ساتھ دو ساتھ دو جماعت کا ساتھ دو

331

اے ابن آدم حکومت نے جماعت اسلامی کے مطالبات کو تسلیم کرکے 45 دن کا وقت مانگا ہے جس پر امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے دھرنے کو موخر کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اگر 45 دنوں میں مطالبات معاہدے کے مطابق پورے نہیں ہوئے تو پھر حکومت ذمے دار ہوگی، اب جو دھرنا ہوگا وہ حکومت ہٹائو ہوگا۔ دوسری طرف بنگلا دیش میں نوجوانوں کے انقلاب کے بعد ڈاکٹر محمد یونس نے عبوری حکومت کی ذمے داری کا حلف اُٹھایا۔ یہ وہ عظیم انسان ہے جس نے بنگلا دیش کے غریبوں کو قرضے دے کر اُن کو کمانے کے قابل بنادیا۔ دوسری طرف ہمارے ملک کے سیاست دان سرمایہ دار، چودھری، سردار، وڈیرے اس غریب ملک کے بینکوں سے اربوں روپے قرض لے کر کھا گئے پھر اُن قرضوں کو معاف کروالیا اگر ہمارے ملک میں انصاف ہوتا تو سب سے پہلے ان سے قرضوں کی رقم واپس لے کر قومی خزانے میں جمع کرائی جاتی مگر مفادات نے ملک کو تباہ کرنے کے علاوہ کچھ نہیں دیا پھر آئی پی پیز نے اس قوم کو تباہ وبرباد کرکے رکھ دیا تو ایک مرد مومن اُٹھا اور حکومت کے خلاف عوام کے حق میں دھرنا دے کر بیٹھ گیا۔ 98 فی صد غریب عوام کے درد تو بے شمار ہیں مگر بجلی کے بل اُن کے لیے کسی موت کے پروانے سے کم نہیں۔ حافظ صاحب نے 10 روپے یونٹ اور 15 روپے یونٹ کا مطالبہ کیا ہے اگر ملک بھر سے نوجوان نکل آتے تو یہ مسئلہ فوری حل ہوجاتا مگر ملک کے کسی سیاست دان یا سیاسی جماعت نے جماعت اسلامی کا ساتھ نہیں دیا۔ میں نے تو دیکھا کہ کچھ لوگ سوشل میڈیا پر دھرنے کے موخر ہونے کے بعد فرما رہے ہیں کہ حکومت نے جماعت اسلامی کو ماموں بنادیا۔ اُن کے لیے جواب یہ ہے کہ جماعت اسلامی ایک امن پسند جماعت ہے، کوئی دہشت گرد جماعت نہیں، یہ واحد جماعت ہے جو عوام کو پریشان نہیں کرتی جو تشدد کے خلاف ہے یہ گولیاں چلا کر کاروبار بند نہیں کرواتے۔ مجھے تو اس بات پر حیرت ہے کہ جن لوگوں کی جنگ جماعت اسلامی لڑ رہی ہے وہ اُس کا ساتھ دینے کے بجائے سوشل میڈیا پر بے ہودہ پوسٹیں لکھ رہے ہیں تم لوگوں کو شرم نہیں آتی کبھی سیاسی وابستگی سے بالاتر ہو کر بھی سوچ لیا کرو۔

اب آپ کو تھوڑا سا ڈاکٹر محمد یونس کے بارے میں بتا دیتا ہوں آپ بنگلا دیش میں موجود گرامین بینک کے بانی ہیں آپ نے 2006ء میں مائیکرو فنانس بینک کے ذریعے لوگوں کو غربت سے نکالنے پر نوبل انعام سے نوازا گیا۔ محمد یونس 1972ء چٹاگانگ یونیورسٹی کے فنانس ڈپارٹمنٹ کے پروفیسر تھے، آپ غریب عوام کو غربت سے نجات دلانا چاہتے تھے۔ آپ نے مائیکرو فنانسنگ قرضوں کا ایک اچھوتا پروجیکٹ پیش کیا جس کا نام گرامین بینک رکھا، اس کا مطلب ہے دیہاتی بینک۔ آپ نے حکومتی سطح سے لے کر ہر بینک اور بینکار سے مدد مانگی مگر سب نے مایوس کیا، مگر آپ نے ہمت نہیں ہاری اور فیصلہ کیا کہ دوستوں کی مدد سے 3 ہزار ٹکہ جمع کرکے 1974ء میں گرامین بینک کی بنیاد رکھی جس کی نہ کوئی عمارت تھی نہ کوئی ملازم۔ بس ایک رجسٹر اور ایک قلم اور 3 ہزار ٹکہ بینک کی کل پراپرٹی تھی۔ محمد یونس نے چٹاگانگ کے ایک قریبی گائوں سے اس کا آغاز کیا۔ 5 خواتین کو ایسے چھوٹے کاروبار کے لیے قرضہ دیا جن کے بارے میں خود خواتین نے فیصلہ کیا کہ وہ کیا بہتر کرسکتی ہیں۔ مثلاً پٹ سن سے کپڑا بنانا، ٹوکری؍ روٹی والے خوب صورت ٹوکرے، مرغبانی، بطخ بانی، انڈوں کا کاروبار، کپڑوں کی سلائی، ڈیزائن والی چٹائی بنانا وغیرہ۔ قرضے پر سود بھی تھا جس نے 100 ٹکہ لیا وہ کاروبار شروع ہوجانے پر 110 ٹکہ واپس کرے گا اور وہ بھی روزانہ کی بنیاد پر کم از کم ایک ٹکہ روزانہ یا جو آسانی سے دے سکے۔ سائیکل پر ایک بینک نمائندہ روانہ خواتین کے گھر جاتا اور نہ صرف ایک ٹکہ لے آتا بلکہ مال بیچنے میں ان کی مدد بھی کرتا۔ قرض پر سود دراصل اسی سائیکل والے بینک نمائندے کی تنخواہ تھی جب اتنی رقم واپس آجاتی کہ اگلے گھر کو قرضہ دیا جاسکے تو چھٹا گھر شامل ہوجاتا۔ اس طرح قرضے کے منتظر گھر بھی خیال رکھتے کہ پہلوں کے کاروبار کامیاب ہوں۔ بروقت قرض واپس ملے تا کہ وہ بھی شامل ہوسکیں۔ قرض کی شرائط بھی انوکھی تھیں، قرض لینے والا بچوں خصوصاً بچیوں کو اسکول بھیجے گا، چھوٹی عمر کے بچوں کی شادی نہیں کرے گا، شادی پر جہیز لینے یا دینے والوں کا قرضہ منسوخ کردیا جائے گا، قرض لینے والا 10 درخت لگائے گا جس میں پھل دار درخت بھی شامل ہوں۔

گھر، رسوئی اور باتھ روم کی صفائی لازم ہوگی۔ ہاتھ دھوئے بغیرکھانا نہیں کھائیں گے، خواتین اپنے ایام خاص کے دوران صفائی کا خاص خیال رکھیں گی، عورت یا بچوں کو مارپیٹ کرنے والے مرد کو قرضہ نہیں ملے گا۔ آہستہ آہستہ محض دو سال کے بعد اس گائوں میں آئی معاشی خوشحالی اس کی شہرت پھیلنے لگی اور پھر مزید چند سال میں گرامین بینک درجنوں دیہاتوں میں پہنچ چکا تھا۔ میڈیا پر چرچے ہونے لگے تو حکومت بھی متوجہ ہوئی۔ 1984ء میں حکومت نے گرامین بینک کو ریگولر بینک کا درجہ دے دیا۔ بین الاقوامی شہرت ملی تو بڑے ادارے دیکھنے پہنچ گئے۔ ورلڈ بینک نے اس ماڈل کو گود لے لیا اور 64 ممالک میں اس ماڈل کو نافذ کرنے کے پلان پر عمل شروع

کردیا۔ اس گرامین بینک سے مستفید خواتین نے بنگلا دیش کی صنعتی ترقی میں اہم ریسورس کا کردار ادا کرتے ہوئے۔ صنعتی انقلاب کی داغ بیل ڈالی۔ آج دنیا کی تقریباً ہر بڑی یونیورسٹی میں گرامین بینک کو بطور کیس اسٹیڈی پڑھایا جاتا ہے۔ 2006ء میں پروفیسر ڈاکٹر محمد یونس مائیکرو فنانسنگ کے ایسا شاندار ماڈل متعارف کرانے پر نوبل انعام سے نوازا گیا۔ آج بنگلا دیش میں گرامین بینک کی 2656 برانچیں ہیں، ڈاکٹر یونس بنگلا دیش کے نوجوانوں کے لیے ایک رول ماڈل ہیں، یہی وجہ ہے کہ انقلاب بنگلا دیش کے بعد انہوں نے عبوری حکومت میں ان کا نام پیش کیا۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ملک کو لوٹ کر کھانے ولوں کی باری لگی ہوئی ہے۔ نیب میں کیس چلتے ہیں پھر وہ ہی نیب ان کو کیسوں سے بری کرکے عزت داری کا سرٹیفکیٹ دے دیتی ہے۔ یہ کھیل برسوں سے جاری ہے جو رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ دنیا نے دیکھا سپر پاور نے بھی مانا کہ الیکشن میں دھاندلی ہوئی مگر کیوں کہ اسٹیبلشمنٹ ان کو چور دروازے سے لانا چاہتی تھی تو وہ آج اقتدار کے مزے لے رہے ہیں۔ بجلی کا رونا تو عوام کئی سال سے رو رہے ہیں اب گیس والے بھی ان کے نقش قدم پر چل پڑے اگر اس قوم نے جماعت اسلامی کا ساتھ نہیں دیا تو 98 فی صد بھوک سے مرجائیں گے۔ میرا کام تو عوام کو سمجھانا ہے حق کے لیے نکلو اور حافظ نعیم الرحمن کا ساتھ دو گے تو وہ تم کو خوشحال پاکستان دے سکتا ہے۔