانونی اصلاحات پر حکومت کو مشورہ دیتا ہے، کے اس حالیہ بیان کے بعد آیا ہے جس میں اس نے ’یونیفارم سول کوڈ‘ یا یو سی سی پر عوام سے تبصرہ طلب کیا تھا۔ حالانکہ 2018 میں اسی مشاورتی کمیشن نے کہا تھا کہ یہ قانون نہ تو فی الحال ضروری ہے اور نہ ہی آئندہ اس کی ضرورت ہو گی۔کانگریس کے رکن اور سابق مرکزی وزیر پی چدمبرم اوردیگر کانگریسی ارکان کاموقف ہے کہ اسے لوگوں پر زبردستی مسلط نہیں کیا جانا چاہیے، اور یہ کہ یہ دیگر اہم مسائل سے توجہ ہٹانے کی بی جے پی کی کوشش ہے۔ دہلی اور پنجاب میں حکمران جماعت عام آدمی پارٹی نے کہا ہے کہ وہ یو سی سی کو متعارف کرانے پر اصولی طور پر متفق ہیں لیکن اسے تمام مذاہب اور اداروں کے ساتھ مشاورت کے بعد لانا چاہیے۔ تامل ناڈو میں ڈی ایم کے پارٹی نے کہا کہ سب سے پہلے ہندو مذہب میں یکساں سول کوڈ متعارف کرایا جانا چاہیے۔ ڈی ایم کے لیڈر ٹی کے ایس ایلانگوون نے کہا کہ پسماندہ اور قبائلی سمیت ہر فرد کو ’ملک کے کسی بھی مندر میں پوجا کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔ ہم یو سی سی اس لیے نہیں چاہتے کیونکہ آئین نے ہر مذہب کو تحفظ دیا ہے۔ وہ دلتوں اور قبائلیوں کے ساتھ امتیازی سلوک کا حوالہ دے رہے تھے جنھیں بعض اوقات کئی مندروں میں جانے یا کچھ مذہبی رسومات میں حصہ لینے سے روک دیا جاتا ہے۔آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے رہنما اسد الدین اویسی نے کہا ہے کہ یو سی سی انڈیا کے تنوع کے لیے ایک چیلنج ہے۔ انھوں نے خبر رساں ایجنسی اے این آئی سے بات کرتے ہوئے سوال کیا کہ ’کیا آپ یو سی سی کے نام پر ملک کی تکثیریت اور تنوع کو ختم کر دیں گے؟‘انہوں نے مزید کہا کہ ’جب وہ یو سی سی کی بات کرتے ہیں، تو وہ ہندو سول کوڈ (لانے) کی بات کر رہے ہیں۔ میں انھیں چیلنج کرتا ہوں کہ کیا وہ ہندو غیر منقسم خاندان کو ٹیکس میں دی گئی مراعت ختم کر سکتے ہیں؟