بنگلا دیش کا انتشار

384

بنگلا دیش کے عوام جو کچھ چاہتے تھے وہ ہوچکا ہے۔ شیخ حسینہ کی حکومت گئی، وہ ملک میں بھی نہ رہ سکیں۔ اب بنگلا دیش عوامی لیگ کے پنجوں سے نکل چکا ہے مگر اِس کے باوجود انتشار ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ ملک بھر میں بے یقینی اور عدم استحکام کی فضا برقرار ہے۔ امن ِ عامہ کے مسائل بڑھتے جارہے ہیں۔

شیخ حسینہ کی حکومت کے ختم ہونے کے بعد سے تاحال ملک بھر میں پولیس اہلکار ڈیوٹی پر واپس آنے سے انکاری ہیں۔ 4 اگست کو سراج گنج کے عنایت پور پولیس اسٹیشن میں مشتعل ہجوم نے 13 پولیس اہلکاروں کو مار ڈالا تھا۔ تب سے اب تک اعلیٰ حکام کی طرف سے بار بار ہدایت کے باوجود پولیس نے ڈیوٹی نہیں سنبھالی۔ وہ اپنی سلامتی کی ضمانت چاہتی ہے۔

دنیا بھر کے میڈیا میں یہ رپورٹس شائع ہو رہی ہیں کہ بنگلا دیش شاید ایک بار پھر شدید سیاسی بے یقینی اور عدم استحکام کی طرف لُڑھک رہا ہے۔ اس کے نتیجے میں معیشت کا بھی تیاپانچا ہو جائے گا۔ بھارتی میڈیا آؤٹ لیٹ اس حوالے سے آگ لگانے میں پیش پیش ہیں۔ ایسی رپورٹس شائع کی جارہی ہیں جن سے تاثر مل رہا ہے کہ طلبہ تحریک شاید اس لیے چلائی گئی تھی کہ بنگلا دیش کے ہندوؤں کو نشانہ بنایا جائے!

بنگلا دیش کے چیف ایڈوائزر (عبوری وزیر ِاعظم) ڈاکٹر محمد یونس عالمی شہرت یافتہ ماہر ِ معاشیات ہیں۔ وہ دانشور ہیں، بہت کچھ سمجھتے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ قوم بھی کچھ سمجھنا چاہتی ہے یا نہیں۔ بنگلا دیش کے طول و عرض میں انتشار اور نراجیت کی کیفیت نمایاں ہے۔ سسٹم سہما ہوا ہے اور ایک کونے میں دُبکا ہوا ہے۔ ملک کے بہت سے حصوں میں اب تک بے لگام ٹولے من مانی کر رہے ہیں۔ اس کیفیت کو پروان چڑھانے میں بھارت کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ کہیں کہیں ہندوؤں کو نشانہ بنائے جانے پر بھارتی میڈیا نے منظم انداز سے واویلا کیا ہے۔ یہ تاثر بھرپور توجہ سے پروان چڑھایا جارہا ہے کہ پورے بنگلا دیش میں ہندو انتہائی عدمِ تحفظ کا شکار ہیں، اُن کے لیے کسی بھی سطح پر سیکورٹی کا اہتمام نہیں کیا جارہا اور وہ ملک سے نکلنے کا سوچ رہے ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایک رہنما نے تو یہ کہتے ہوئے مزید آگ لگانے کی کوشش کی ہے کہ بنگلا دیش کے ایک کروڑ ہندو بھارت منتقل ہونا چاہتے ہیں۔

سازش کے تحت بنگلا دیش کے ہندوؤں کا معاملہ امریکا اور یورپ میں بھی اٹھایا جارہا ہے۔ پہلے کینیڈا میں احتجاج کیا گیا اور اب امریکا میں بھی یہ معاملہ اچھالا جارہا ہے۔ ری پبلکن پارٹی کی طرف سے صدارتی امیدوار بننے کے خواہش وویک راماسوامی نے کہا ہے کہ بنگلا دیش میں ہندوؤں کو نشانہ بنایا جارہا ہے مگر عالمی برادری خاموش ہے۔ وویک راماسوامی کو شاید معلوم نہیں کہ بنگلا دیش میں ہندوؤں پر حملوں کی مذمت اقوامِ متحدہ نے بھی کی ہے جبکہ برطانیہ میں مسلمانوں اور مساجد پر سفید فام انتہا پسندوں کے حملوں کے حوالے سے عالمی ادارے کو دو لفظ بولنے کی توفیق نصیب نہ ہوئی۔

بنگلا دیش نے خاصی طویل جدوجہد کے بعد جمہوریت پائی۔ معیشتی استحکام بھی طویل دورانیے کی پس ماندگی کے بعد نصب ہوا۔ یہ سب کچھ داؤ پر لگتا دکھائی دے رہا ہے۔ بھارت اپنا کام شروع کرچکا ہے۔ وہ بنگلا دیش میں زیادہ سے زیادہ عدم استحکام پیدا کرنے کے درپے ہے۔ بنگلا دیش کے طول و عرض میں پائی جانے والی نراجیت کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارتی قیادت میڈیا کی پروپیگنڈا مشینری کے ذریعے یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہی ہے کہ بنگلا دیش میں ایک ایسی حکومت قائم ہونے والی ہے جو بھارت مخالف ہوگی اور پورے خطے کو شدید عدم استحکام کی طرف دھکیل دے گی۔ ابھی سے پروپیگنڈا کیا جارہا ہے کہ بنگلا دیش میں اسلامی شریعت نافذ کرنے کی بھرپور کوشش کی جارہی ہے۔ اس معاملے میں جماعت ِ اسلامی کو مطعون کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا جارہا۔ سوال یہ ہے کہ بنگلا دیشی معاشرہ جماعت ِ اسلامی کو پارلیمنٹ میں کتنی نشستیں دیتا ہے۔ کیا جماعت ِ اسلامی کی پارلیمانی قوت اِتنی ہے کہ تنِ تنہا بنگلا دیش میں شریعت نافذ کرسکے؟ بھارتی میڈیا کا یہ راگ فرسودہ ہوچکا ہے۔ اب کوئی نیا راگ لانا چاہیے۔

ڈاکٹر محمد یونس کے کاندھوں پر بھاری ذمے داری آ پڑی ہے۔ اُن کا سیاسی پس منظر نہیں۔ ایسے میں اُن سے سیاسی بندوبست کے حوالے سے کچھ زیادہ امیدیں وابستہ نہیں کی جاسکتیں۔ ہاں وہ ماہر ِ معاشیات ہیں تو اُن کی توجہ معاشی امور کی بہتری پر زیادہ اور ضرور ہونی چاہیے۔

عالمی اداروں کو بنگلا دیش کے حالات کے مطابق قرضوں کی ری شیڈولنگ کرنا ہوگی۔ بنگلا دیش کم و بیش دو ماہ سے ساکت و جامد ہے۔ صنعتی اور تجارتی عمل رُکا رُکا سا ہے۔ ملک کے بہت سے حصوں میں منظم ٹولوں نے لُوٹ مار کی ہے۔ سیاسی بے چینی اور عدم استحکام کا فائدہ اٹھاتے ہوئے شر پسند اپنا کام کرگئے ہیں۔ عبوری انتظامیہ کو بہت کچھ سیدھا کرنا ہے۔ شیخ حسینہ کی معزولی معاملات کو درست کرنے کے عمل کا صرف ایک مرحلہ تھی۔ اِس پڑاؤ پر رُک نہیں جانا۔ یہاں سے آگے جانا ہے اور پوری توجہ کے ساتھ آگے جانا ہے۔

اقوامِ متحدہ نے بنگلا دیش میں قتل ِ عام کی تحقیقات کے لیے ٹیم بھیجنے کا اعلان کیا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ شیخ حسینہ اور اُن کے ساتھیوں کے خلاف قتل ِ عام کے مقدمے کی کارروائی بھی شروع ہوچکی ہے۔ بنگلا دیش میں سیاسی اور سفارتی سطح پر بہت کچھ الٹ پلٹ رہا ہے۔ ایسے میں عبوری انتظامیہ کو بہت سوچ سمجھ کر کام کرنا ہوگا تاکہ حقیقی شفاف اور غیر جانب دارانہ انتخابات کی راہ جلد از جلد ہموار ہو۔

(ڈھاکا ٹربیون، دی گارجین کے مضامین سے)