جنرل فیض اور مقبولیت فارمولہ

422

سابق کور کمانڈر جنرل (ر) فیض حمید کو ان کے سابق ادارے نے اپنی تحویل میں لے لیا اور اس پر فوج کے محکمہ تعلقات عامہ نے باضابطہ تصدیقی بیان بھی جا ری کیا ہے۔ یہی نہیں اس انداز کے جن معاملات اور فیصلوں کو سات پردوں میں مستور رکھنا پرانا رواج تھا اس پر ٹی وی چینلز پر بریکنگ نیوز سے آگے بڑھ کر تجزیے بھی ہونے لگے۔ ہر تجزیہ نگار جنرل فیض حمید کی فردِ جرم کی اپنی انداز سے اور اپنی سوچ کے تحت تشریح کررہا ہے۔ جنرل فیض کی گرفتاری سے کیا برآمد ہوتا ہے اور اس کا اختتام کہاں ہوتا ہے؟ قطع نظر اس کے مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ جنرل حمید گل کے بعد جنرل فیض حمید فوج کے متنازع کردار ہیں۔ دونوں کردار وں کا سیاسی عزم بلند اور مستقبل کے ارادے اٹوٹ تھے اور دونوں نے سیاسی جوڑ توڑ اور حکمت کاری میں کوئی حجاب رکھنا پسند نہیں کیا۔ دو نوں کا اندرون ملک کردار تو متنازع ہے ہی مگر افغانستان بھی ان کی حکمت کار ی کا ایک حوالہ رہا ہے۔ دونوں فوج کی سربراہی کے قریب سے گزر کر دور ہوگئے۔ جنرل حمید گل اس لحاظ سے خوش قسمت رہے کہ بے نظیر بھٹو کی آہ وفغاں کے باوجود گرفتاری سے بچ گئے۔

حمید گل کے ماضی کی سرگرمیوں کے غیر قانونی ہونے کے حوالے سے جب بھی ان سے سوال کیا جاتا تو وہ بلا کے اعتماد کے ساتھ جواب دیا کرتے تھے کہ او بھائی اگر میں نے کوئی غیر قانونی کام کیا ہے تو مجھ پر مقدمہ کیوں نہیں چلاتے۔ پھر ساری باتیں کھلیں گی۔ حمید گل کے اس اعتماد کے پیچھے کیا راز تھا یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔ شاید یہ ایک ایسے زمانے کی بات ہے کہ جب گھر کی بات گھر میں رکھنے کا رواج تھا۔ اب چونکہ زمانہ بدل گیا ہے اس لیے حالات قطعی مختلف ہیں۔ حمید گل اور فیض حمید کی کہانیوں میں بس وقت بدلنے کا فرق ہے۔ فیض حمید پاکستان کی موجودہ تاریخ کا ایک بھرپور متنازع کردار ہیں۔ ایک طرف عمران خان انہیں اپنا بااعتماد اہلکار سمجھتے رہے اور ان کے تبادلے کو ٹالتے رہے تو دوسری طرف خواجہ آصف یہ کہانی بیان کر چکے ہیں کہ فیض حمید آرمی چیف بننے کے لیے نوازشریف تک رسائی حاصل کرچکے تھے بلکہ اس سے پہلے وہ خواجہ آصف کے ذریعے ن لیگ کو حکومت سنبھالنے کا پیغام بھی پہنچا چکے تھے۔ اس طرح فیض کسی کا بندہ نہیں تھا وہ بلکہ اپنے منصب اور مطلب کی فکر میں غلطاں شخصیت تھے۔

یہ کوئی انہونی بات نہیں پاکستان کا عمومی مزاج اور رواج ہے۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ کیا فیض حمید کی گرفتاری یا کورٹ مارشل ایک مسلسل عمل کی شکل اختیار کرجائے گا یا یہ محض نظریہ ٔ ضرورت کا ایک مظاہرہ بن کر رہ جائے گا۔ وقتی ضرورت کے تحت ایک شخص کو بلی چڑھایا جا رہا ہو۔ جنرل فیض پر دو طرح کے الزامات ہیں۔ اوّل ٹاپ سٹی ہائوسنگ اسکیم کے معاملات میں گڑ بڑ تو دوسرا ریٹائرمنٹ کے بعد ڈسپلن کی خلاف ورزی۔ ٹاپ سٹی اور اس جیسے معاملات میں کوئی نیا پن نہیں یہ داستانِ چمن جا بہ جا بکھری پڑی ہے۔ جنرل قمر باجوہ سے بھی ایسی بے شمار داستانیں جڑی ہیں۔ الزام کا دوسرا حصہ ان کی سیاسی سرگرمیوں اور سہولت کار سے متعلق ہے۔ اس حصے کے دو پہلو ہیں۔ ایک یہ کہ جنرل فیض کو عمران خان کے خلاف وعدہ معاف گواہ نہ بننے کی سزا دینا مقصود ہو یا عمران خان کے اعصاب کو توڑنے کی ایک اور کوشش ہو اور آگے چل کر یہ دائرہ خود عمران خان تک وسیع ہوجائے۔ تب مقتدرہ کے پاس یہ کہنے کا جواز ہوگا کہ ہم نے اپنا بندہ بھی نہیں چھوڑا تو عمران خان کیا چیز ہیں۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ جنرل فیض کو نو مئی کا ماسٹر مائنڈ قرار دے کر پنجابی محاورے کے مطابق اسٹیبلشمٹ اپنی منجی تلے ڈانگ پھیر رہی ہو۔ اسٹیبلشمنٹ اپنے ایک اعلیٰ شخصیت کو نو مئی کا ذمہ دار قرار دے کر اس قصے کو لپیٹا جا رہا ہو کیونکہ اس قصے اور قضیے کو سیاسی قیادت تک پھیلانا ایک ایسی دلدل ہے جس میں بہت کچھ دھنس رہا ہے۔

بہرحال معاملہ کچھ بھی ہو حکومت کے لیے اچھا موقع ہے فیض حمید سے کسی سیاسی شخصیت اور پارٹی کو مقبول بنانے کا وہ فارمولہ بھی حاصل کرلینا چاہیے جس کا استعمال کرکے انہوں نے لمحوں میں عمران خان کو اور پی ٹی آئی کو عوام میں مقبول بنایا تھا۔ کیونکہ حکمران یہ سمجھتے ہیں کہ عمران خان کی مقبولیت جنرل فیض کے فارمولے کا کمال ہے۔ ان کے خیال میں کسی فرد کی مقبولیت کا راز پس پردہ بیٹھا ہوا کوئی ماسٹر مائنڈ ہی ہو سکتا ہے۔ اس تصور کی بنیاد پر جنرل فیض سے وہ نسخہ اور فارمولہ حاصل کرکے شہباز شریف کم از کم خود کو مقبول بنا سکتے ہیں۔ مقبولیت حاصل کرنے کا اس سے نادر موقع دوبارہ ہاتھ نہیں آئے گا۔