مبارک ثانی کیس:حکومتی اپیل منظور:سپریم کورٹ نے فیصلے سے معترضہ پیراگراف حذف کردیے

238

اسلام آباد:سپریم کورٹ نے مبارک ثانی کیس میں حکومتی اپیل منظور کرتے ہوئے فیصلے سے معترضہ پیراگراف حذف کردیے۔

نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق  عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں کہا  کہ مبارک ثانی کیس کے فیصلے کے حذف شدہ پیراگراف کو عدالتی نظیر کے طور پر پیش نہیں کیا جا سکتا۔ قبل ازیں عدالت نے علمائے کرام کی معاونت کے بعد نظرثانی فیصلے  سے پیراگراف نمبر 7، 42 اور 49 سی کو حذف کردیا۔

یاد رہے کہ نظرثانی فیصلے کے خذف کردہ پیراگراف میں قادیانیوں کی ممنوع کتاب، قادیانیوں کی تبلیغ سے متعلق ذکر کیا گیا تھا جب کہ دورانِ سماعت مولانا فضل الرحمان نے عدالت میں رائے دی تھی کہ سپریم کورٹ خود کو صرف ضمانت تک محدود رکھے۔

عدالت نے اپنے حکم میں مزید کہا کہ وفاقی حکومت نے مبارک ثانی کیس کے فیصلے میں درستی کے لیے رجوع کیا تھا جب کہ عدالت نے اسلامی نظریاتی کونسل کی بھیجی گئی سفارشات کا بھی جائزہ لیا ہے۔

آج جمعرات کے روز ہونے والی سماعت میں عدالت عظمیٰ نے مبارک ثانی کیس میں پنجاب حکومت کی نظرثانی درخواست پر مفتی تقی عثمانی، مولانا فضل الرحمان اور دیگر کی معاونت حاصل کی، چیف جسٹس کی جانب سے علما ئے کرام سے غلطیوں کی نشاندہی  کی درخواست کی گئی، جس پر علما نے سپریم کورٹ کی وضاحت کے لیے فیصلہ دوبارہ تحریر کرنے یا فیصلہ کالعدم قرار دینے کا مطالبہ کیا۔

سپریم کورٹ میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی زیرسربراہی 3 رکنی بینچ کے روبرو ہونے والی سماعت کے دوران ترکیہ سے مفتی تقی عثمانی وڈیو لنک کے ذریعے شریک ہوئے جب کہ مولانا فضل الرحمان، اٹارنی جنرل اور دیگر عدالت میں  موجود تھے۔

دوران سماعت اٹارنی جنرل نے بتایا کہ مبارک ثانی کیس کی نظرثانی میں جب آپ نے فیصلہ دیا تو پارلیمنٹ اور علما کرام نے وفاقی حکومت سے رابطہ کیا، کہا گیا کہ حکومت کے ذریعے سپریم کورٹ سے رجوع کیا جائے۔ اسپیکر قومی اسمبلی کی طرف سے خط ملا تھا اور وزیراعظم کی جانب سے بھی ہدایات کی گئیں تھیں، ظاہر ہے دوسری نظرثانی تو نہیں ہوسکتی،اس لیے ضابطہ دیوانی کے تحت آپ کے سامنے درخواست آئی۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ مجھے ایسا کہنا تو نہیں چاہیے لیکن مجبور ہوں۔میں ہر نماز میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ مجھ سے کوئی غلط فیصلہ نہ کروائے، انسان اپنے قول و عمل سے پہچانا جاتا ہے۔ پارلیمان کی بات سر آنکھوں پر ہے۔

دوران سماعت مفتی تقی عثمانی نے عدالت کی معاونت کرتے ہوئے 29 مئی کے فیصلے سے 2پیراگراف حذف کرنے کا مطالبہ کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ فیصلے کے پیراگراف 7 اور 42 کو حذف کردیا جائے۔

مفتی تقی عثمانی نے بتایا کہ پیراگراف 42 میں تبلیغ کا لفظ استعمال کیا گیا یعنی غیر مشروط اجازت دی، چیف جسٹس نے سیکشن 298 سی پڑھ کر سنایا، سیکشن کے مطابق غیر مسلم کو مسلمان ظاہر کرتے ہوئے تبلیغ کی اجازت نہیں، قادیانی اقلیت میں ہیں لیکن خود کو غیر مسلم تسلیم نہیں کرتے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ تقی عثمانی صاحب میں معذرت چاہتا ہوں، وضاحت کرنا چاہتا ہوں جنہیں نوٹس کیا تھا ان کی جانب سے ہمیں بہت سی دستاویزات ملیں، اگر ان سب کا بغور جائزہ لیتے تو شاید فیصلے کی پوری کتاب بن جاتی، ان تمام دستاویزات کو دیکھ نہیں سکا وہ میری کوتاہی ہے۔ عدالتی فیصلے میں جو غلطیاں اور اعتراض ہے ہمیں نشاندہی کریں، اگر کوئی بات سمجھ نہیں آئی تو ہم سوال کریں گے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارا ملک اسلامی ریاست ہے اس لیے عدالتی فیصلوں میں قرآن و حدیث کے حوالے دیتے ہیں، میں غلطی سے بالاتر نہیں ہوں۔

مفتی تقی عثمانی نے کہا کہ معاملہ ایسا ہو تو لمبے فیصلے لکھنے پڑھتے ہیں۔آپ نے فیصلے کے پیراگراف 7 میں لکھا کہ احمدی نجی تعلیمی ادارے میں تعلیم دے رہا تھا، تاثر مل رہا ہے کہ وہ نجی تعلیمی اداروں میں تعلیم دے سکتے ہیں۔

پروفیسر ساجد میر کے نمائندے حافظ احسان کھوکھر عدالت میں پیش ہوئے اور کہا کہ عدالت پیراگراف حذف کرنے کے بجائے نیا فیصلہ تحریر کرے، کوئی پیراگراف رہ گیا تو مزید ابہام پیدا ہوگا، عدالت مبارک ثانی کیس میں اصلاح اپنے ابتدائی فیصلے سے شروع کرے۔

مولانا فضل الرحمان حافظ احسان کھوکھر کے نکتے کی حمایت میں روسٹرم پر آ گئے اور کہا کہ مناسب یہی ہے کہ عدالت مبارک ثانی کیس میں دونوں فیصلے کالعدم قرار دے، نہیں چاہتے کہ عدالت کے فیصلے میں ابہام کا کوئی فائدہ اٹھائے، سب ہی علما اس تجویز سے متفق ہوں گے۔

جماعت اسلامی کے رہنما فرید پراچہ نے کہا کہ قادیانی اپنے آپ کو غیر مسلم نہیں مانتے اسی وجہ سے یہ مسئلہ پیدا ہوتا ہے، قادیانیوں کا اپنے آپ کو مسلمان کہنا جرم ہے، قادیانی چاہے تشہیر گھر کی چاردیواری میں کریں یا باہر وہ جرم ہے۔قتل گھر کے اندر ہو یا باہر دونوں صورتوں میں جرم ہے، قادیانیوں کو اپنے عقائد کو مسلمانوں کی طرح کرنے کی کسی صورت اجازت نہیں دے سکتے۔عدالتی فیصلے کے پیرا 7سے ہمیں اعتراض ہے۔

فرید پراچہ نے کہا کہ یہ صرف مبارک ثانی کیس کا معاملہ نہیں بلکہ 100 سالہ جہدوجہد اور تاریخ کا معاملہ ہے۔ عدالتی فیصلے کے پیرا 37،38، 39،40 اور 49 سی کا بھی دوبارہ جائزہ لیں۔

مذہبی اسکالر عطا الرحمن نے کہا کہ قادیانیوں کا مسئلہ یہ ہے وہ تو آئین پاکستان کو ہی نہیں مانتے، قادیانی ابھی بھی تفسیر صغیر کی تشہیر کررہے ہیں۔جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس پر تو ایف آئی آر کاٹی جا سکتی ہے۔عطا الرحمن نے کہا کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی تجاویز پر ہم دیگر علما کی طرح متفق ہیں۔ مسلمانوں کے جذبات اس معاملے سے جڑے ہوئے ہیں۔

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے لیے پارلیمنٹ نے 1974ء میں ایک کمیٹی بنائی، کمیٹی کے فیصلے کو پارلیمنٹ کی ویب سائٹ پر آج تک جاری نہ کیا جاسکا، ہم نے پارلیمنٹ کو کچھ کہا تو یہ مداخلت ہوگی۔