پاک جاپان سفارتی تعلقات تاریخی تناظر میں

417

(3)

چین کے حوالے سے پاکستان اور جاپان کے درمیان نقطہ ٔ نظر میں فرق کے باوجود پاکستان مسلسل جاپان کے آفیشل ڈویلپمنٹ اسسٹنس پروگرام (ODA) میں سرفہرست رہا اور 1961 سے 1971 کے دوران تقسیم کی گئی امداد کا تقریباً 18 فی صد پاکستان نے حاصل کیا۔ لیکن 1971 میں دونوں ممالک کے درمیان خلیج اس وقت گہری ہوئی جب جاپان نے مشرقی پاکستان کے بحران میں بنگالی قوم پرستی کی حمایت کی۔ یہاں یہ بات تاریخ کا حصہ ہے کہ جاپان نے قوم پرستی کی بنیاد پر ویتنام کی خود ارادیت کی حمایت نہیں کی تھی۔ پاکستان میں اس صورتحال کا ’’تنازع کشمیر‘‘ کے تناظر میں اس طرح جائزہ لیا گیا کہ ایک جانب تو جاپان نے مشرقی پاکستان کے معاملے پر مکمل غیر جانبداری نہیں اپنائی لیکن دوسری جانب جاپانی سیاسی جماعتوں اور سماجی گروپوں نے بنگلا دیش کے قیام کے مقصد کی مکمل حمایت کی۔ دوران جنگ جاپان نے نا صرف ڈھاکہ میں اپنا قونصل خانہ بند کر دیا بلکہ پاکستان کی امداد بھی بند کر دی۔ بنگلا دیش کی پاکستان سے علٰیحدگی کے دوماہ کے اندر جاپان نے 10 فروری 1972 کو بنگلا دیش کو تسلیم کر لیا، اور یوں دونوں ممالک کے تعلقات میں کڑواہٹ کا ذائقہ غالب آگیا۔

تعلقات میں مدو جزر کا مزید محرک 1970 کی دہائی میں اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کا مغرب مخالف موقف اور صنعتیں قومیانے کی پالیسی بھی بنی جس کے نتیجے میں پاکستان جاپان سفارتی تعلقات مزید۔ سرد مہری کا شکار ہوئے اور جس کے نتیجے میں جاپانی تاجروں کی پاکستان کی جانب دلچسپی کم ہوئی۔ اس دوران کوئی اعلیٰ سطحی تبادلہ نہیں ہوا لیکن ان تمام واقعات اور پاکستان کے خارجہ تعلقات میں تزویراتی تبدیلیوں کے باوجود جاپان پاکستان کی تجارت کا اہم مرکز رہا۔ 1970 کی دہائی میں دونوں ممالک کے تعلقات میں ایک اہم موڑ اس وقت آیا جب چین اور جاپان کے تعلقات معمول پر آنے لگے۔ ان تعلقات سے جاپان اور پاکستان تعلقات کے حوالے سے بھی ایک مثبت فضا پیدا ہوئی۔ ان تعلقات کو مزید فروغ اس وقت ملا جب 1979 میں افغانستان پر سوویت یونین نے قبضہ کرلیا جس کے بعد دونوں ممالک نے دوبارہ اعلیٰ سطحی وفود کے تبادلے کیے۔

ان تعلقات میں فروغ کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ افغانستان میں سوویت افواج کی موجودگی میں جاپان کو ریجن میں سوویت یونین کی صورت میں ایک مشترکہ خطرہ نظر آرہا تھا۔ جاپان یہ سمجھتا تھا کہ اگر سوویت یونین کے بحیرہ عرب میں گرم پانی کی بندرگاہوں پر آگیا تو خلیج فارس سے گزرنے والی اس آبی گزرگاہ کو اہم خطرات لاحق ہوسکتے ہیں جو جاپان کے لیے تیل اور توانائی کی ترسیل کرتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ جاپان نے پاکستان کی بطور فرنٹ لائن اسٹیٹ مکمل سفارتی اور سیاسی حمایت کی۔

تعلقات کے اس نئے دور میں سفارتی ضروریات تبدیل ہو چکی تھیں۔ دونوں ممالک کے لیے روسی یلغار کو ایک مشترکہ خطرے کے طور پر لیا گیا اور یوں پاکستان کو روسی توسیع پسندی کے خلاف ایک فرنٹ لائن اسٹیٹ کے طور پر بہت زیادہ اہمیت حاصل ہوگئی۔ ایک مشترکہ حریف کے حوالے سے مشترکہ حکمت عملی اور تزویراتی مقاصد کے حصول کے لیے بین الاقوامی برادری بشمول جاپان نے پاکستان کو خصوصی اہمیت دینا شروع کردی۔ تعلقات کے اس نئے دور میں اس وقت کے صدر جنرل محمد ضیاء الحق نے 17 سے 22 جولائی 1983 کو جاپان کا دورہ کیا جس کے جواب میں جاپانی وزیر اعظم یاسو ہیرو ناکاسونے نے 30 اپریل سے 3 مئی 1984 کے دوران پاکستان کا دورہ کیا، یہ دورہ اس حوالے سے بھی خصوصی اہمیت کا حامل تصور کیا گیا کہ 23 برسوں میں کسی جاپانی وزیر کا یہ پہلا دورہ تھا۔ ان کے دورے سے واضح طور پر اس بات کا اشارہ ملتا ہے کہ جاپان نے افغانستان کے حوالے سے پاکستان کی پالیسی کی توثیق کی ہے۔

1989 میں افغانستان سے سوویت یونین کے انخلا کے بعد ایک بار پھر صورتحال تبدیل ہوتی محسوس ہوئی جس کا سبب پاکستان کا ایٹمی پروگرام تھا۔ یہ وہ دور تھا جب پاکستان اپنے معاشی استحکام کے لیے حکمت عملی کے طور پر ’’لِک ایسٹ پالیسی‘‘ اپنانے کی جانب بڑھ رہا تھا۔ (لک ایسٹ بنیادی طور پر مشرق میں واقع معاشی طور پر مستحکم اقوام کی کامیاب پالیسیوں کو بطور ماڈل اختیار کرنے کا تصور تھا) اس پالیسی کا مقصد جاپان، جنوبی کوریا، ملیشیا اور سنگاپور کی معیشتوں کا جائزہ اور ان پر عملدرآمد کے لیے عملی اقدامات کرنا تھا ، تا کہ پاکستانی معیشت کو بہتر بنایا جا سکے۔