صنعتی اعتبار سے انتہائی ترقی یافتہ جاپان پاکستان جیسی ترقی پذیر معیشتوں کے لیے شاندار رول ماڈل ہے۔ جاپان کی صنعتی ترقی کے پس پشت جو قوت محرکہ کام کررہی ہے وہ جاپان کا تعلیمی نظام ہے جس سے استفادہ پاکستان کے لیے بہت مفید ہوگا لہٰذا جاپانی تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان کو معاشی خود مختاری کے لیے سماجی و اقتصادی اشاریے تیار کرنے اور تعلیم کے شعبے کو ترجیح دینے کی ضرورت ہے جس سے ہنر مند اور تعلیم یافتہ افرادی قوت پیدا ہوگی جو پاکستان میں صنعت کے فروغ کے لیے معاون اور مددگار ثابت ہو گی۔
پاکستان کو تکنیکی شعبوں میں مدد فراہم کرنے کے لیے بھی جاپان نے جامع منصوبہ بندی کے تحت کئی پروگرام شروع کیے ہیں۔ جاپان نے پاکستان سے آئی ٹی پروفیشنلز کی خدمات حاصل کرنے میں گہری دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔ پاکستان میں جاپان کے سفیر اور حکومت پاکستان کی وزارت کے درمیان 26 اپریل 2022 کو ایک ملاقات میں آئی ٹی کے شعبے میں تعاون کے امکانات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
جاپان کی جانب سے جے ڈی ایس (ہیومن ریسورس ڈویلپمنٹ اسکالر شپ بذریعہ جاپانی گرانٹ ایڈ) اسکالر شپ پروگرام میں پاکستان کی شمولیت ایک اور مثبت پیش رفت ہے۔ اسکالر شپ پروگرام سے 20 پاکستانی طلبہ جاپانی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کر سکیں گے۔ پاکستان اور جاپان کے درمیان ٹیکنیکل انٹرن ٹریننگ پروگرام (TITP) اور اسپیشل اسکلڈ ورکرز (SSW) پروگرام پر تعاون کی یادداشت پر فروری 2019 میں دستخط بھی ہوچکے ہیں جس سے پاکستانی کارکنوں کے لیے جاپانی مارکیٹ کھلنے کے علاوہ پاکستان کے لیے ایسا انتظام بھی وضع ہوگا جس سے انسانی وسائل کو ترقی ملے گی اور یہ معاشی ترقی میں بھی معاون ثابت ہوگا۔
پاکستان کی وزارت اقتصادی امور اور سندھ اسکول ایجوکیشن اینڈ لٹریسی ڈپارٹمنٹ اور جائیکا کے تعاون سے ایک ایسے پروجیکٹ پر بھی کام کیا جارہا ہے جس سے تقریباً 22.8 ملین ایسے بچوں کو تعلیم دی جائے گی جو اسکول نہیں جاتے۔ تعاون کے ان منصوبوں کو جتنا سراہا جائے کم ہے جن کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات بہت سے اختلافات کے باوجود دیرپا بنیادوں پر قائم ہیں۔
پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے جاپان مطمئن نہیں تھا اور نہ ہی پاکستان کے اس نقطہ نظر سے اتفاق کرتا تھا کہ خطے میں طاقت کے توازن کے لیے پاکستان کا ایٹمی پروگرام امن کی ضمانت ہے، چنانچہ جاپان نے اپنی امدادی پالیسی کو پاکستان کے جوہری پروگرام کی بندش سے مشروط کردیا تھا اور پاکستان کے لیے اپنے قرضہ پیکیج کو اس وقت تک موخر کر دیا جب تک کہ نیوکلیئر پھیلاؤ کے معاہدے (NPT) پر دو طرفہ بات چیت نہ ہو جائے۔ مبصرین کی رائے کے مطابق جاپان نے افغانستان سے سوویت افواج کے انخلا کے بعد ایٹمی معاملے پر امریکی خطوط پر عمل کیا۔
(مزید برآں دونوں ممالک کے درمیان سرد مہری کا ایک اور سبب لاہور اور اسلام آباد کے درمیان موٹروے منصوبہ بھی بنا کیونکہ یہ منصوبہ 1991 میں جنوبی کوریا کی ایک ملٹی نیشنل کمپنی ڈائیوو کو دیا گیا تھا جبکہ جاپان اس منصوبے کے حوالے سے بہت زیادہ پر امید تھا۔)
جاپان کی خواہش تھی کہ پاکستان اور بھارت دونوں ایٹمی معاہدے پر دستخط کریں۔ بھارت نے ایٹمی دھماکے کرنے میں پہل کی جس سے خطے میں طاقت کا توازن متاثر ہوا لہٰذا فوری طور پر پاکستان کا رد عمل سامنے آیا اور 28 مئی 1998 کو پاکستان نے تین ایٹمی دھماکے کیے جن کے بعد جاپان نے پاکستان پر اقتصادی پابندیاں عائد کر دیں۔ پاکستان یا دنیا کے کسی بھی ملک کی جانب سے ایٹمی دھماکوں اور جوہری پروگرام کے حوالے سے جاپان کے اپنے تحفظات تھے بحیثیت ایک ایسے ملک کے جس نے ایٹمی حملے کے انتہائی خوفناک نتائج دیکھے تھے اس معاملے میں جاپان کی حساسیت انتہائی حد تک تھی جبکہ پاکستان کے زمینی حقائق اس حوالے سے مختلف تھے۔ پاکستان کے پڑوس میں موجود بھارت کے ساتھ روایتی تنازعات اور ماضی کی جنگوں کے باعث پاکستان یہ سمجھتا تھا کہ ایٹمی ڈیٹرنس اور خطے میں طاقت کا توازن اس کی سلامتی کے لیے ناگزیر ہے۔ خصوصاً بھارت کی جانب سے ایٹمی دھماکوں کے بعد تو یہ صورتحال مزید ابتر ہوچکی تھی۔