بھارت میں “لَو جہاد” کے بعد “فلڈ جہاد” کی آمد

465

آسام:عجیب و غریب واقعات کہاں رونما نہیں ہوتے مگر بھارت اس معاملے میں سب سے آگے ہے۔ کوئی بھی ملک عقل کو دنگ کردینے والے معاملات میں بھارت سے نہیں جیت سکتا۔ ایک زمانے سے بھارت میں ہندو لڑکیوں کے قبولِ اسلام اور مسلم لڑکوں سے شادی کو “لَو جہاد” کہا جارہا ہے۔ یہ شاید ناکافی تھا اس لیے اب سیلاب کے لیے کسی کو موردِ الزام ٹھہراتے ہوئے “فلڈ جہاد” کی اصطلاح متعارف کرائی گئی ہے۔

بھارت کی شمال مشرقی ریاست آسام کی حکومت نے پڑوسی ریاست میگھالیہ پر الزام عائد کیا ہے کہ آسام میں سیلاب دراصل اُس کی ایک جامعہ کا پیدا کردہ ہے۔ آسام کی حکومت کا کہنا ہے کہ یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی میگھالیہ نے تدریس و تحقیق کے ایک حصے کے طور پر جنگلات میں درختوں کی بہت زیادہ کٹائی کی اور پہاڑوں میں بھی کھدائی کی جس کے نتیجے میں سیلاب کی راہ ہموار ہوئی۔

ہیمنت بسوا سرما کا کہنا ہے ک یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی میگھالیہ کے خلاف مقدمہ درج کرایا جانا چاہیے کیونکہ اُسی کی سرگرمیوں کے ہاتھوں آسام کو سیلابی کیفیت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

ہیمنت بسوا سرما نے میگھالیہ کی حکومت سے اس سلسلے میں احتجاج کیا ہے۔ مطالبہ کیا گیا ہے کہ یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی کی سرگرمیوں پر فی الفور پابندی عائد کی جائے۔ یونیورسٹی کا کیمپس 100 ایکڑ رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔