’’البدر الشمس کی یادیں؟

591

بنگلا دیش کی حقیقی آزادی 5 اگست 2024ء کو اس نعرے سے ہوئی کہ ’’امی کہ تمی کہ، رجاکار رجاکار‘‘ (ہم کون تم کون رضاکار رضاکار) سوال یہ ہے کہ رضاکار کون تھے، کہاں پلے بڑھے اور کیوں کر مکتی باہنی نے اذیت دے دے کر شہید کر دیا، ان کا جرم اگر کوئی تھا تو وہ پاکستان سے محبت تھا، جی یہ وہی بہادر نڈر پاکستانی تھے۔ البدر الشمس کے نام پر طَعنَہ کسنے والے طلبہ تحریک کے لیے یہی نعرہ بنگلا دیش کے عوام کا مقبول ترین نعرہ بن گیا ہے‘‘۔

یہ سب بیان کرنا اتنا آسان کہاں ہے اس کو سمجھنے کے لیے 1971 سے بھی پہلے کا سفر کرنا پڑے گا۔ البدر اور الشمس بنگلادیش کی لازوال کہانی میں محنت، ہمت، جرأت، خدمت اور شہادت کی ایسی داستان پوشیدہ تھی جس کے ہر ہر موڑ پر تحیر، دکھ اور امید کی آمیزش نمایاں نظر آتی تھی۔ بظاہر یہ کہانی سناتے ہوئے شیخ حسینہ کے خلاف تحریک چلانے والوں کو ایسا محسوس ہوتا تھا کہ البدر الشمس کے ساتھی ان کے ساتھ ساتھ تھے مگر ایسا لگتا تھا کہ البدر الشمس کے مجاہدین زمان ومکاں سے آزاد ان لمحوں میں، ان جگہوں پر جی رہیں جس کے بارے میں اللہ کے ارشاد کا مفہوم ہے کہ ’’اللہ کی راہ شہید ہونے والوں کو مردہ نہ کہو‘‘۔

یہ ارشاد اللہ کا ہے اس لیے یقین فرض ہے لیکن بنگلادیش میں 53 سال بعد دنیا کے کروڑوں انسانوں نے البدر الشمس کی صورت میں جام ِ شہادت نوش کرنے کے لیے طلبہ و طالبات کو بے قرار دیکھا اور ان کا یہی نعرہ تھا ہم البدر الشمس کے رضاکار ہیں۔ تاریخ کی ستم ظریفی یہ ہے کہ البدر الشمس جیسے عام فوجی جو جنگ کے اصل ہیرو ہوتے ہیں یا شکست کی صورت میں قیدی بنا کر اذیت سے شہید کیے جاتے ہیں، ان کے کردار کو تاریخ کا حصہ نہیں بنایا جاتا۔ البدر الشمس کی یہ ادھوری تاریخ تھی جو بنگلادیش میں دوبارہ لکھی جا رہی ہے۔ آج 53 سال بعد البدر الشمس کے لیے ’’امی کہ تمی کہ، رجاکار رجاکار‘‘ نعرہ لگانے والوں کو بھی شہید کر دیاگیا ہے اور اب تک ان طلبہ و طالبات کا کوئی سراغ نہیں مل رہا ہے امید تو یہی ہے کہ اللہ ان کو اپنے امان میں رکھے گا اور خیریت اپنے گھر پہنچ جائیں لیکن ان تازہ شہیدوں کے خون سے بنگلا دیش کو حقیقی آزادی مل سکے گی اور بھارت کے لیے تباہی کا سامان ثابت ہوگا۔

یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ مکتی باہنی ہو یا البدر، یہ دونوں بنگالی بولنے والے تھے۔ ایک ہی ملک کے گلی محلوں میں اور بعض اوقات ایک ہی گھر میں بھائی کی حیثیت سے بڑے ہوئے تھے اور دونوں ہی مشرق پاکستان میں ان لوگوں کی اولاد تھے جنہوں نے 23 سال قبل پاکستان کے قیام کی جدوجہد میں غیر معمولی حصہ ڈالا۔ حالات نے انہیں ایک دوسرے کے مقابل کھڑا کر دیا تھا۔ فرق صرف اتنا تھا کہ ایک گروہ پر پاکستان کا عشق اور دوسرے پر نام نہاد آزادی اور اپنے حقوق حاصل کرنے کا بھوت بھارت اور شیخ مجیب نے سوار کر دیا تھا۔ مکتی باہنی کو بھارت کی بھرپور پشت پناہی حاصل تھی تو دوسرے پر پاکستانی فوج کی سرپرستی حاصل ہونے کا الزام تھا لیکن ’’البدر الشمس‘‘ کے لوگوں نے اس وقت بھی یہی کہا تھا وہ پاکستانی فوج کے لیے نہیں بھارتی سازش کے خلاف ہتھیار اٹھانے پر مجبور ہوئے ہیں اس لیے کہ بھارت بنگال پر قبضہ کرنے مکتی باہنی اور عوامی لیگ کو ڈھال کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔ یہ بنگالیوں خلاف سازش ہے۔ مگر تاریخ کی ستم ظریفی یہ ہے کہ پہلی فتح جھوٹ اور آخری فتح سچ کی ہوتی ہے۔ اسی لیے آج سے 53 سال قبل مکتی باہنی کو ہیرو کا درجہ دیا جاتا رہا ہے لیکن اب یہ حقیقت کھل کر سامنے آگئی ہے کہ یہ بنگلادیشیوں کے بدترین ولن تھے اور البدر الشمس کے کارکنان پاکستان و بنگلادیش کے حقیقی ’’ہیرو‘‘ تھے اور ہیں۔

البدر الشمس کے کارکنان کا یہ موقف تھا کہ یکم مارچ 1971 کو یحییٰ خان نے اسمبلی کا اجلاس ملتوی کیا تو وہ کالج کے دوسرے طلبہ کے ساتھ اس فیصلے کے خلاف مظاہرے میں شامل تھے لیکن ’جب مارچ کے آخر میں اندرا گاندھی نے علٰیحدگی پسندوں کی حمایت کا اعلان کیا تو ہم خاموش تماشائی نہیں رہ سکتے تھے‘۔ یہ ہمارے وطن پاکستان کی سالمیت کا مسئلہ تھا جسے ہم نے بہت قربانیاں دے کر حاصل کیا تھا اور دنیا کا کوئی قانون وطن کے دفاع کو جرم قرار نہیں دیتا اور نہ ہی کسی شہری سے وطن کے دفاع کا حق چھینا جا سکتا ہے۔ انہیں مشرقی پاکستان کے عوام کے ساتھ روا رکھی جانے والی معاشی اور سیاسی تفریق کا پورا احساس تھا لیکن وہ اس نظریے کے حامی تھے کہ پاکستان کا ٹوٹنا سیاسی بحران کا حل نہیں بنگالیوں کی بربادی کا سامان ہے۔

البدر الشمس کے بارے میں کرنل صدیق سالک اپنی کتاب ’میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا‘ میں لکھتے ہیں کہ ’البدر اور الشمس کے رضاکاروں نے پاکستان کی سالمیت کے لیے اپنی زندگیاں وقف کر رکھی تھیں۔ وہ ہر وقت پاک فوج کے ہر حکم پر لبیک کہتے تھے۔ انہیں جو کام سونپا جاتا، وہ پوری ایمانداری، اور بعض اوقات جانی قربانی، سے کرتے‘۔ آگے جا کر سالک لکھتے ہیں کہ ’اس تعاون کی پاداش میں رضاکاروں اور ان کے زیر کفالت افراد نے شرپسندوں کے ہاتھوں نقصان اٹھایا‘۔ صدیق سالک یہ بھی لکھتے ہیں کہ ’رضاکار اسلحے اور تربیت کے لحاظ سے مکتی باہنی سے کمزور تھے۔ ان کو بمشکل دو سے چار ہفتوں کی ٹریننگ دی گئی تھی جبکہ مکتی باہنی آٹھ ہفتوں کی بھرپور تربیت حاصل کر چکی تھی۔ رضاکاروں کے پاس 303 کی دقیانوسی رائفلیں تھیں جبکہ مکتی باہنی نسبتاً جدید ساز و سامان سے لیس تھی‘۔

ملک بھر کے عوام نے سوشل میڈیا پر میجر ریاض کا کلپ توسن رکھا ہو گا کہ جس میں وہ البدر الشمس کے کارکنان کا ذکر کرتے ہوئے آنسوں سے رونے لگتے ہیں۔ میجر ریاض کا کہنا ہے کہ ان نوجوانوں نے قلیل اور فرسودہ اسلحے سے مکتی باہنی کے خلاف آپریشنز میں بھی حصہ لیا اور کہیں کہیں بھارتی سرحد میں گھس کر بھارتی فوج کے اہداف کو بھی نقصان پہنچایا۔ اس کے علاوہ مقامی راستوں پر پاک فوج کی رہنمائی کرنا اور مکتی باہنی کی نقل و حرکت سے پاک فوج کو مطلع کرنا بھی ان کے فرائض میں شامل تھا۔ جن کے لیے وہ اپنی جان پر کھیل جاتے تھے۔

البدر الشمس کے کارکنان کہنا یہی تھا اور یہی درست ہے کہ انہوں نے ہتھیار یحییٰ خان یا پاکستانی فوج یا کسی مالی فائدے کے لیے نہیں اٹھائے تھے بلکہ اپنے وطن کی دشمن سے حفاظت کے لیے ایسا کیا تھا۔ پھر بھی جماعت ِ اسلامی کو کوئی غلط کہے تووہ سچ کیسے ہو سکتا ہے۔