دنیا نے تاراجی کے ایسے عبرت خیز مناظر پہلے بھی دیکھے ہیں جن کے سامنے بنگلا دیش کے واقعات ممکن ہے زیادہ بڑی حیثیت نہ رکھتے ہوں۔ یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ انگریزی محاورے کے مطابق بنگلا دیش میں ’’مستقبل اب آن پہنچا ہے۔ The future has just arrived‘‘۔ بنگلا دیش میں فی الوقت بظاہر ترازو کے ایک پلڑے کے جھکنے سے دوسرا پلڑا اُٹھ گیا ہے۔ مظالم کے بوجھ سے سرمایہ داریت کا پلڑا جھک گیا تھا اور غریب اور محنت کش عوام کا پلڑا اُٹھ گیا تھا۔ غریب اور مظلوم طبقات کے اُٹھے ہوئے پلڑے میں جب کوٹا سسٹم اور اس طرح کے دوسرے مظالم ڈالے گئے تو وہ فرق سامنے آگئے جو بہت گہرے تھے جن کی وجہ سے اُٹھا ہوا پلڑا جھک گیا۔
بنگلا دیش میں طلبہ کی اموات اور جدوجہد اس وقت نتیجہ خیز ثابت ہوئیں جب حسینہ واجد کو بھاگنے کے لیے محض 45 منٹس دیے گئے۔ کئی دن کے کرفیو، انٹر نیٹ کی بندش اور طلبہ پر چلائی جانے والی گولیاں اور لاٹھیاں بھی ان کے پندرہ سالہ مسلسل اور بیس سالہ کل اقتدار کی ڈوبتی نائو کو نہ بچا سکیں۔ ایک اندازے کے مطابق ایک ہزار افراد کا خون ان کے دامن پر ہے۔
احتجاج نوکریوں میں کوٹا سسٹم کے خلاف شروع ہوا تھا۔ بنگلا دیش میں سرکاری نوکری کو اچھی تنخواہ کی وجہ سے کافی اہمیت دی جاتی ہے تاہم کل نوکریوں کی تقریباً نصف نوکریاں، جن کی تعداد لاکھوں میں ہے، کوٹا سسٹم کی وجہ سے مخصوص گروہوں کے لیے مختص ہو گئیں۔ حسینہ واجد نے نوکریوں میں 30 فی صد کوٹا ان خاندانوں کے لیے مختص کررکھا تھا جنہوں نے 1971 کی جنگ آزادی میں حصہ لیا تھا۔ ایک مرتبہ ختم کردہ اس کوٹے کو انہوں نے عدالت سے پھر بحال کروادیا تھا۔ عوام کی بڑی اکثریت کا کہنا تھاکہ اکہتر کی جنگ آزادی میں تو پوری قوم نے حصہ لیا تھا پھر چند گروہوں کو نوازنا کیا معنی رکھتا ہے جب کہ اس واقعے میں حصہ لینے والے تو اب نوکریوں کی عمرسے بھی گزر چکے ہیں۔
اس اتنے بڑے کوٹے کو حسینہ واجد اپنی جماعت کے لوگوں اور حامیوں کو نوازنے اور کرپشن اور قوت میں اضافے کے لیے استعمال کرتی تھیں۔ کوٹا سسٹم کے ذریعے اپنے حامیوں کو بڑی تعداد میں تمام اداروں میں پلانٹ کرکے وہ اپنی سول ڈکٹیٹر شپ کی عمر دراز سے درازتر کرنا چاہتی تھیں۔ جس کا ایک بڑا فائدہ اس سال جنوری کے الیکشن کے نتائج میں اپنی چوتھی ٹرم میں کامیابی کی صورت میں حاصل ہوا جب ان کے فسطائی ہتھکنڈوں کے سامنے اپوزیشن جماعت بنگلا دیشن نیشنل پارٹی کو الیکشن کا بائیکاٹ کرنا پڑا تھا کیونکہ حکومت کے مقرر کردہ جانبدار الیکشن کمیشن کی موجودگی میں ان کی کامیابی کا کوئی امکان نہیں تھا۔
طلبہ کا حالیہ احتجاج تقریباً دوماہ پہلے شروع ہوا تھا جس نے جولائی کے اواخر اور اگست کے پہلے ہفتہ میں شدت اختیار کرلی۔ آخری دو دنوں میں یہ اس انتہا پر تھا کہ اگر 45 منٹس کے اندر اندر حسینہ واجد بھارت فرار نہ ہوجاتیں تو آج وہ ایک بے روح وجود کے طور پر ذکر کی جاتیں اپنے والد کی طرح۔ غصے سے بھرے اور سخت نفرت سے کھولتے ہوئے ایک لاکھ طلبہ کو روکنا فوج کے لیے بھی ممکن نہیں تھا جس نے رکاوٹیں ہٹانا شروع کردی تھیں۔
سرمایہ دارانہ نظام اور کوٹا سسٹم کے شعلوں کو بھارت سے قریبی تعلقات کی فضائے بسیط نے مزید بھڑکا دیا۔ بنگلا دیش میں ایک بہت بڑا طبقہ ایسا تھا جو پا کستان سے علٰیحدگی کے تو حق میں تھا لیکن بھارت سے چاہتوں اور قربتوں کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتا تھا۔ وہ اپنی سرحدوں کے اطراف بھارتی برتری کو تشویشناک سمجھتا تھا اور بنگلا دیش کے معاملات میں بھارتی مداخلت اور سرپرستی کو فیصلہ کن طور پر مسترد کرتا تھا۔ بنگلا دیش کے قیام کی گولڈن جوبلی کے موقع پر 2021 میں جب بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو حسینہ واجد کی خصوصی دعوت پر بنگلا دیش مدعو کیا گیا تھا اس وقت بھی ملک گیر ہڑتال کا اعلان کیا گیا تھا۔ چٹا کانگ اور ڈھاکا میں بڑے مظاہرے دیکھنے میں آئے تھے جن میں پانچ افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس موقع پر نریندر مودی نے ڈنکے کی چوٹ پر کہا تھا ’’بنگلا دیش کو آزادی ہم نے دلوائی ہے‘‘۔ حسینہ واجد نے بھی تسلیم کیا تھا کہ ان کے والد نے بھارت کے ساتھ مل کر پاکستان کو توڑنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ اس اعتراف جرم کے بعد شیخ مجیب الرحمن کے پاکستان سے وفاداری کے تمام مفروضہ بیانیے جامد ڈھیر بن گئے۔ بنگلا دیش میں بھارت سے نفرت اتنی شدید ہے کہ عبوری حکومت کے سربراہ ڈاکٹر محمد یونس کو اپنے پہلے خطاب میں بھارت کو مشورہ دینا پڑا کہ وہ پراگندگی کے شکار بنگالیوں کے ساتھ اپنے تعلقات پر نظر ثانی کرے اور اپنی خارجہ پالیسی کا ازسر نو جائزہ لے۔ حسینہ واجد نے جب پاک فوج کے 195 افسروں پر غداری کے الزام میں مقدمہ چلایا اس کا مقصد بھی بھارت کی خوشنودی تھا۔
بنگلا دیش میں جس طرح ’’آمی کہ تمی کہ رجا کار رجاکار‘‘ کے نعرے گونجے یعنی ’’ہم کون تم کون رضا کار رضاکار‘‘ اس نے کوٹا سسٹم کے خلاف شروع کی جانے والی جدوجہد کو ایک نظریاتی منزل سے بہرہ ورکردیا۔ وہ نظریاتی منزل جسے بنگلا دیش کے قیام کے ہنگاموں میں فراموش کردیا گیا تھا۔ اندراگاندھی نے جسے خلیج بنگال میں ڈبو دینے کا دعویٰ کیا تھا۔ بنگلا دیش میں رضار کی اصطلاح بطور گالی اور طعنہ ان محب وطن لوگوں کے لیے پکاری جاتی تھی جنہوں نے اکہتر کی جنگ میں پاکستان کی سلامتی اور یکجہتی کی خاطر پاکستانی فورسز کا ساتھ دیا تھا۔ امت مسلمہ کی یکجہتی کا فلسفہ کہاں کہاں اور کن کن صورتوں میں اپنی وسعتوں اور تاریخ کی صوریات میں گونجتا ہے دنیا دیکھ لے۔
جماعت اسلامی سب سے زیادہ حسینہ کے ریاستی جبر کا شکار ہوئی تھی۔ جماعت اسلامی کے رہنمائوں کی ایک کہکشاں ہے جسے مکتی باہنی سے لڑنے اور پاکستان سے وفاداری کے جرم میں انتہائی سنگدلی سے شہید کردیا گیا۔ عبدالقادر ملا، محمد قمرالزمان، مطیع الرحمن نظامی اور علی احسن محمد مجاہد اور نہ جانے کون کون۔ جماعت اسلامی کے رہنمائوں اور کارکنوں سے یہ وحشیانہ سلوک آبادی کے ایک بڑے فعال حصے کو مستقل دشمن بنانے کے مترادف تھا۔ آج کی جماعت اسلامی کسی بھی غیر قانونی سرگرمی میں ملوث نہیں۔ وہ بنگلا دیش کی وفادار ہے اور اسے امت مسلمہ کی ایک اکائی تصور کرتی ہے۔
بنگلا دیش میں دفاع پر غیر معمولی اخراجات نہیں کیے جاتے۔ بنگلا دیش کی فوج ’’عوامی بہبود‘‘ میں سیاسی اور ملکی معاملات میں مداخلت کرنے کے تصور سے تقریباً نا آشنا ہے۔ ملک کے اندر شدت پسندی کا رحجان بھی کم اور بہت ہی کم ہے۔ فرقہ وارانہ فسادات بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔ دہشت گردی کے واقعات بھی عنقا ہیں۔ جو لوگ بنگلا دیش کے واقعات کا پاکستان سے موازنہ کررہے ہیں اور پاکستان میں بھی ایسا ہونے کے امکانات دیکھ رہے ہیں بظاہر تو پاکستان میں ایسی انارکی نظر نہیں آرہی۔ بنگلا دیش اور پاکستان کی سیاسی اور سماجی حرکیات میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
یہ درست ہے موجودہ جدوجہد کوٹا سسٹم کے خلاف شروع کی گئی ہے۔ یہ خالصتاً طلبہ کی تحریک ہے۔ بنگلا دیش کی موجودہ قیادت امن واستحکام کی کوششوں میں مصروف ہے۔ نوبل انعام یافتہ محمد یونس کے لیے دعا ہی کی جاسکتی ہے کہ اس عاشقی میں عزت سادات باقی رہے۔ مستقبل کے بنگلا دیش کی صورت گری کے لیے مختلف مطالبات سامنے آرہے ہیں۔ بہتر ہے الگ الگ مطالبات کے بجائے اسلام کے نفاذ کا مطالبہ کیا جائے۔ اور اسی کے لیے کوشش کی جائے۔ بنگلا دیش کا اکثریتی طبقہ شدت سے اسلامی نظام کے نفاذ کا حامی ہے۔ جماعت اسلامی، اسلامی فرنٹ اور بنگلا دیش نیشنل پارٹی کی بیگم خالدہ ضیا بھی اسی فکر اور نظریہ کی علمبردار ہیں۔