پہلے فارسی شعر ملا حظہ فرمائیے:
رنجِ دنیا، فکرِ عقبیٰ، داغِ حرماں، دردِ دل
یک نفسِ ہستی بدوشم عالم را بار کرد
دیکھیے عزیزم فانی صوابوی نے شعر کی روح میں رواں تخیل کی اردو میںکیا ہی خوشگوار صورت گری کی ہے:
رنجِ دنیا، فکرِ عقبیٰ، داغِ حرماں، دردِ دل
ایک پل کی زندگی نے مجھ پہ دنیا لاد دی
شعر میں زندگی کی جو المناک تصویر ہے کھیل اس کی یاسیت کو کم کردیتے ہیں۔ موجودہ نسل آج کے جن احمقوں کے ہاتھوں تربیت پا رہی ہے، تعصب، فرقہ پرستی، پست روایات، مذہبی انحطاط، اخلاقی نظام کے نشیب وفراز، اجتماعی نظام کی خستگی، سیاست کے تنائو، ارشد ندیم کے کارنامے نے نامساعد حالات کا مقابلہ کرتی، طرح طرح کے فریبوں کی شکار قوم کو مسرت کے چند لمحات ارزاں کردیے۔ یہ کتنی بڑی بات ہے کہ ایک تھرو لاکھوں روحوں کو خوشی اور سرشاری کی کیفیات سے مالا مال کردے۔ جس وقت یہ سطور لکھی جا رہی ہیں، چشم تصور میں، میرا کمرہ لاکھوں تالیوں کی آوازوں سے گونج رہا ہے جو اس عظیم کھلاڑی کی تحسین کے لیے بجائی جارہی ہیں۔
ہمارے یہاں جو کارنامے انجام دیے جاتے ہیں وہ ارادی نہیں ہوتے بس اچانک ہو جاتے ہیں۔ سرکار کی طرف سے حوصلہ افزائی کے ہر سہارے اور تعاون سے گریز کے باوجود یہ ارشد ندیم کی ذاتی کوششیں، حوصلہ مندی، جوش اور خوداعتمادی تھی کہ طغرائے امتیاز اس کے نام ہوا۔ سرکار کا اس میں کوئی کردار نہیں یا اگر ہے بھی تو بہت ہی کم۔ اونٹ کے منہ میں زیرے کے بقدر۔
جیفرسن نے اعلان کیا تھا کہ ’’وہ حکومت بہترین ہے جو کم سے کم حکومت کرتی ہے‘‘۔ ہماری آتی جاتی حکومتیں اسی قول پر عمل کرتی ہیں۔ قوانین کو کمزوروں پر لادنے کے سوا وہ کوئی کام کرنے پر یقین نہیں رکھتیں۔ سرمایہ داروں اور طاقتوروں کو زیادہ سے زیادہ توانائی بخشنے اور عوام کی آزادی سلب کرنے اور غیرمساوی سلوک کا نشانہ بنانا، یہی وہ ابدی مقام ہے جس کے حصول کے لیے ہر حکومت کوشاں ہے۔ ایسے میں کھیلوں میں کسی مقام کی کوشش! اس کے لیے کس کے پاس فرصت اور دماغ ہے؟؟
ہم سب پر ایک غریب الوطنی اور بے چارگی کی سی کیفیت طاری ہے۔ ہمیں اپنا ماضی، حال اور مستقبل کچھ بھی درخشاں نظر نہیں آرہا۔ وطن عزیزکے حوالے سے ہر ذہن، ہر وقت کسی اندوہناک خبر کے لیے تیار رہتا ہے۔ حکمران طبقے کی لالچ اور خود پسندی کسی اخلاقی اصول کی پابند ہونے کے لیے تیار نہیں۔ وسیع آبادی ہونے کے باوجود ہم ایک غیر متحرک جسم ہیں۔
ہاکی، اسکواش اور کرکٹ ہماری کامیابی اور اقوام عالم میں ناموری یہیں تک محدود تھی۔ کرکٹ کو بھارت سے مرعوبیت کھا گئی۔ اب ہماری کرکٹ ٹیم بھارت کے مقابل آنے سے پہلے ہی ہار جاتی ہے۔ اسکواش میں ہماری کامیابیاں جہانگیر خان اور جان شیر خان اور ان سے پہلے روشن خان اور دیگر عظیم کھلاڑیوں کی صلاحیتوں اور ستارگان عروج کی مرہون منت تھیں جو ان کے ساتھ ہی غروب ہو گئیں۔ رہی ہاکی تو بجز اس کے کیا کہا جاسکتا ہے کہ ’’خدا بخشے بہت سی خوبیاں تھی مرنے والے میں‘‘۔ اس گھپ اندھیرے میں جیولن میں ارشد ندیم کی انفرادی کوشش نے عالم کو زیرو زبر کردیا ہے۔
اس کھیل سے کہہ اپنی مژہ سے کہ باز آئے
عالم کو نیزہ بازی سے زیرو زبر کیا
جس رفتار اور تعداد میں ہمارے یہاں قانون سازی ہوتی ہے لگتا ہے ہم چوروں کی قوم ہیں۔ ایک چینی ضرب المثل ہے کہ جب کوئی قوم بہت سے قوانین بنانا شروع کردے تو سمجھ لو کہ اس پر بڑھاپا آرہا ہے۔ ہمیں بے حدو حساب قانون سازی کی ضرورت پیش نہ آتی اگر ہمارا حکمران طبقہ صرف اپنے مشا ہروں اور تنخواہوں تک محدود رہتا اور بددیانتی اور بدعنوانیوں میں مبتلا نہ ہوتا۔ ہمارے حکمران جوانیوں ہی میں بددیانت نہیں تھے، آج بھی چوری کرنے سے نہیں چوکتے جب ان کے پائوں قبر میں لٹکے ہوئے ہیں۔ ہمارے جوان ہمہ وقت شارٹ کٹ اور ملک سے بھاگنے کے راستوں کی تلاش میں ہیں۔ ہم تنہائی میں گناہ اور ہجوم میں پارسا ئی کے بہروپ بھرنے کے عادی ہیں۔ ہمارا تجارتی طبقہ لوٹ کھسوٹ کے سوا کچھ نہیں جانتا۔ ہمارے ملک کے خزانے اور دولت کے انبار قرض کے سوا کچھ نہیں۔ ہم سب دلدل میں پھنس کررہ گئے ہیں۔ اس دلدل سے ہمیں کون نکالے گا؟ کھیلوں میں جیتے گئے انعامات!!!
کھیل ذہنوں اور جسموں کو صحت عطا کرسکتے ہیں لیکن اس سے زیادہ اہم یہ ہے کہ ہمارے مدرسوں اور جامعات کی ضرورتیں پوری ہونی چاہییں۔ جس طرح ارشد ندیم پر کروڑوں روپے، گاڑیاں اور بنگلے ارزاں کیے جارہے ہیں تعلیمی میدان میں کارنامے انجام دینے والوں کو بھی ہمیں مستقبل کے مالی خوف اور اندیشوں سے بے نیاز کرنا چاہیے۔ ہمیں کھلاڑیوں سے زیادہ اچھے استادوں کی ضرورت ہے۔ کھیل کے میدانوں سے زیادہ ہمیں درس گاہوں کی ضرورت ہے۔
دنیا جس تیز رفتاری سے آگے جارہی ہے وہ وقت دور نہیں جب جاہل اور کم علم انسانوں کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ ایسے میں کھیلوں کے تمغے حاصل کرنے والوں سے زیادہ ہمیں اعلیٰ تعلیم میں ڈگری ہو لڈرز جوانوں کی زیادہ ضرورت ہوگی۔ ہمیں ہزاروں مقابلوں، انعامات اور لا کھوں وظیفوں سے اپنے طلبہ میں تقابل، مطالعہ اور تحقیق کے محرکات اور جذبات کو فروغ دینا ہو گا۔ کھیلوں سے زیادہ تعلیم ہماری ترجیح ہونی چاہیے۔ لیکن یہ سب ہم کن کو کہہ رہے ہیں جن کی ترجیح کھیل ہیں نہ تعلیم۔
ہمیں ایسے محسنین کی ضرورت ہے جو بے نور آنکھوں کو روشنی بخش سکیں، ایسے مسیحائوں کی ضرورت ہے جو بے غرض ولالچ قوم کو اور اس کے بچوں کو صحت اور زندگی بخش سکیں۔ ایسے اساتذہ کی ضرورت ہے جو اعلیٰ درجات تک لوگوں کو تعلیم دے سکیں۔ کھیل کے میدانوں سے زیادہ ہماری ترجیح تعلیمی اور تجارتی عمارتوں کی تعمیر ہونا چاہیے۔ ہمیں ہزاروں مقابلوں، انعامات اور لاکھوں وظیفوں سے اپنے طلبہ میں مطالعے اور تحقیق کے محرکات اور جذبات پیدا کرنے ہوں گے۔ سائنس میں تحقیق کے نئے میدان عبور کرنے ہوں گے۔ ادبی تحریکوں سے ایک نیا ادب تعمیر کرنا ہوگا۔ ان سب کے ساتھ ساتھ اگرکھیل کے میدان اور تندرستی کی اہمیت بھی ہمارے پیش نظر ہو تو سبحان اللہ۔ تعلیمی اداروں اور درس گاہوں سے فیض یافتہ ایک صحت مند اور تندرست نسل ہی ملک اور قوم کو محفوظ اور قائم رکھنے کا کام کرسکتی ہے۔