نظریہ پاکستان کو زندہ کیا جائے

313

یہ بات تو عام طور پر کہی جاتی ہے کہ پاکستان مدینہ منورہ کے بعد کرہ ارض پر اسلام کے نظریہ لا الہ الا اللہ کی بنیاد پر وجود میں آنے والی پہلی مملکت خدا داد ہے، پاکستان کا قیام بلاشبہ بیسویں صدی کا عظیم معجزہ ہے،اس عطیہ خداوندی کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے۔قومیں اپنے نظریات کی بنا پر زندہ رہتی ہیں،اپنے اسلاف کے طے کردہ نشانات منزل کو گم کردینے اور اپنے نظریات کو فراموش کر بیٹھنے والوں کا وجود کائنات زیادہ دیر برداشت نہیں کرتی اور وہ حرف غلط کی طرح مٹا دیئے جاتے ہیں۔پاکستا ن اپنے نظریہ کے بغیر ایسے ہی ہے جیسے روح کے بغیر جسم،اس جسم میں سے روح کب نکل گئی ، نظریہ کہاں گیا ،اسلام کے نام پر بننے والے ملک کا مقصد کچھ تھا اور وہ معیشت کی بہتری کے چکر میں معیشت سیاست، معاشرت، وقار عزت سب کچھ کھو رہا ہے ، لوگ کیوں اس ملک سے مایوس ہورہے ہیں ریاست کی ناکامی کا پراپیگنڈا کون اور کیوں کررہا ہے اسے اس کا موقع کس نے دیا ، یہ سیاست نہیں ہے ملک کا سوال ہے 25 کروڑ عوام کا سوال ہے ان کا مستقبل کیا ہے، ہر چند سال بعد ایک ٹولہ اقتدار میں آکر لوٹ مار کرے ،پھر دوسرے کی باری آئے پھر نیا نعرہ تبدیلی کا لاکر ان ہی ٹولوں میں سے لوٹے لڑھکا دیے جائیں اور نئی پارٹی بنادی جائے اور پھر گھما پھراکر ان ہی ٹولوں کو یکجا کردیا جائے قوم اپنے مجرموں کو تلاش تو کرے اس کے اردگرد ہی ملیں گے ، جب تک قوم اپنے اصل مجرموں کو نہیں پہچانے گی اس کا سفر آگے کی طرف نہیں بڑھے گا ، پاکستانی قوم کو نظریے سے کس نے دور کیا ، اسلامی نظام کو مشتبہ بلکہ مذاق کس نے بنایا ، شہزادوں بلکہ بادشاہوں جیسی زندگی گزارنے والے حکمران، جرنیل، جج، اشرافیہ عوام کے غم میں تقریریں تو کرتے نظر آتے ہیں، لیکن اپنا طرز زندگی نہیں بدلتے ،جتنے گروہ اس ملک کے عوام پر مسلط ہیں ان سب کی دنیا الگ یے اور عوام کی الگ۔اس کے بعد کہیں سے احتجاج، شکوہ ،حق طلب کرنے کی کوشش یا کوئی سوال آجائے تو غداری کا سرٹیفکیٹ تیار ہوتا ہے ،یہ صورتحال دن بدن بگڑ رہی ہے ،اگر اس مسئلے کا حل نہ نکا لاگیا تو کوئی بھی چنگاری ہولناک آگ بھڑکاسکتی ہے ، پھر امریکی ہاتھ تلاش کریں یا بھارت کی سازش، بھگتنا تو سب کو پڑے گا۔آج 14 اگست ہے تو سبق ہی تازہ کرلیتے ہیں کہ پاکستان کیوں بنا تھا،پاکستان کے قیام کا مقصد محض ایک ریاست کے حصول تک محدود نہیں تھا بلکہ قائد اعظم کے فرمان کے مطابق’ہمارے پیش نظر ایک ایسی آزاد اور خود مختارمملکت کا قیام ہے جس میں مسلمان اپنے دین کے اصولوں کے مطابق زندگی گزار سکیں‘‘۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنے 114خطابات اور تقریروں میں واشگاف الفاظ میں اس عزم کا اظہار کیا تھاکہ پاکستان کا آئین و دستور قرآن و سنت کے تابع ہوگا۔جب ان سے سوال کیا گیا کہ پاکستان کا دستورکیسا ہوگا؟ توانہوں نے فرمایاکہ’’ہمیں کسی نئے دستور اور آئین کی ضرورت نہیں،ہمارا دستور وہی ہے جو قرآن کی شکل میں اللہ تعالیٰ نے چودہ سو سال قبل ہمیں عطا کردیا تھا‘‘۔حضرت قائداعظم محمد علی جناح نے فرمایا تھا کہ’’ہم پاکستان محض ایک خطہ زمین کے لیے نہیں بلکہ اسلام کی تجربہ گاہ کے طور پر حاصل کرناچاہتے ہیں جہاں ہم اپنی زندگیاں قرآن و سنت کے مطابق گزار سکیں اور اسلام کو ایک نظام زندگی کے طور پر اپناسکیں‘‘۔ سوال یہ ہے کہ قائد اعظم کے فرمودات سے بڑھ کر کس کے فرمودات ہوگئے کہ اس ملک میں اسلام کو ایک دن بھی اقتدار نہیں دیا گیا،پھر ناکامیاں اور نامرادیاں تو مقدر ہونگی ، کسی کو الزام کیا دینا ، اس سال 14 اگست کو قوم یہ عزم کرے کہ نظریہ پاکستان کو ،زندہ کرے گی، اسلامی نظام کے نفاذ کی جدوجہد کریگی تو اسے ترقی وقار معاشی خوشحالی سب مل جائیں گے۔جب تک قوم بانی پاکستان حضرت قائد اعظم کے فرمودات پر عمل پیرا ہوکر علامہ اقبال کے خواب کی تعبیر حاصل نہیں کر لیتی، قیام پاکستان کا مقصد ادھوراگا۔ہم صرف ادھوری آزادی کو آزادی سمجھ رہے ہیں،یہ مکمل اسی وقت ہوگی جب اس ملک کو اس کے قیام کے مقاصد کے مطابق چلایا جائے گا۔بہت سے تضادات ختم کرنے ہونگے ،قانون کو سب کے لیے برابر بنایا جائے، شخصی آزادی کو یقینی بنایا جائے ،تعلیم کو آسان اور عام کیا جائے، سود کی لعنت اور اسلامی جمہوریہ ایک ساتھ نہیں چل سکتے، اس سے جان چھڑائی جائے،ایماندار اور جرأتمند سیاسی قیادت کے لیے راستہ چھوڑا جائے، اور عدالتیں قران وسنت کی بنیاد پر فیصلے کریں ،یہ بتانے کی بھی ضرورت نہیں کہ ملک تباہ کیوں ہوا، سب کو نظر ارہا ہے کہ قیام پاکستان کے ساتھ ہی ملک میں انگریز کا پروردہ وہی جاگیر دار طبقہ اقتدار پر قابض ہوگیا جس سے آزادی کے لیے لاکھوں مسلمانوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا تھا اور اسلامیان برصغیر نے انسانی تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت کی تھی۔ملکی اقتدار پر مسلط اشرافیہ عوام کو غلام اور اپنا خدمت گزار بنا کر رکھنا چاہتی ہے، اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے سیاسی وڈیرے اور جاگیر دار قانون کی حکمرانی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ان کی سیاست کا مرکز و محورہی اپنی ذات کو ہر قسم کی قانونی پابندیوں سے آزاد رکھنا ہے۔ملک میں قانون کی بالادستی کا خواب اس وقت تک شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا جب تک خود صاحب اقتدار طبقہ اس کی پابندی نہیں کرتا اور کوئی بھی ریاست اس وقت تک جمہوری کہلانے کی حق دار نہیں جب تک کہ جمہور کی مرضی کو فائق نہ سمجھا جائے، رات دن جمہور کا نام لینے والے کیا اس کے لیے تیار ہیں۔یا کسی تباہ کن عوامی ریلے کا انتظار ہے۔