حیدرآباد (اسٹاف رپورٹر) کینسر امراض کے ماہر معروف اینکا لوجسٹ سابق ڈائریکٹر اٹامک انرجی میڈیکل سینٹر کراچی ڈاکٹر محمد علی میمن نے صحافیوں کی آگاہی کے لیے پریس کلب میں منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایشیاء میں سب سے زیادہ بریسٹ کینسر پاکستان میں پایا جاتا ہے، خواتین گٹلی ہونے کی صورت میں فوری ٹیسٹ کرائیں تاکہ مرض کی بروقت تشخیص ہو سکے جبکہ مردوں میں اورل کینسر کی شرح خواتین سے زیادہ پائی جاتی ہے، اس وقت اورل کینسر میں پاکستان دنیا میں 17 ویں نمبر پر ہے، نوجوانوں کو اورل کینسر ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کینسر کو پہلے اور دوسرے درجے پر روکا، تیسرے درجے پر کنٹرول کیا جا سکتا ہے، البتہ چوتھا اسٹیج مریض کے لیے بہت خطرناک ہے جسے نہ تو روکا اور نہ ہی کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔ ڈاکٹر محمد علی میمن نے کہا کہ تمباکو نوشی مین پوری گٹکا کا استعمال کینسر کی بڑی وجہ ہے جس کے لیے زیادہ سے زیادہ آگاہی فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ساؤتھ ایسٹ ایشیاء میں مین پوری، گٹکے کا استعمال بہت زیادہ ہے، ویت نام میں لیور کینسر سب سے زیادہ ہے، دنیا بھر میں سالانہ 80 لاکھ افراد تمباکو نوشی کے باعث موت کا شکار ہو رہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ آسٹریلین خواتین دنیا میں سب سے زیادہ اسموکنگ کرتی ہیں، تمباکو نوشی انتہائی خطرناک ہے جس سے ہمیں بچنا چاہیے، جبکہ چھالیہ کے استعمال کے فائدے کم نقصانات بہت زیادہ ہیں، 25 فیصد کینسر تمباکو نوشی سے ہوتا ہے، اسکولز اور کالجز کے بچوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ متوازن غذا کے استعمال، ایکسر سائز، کھیلوں کی سرگرمیوں میں حصہ لینے سے اس مرض سے بچا جا سکتا ہے، ماحول کو بہتر بنانے کے لیے شجر کاری پر خصوصی، سبزیوں اور فروٹ کا استعمال زیادہ کیا جائے۔ ڈاکٹر محمد علی میمن نے کہا کہ ہیپا ٹائیٹس کے مریض کو آگے چل کر 25 فیصد کینسر کا خطرہ لاحق ہوتا ہے۔ پیٹ اسکن ہر مریض کے لیے ضروری نہیں، یہ مہنگا ٹیسٹ ہے، سندھ کے سرکاری اسپتالوں میں کینسر کا علاج ہورہا ہے، جناح اسپتال،کرن اسپتال SIUT کراچی، نمرا جامشورو کے علاوہ لاڑکانہ اور نواب شاہ میں کینسر کے مریضوں کا علاج ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مین پوری گٹکا اور تمباکو نوشی پر کنٹرول کرکے 20 سے 30 فیصد تک کینسر پر قابو پایا جاسکتا ہے، اس ضمن میں اداروں کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے جو ادارے یا افسران مین پوری گٹکا کے دھندہ میں ملوث ہیں، ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔