حسینہ واجد کا فرار اور نجم سیٹھی کی مایوسی

410

نجم سیٹھی ہمارے ملک کے ایسے پڑھے لکھے اعلیٰ تعلیم یافتہ صحافی ہیں جو بائیں بازو کے نظریات کے سرخیل ہیں ان کے تجزیے عمومی طور سے حقائق کے مطابق ہوتے ہیں۔ ان کی پیش گوئیاں بھی کچھ درست ثابت ہوتی ہیں یہ بہت باخبر صحافی ہیں ان کی اہلیہ بھی ایک قابل خاتون ہیں یہ جو بھی پروگرام کرتی ہیں بڑی تیاری کے ساتھ کرتی ہیں۔ نجم سیٹھی کا ایک پروگرام ایک چینل سے سیٹھی سے سوال کے نام سے آتا ہے ہم یہ پروگرام شوق اور پابندی سے اس لیے دیکھتے ہیں کہ خود ہمارے علم میں اضافہ ہوتا ہے۔ پچھلے دنوں ایک پروگرام میں بنگلا دیش کی حسینہ واجد کے ملک سے فرار کی خبر کے حوالے سے سیٹھی صاحب نے جو تجزیہ پیش کیا اس سے پہلا تاثر تو ہمیں یہی ملا کہ حسینہ واجد کے محروم اقتدار ہوجانے کا افسوس بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کے بعد نجم سیٹھی کو ہوا ہے دوسرا تاثر ان کی گفتگو سے یہ ملا کہ وہ موجودہ لادینی بنگلا دیش کی ریاست کے مستقبل سے کچھ مایوس نظر آرہے تھے جب ہی وہ بار بار یہ کہہ رہے تھے، بنگلا دیش میں کچھ نہیں ہوگا کچھ نہیں ہوگا سب کچھ ایسا ہی رہے گا۔ تیسری بات یہ کہ انہوں نے تبدیلی اقتدار انقلاب کے معنی و مفہوم کو ہی آپس میں خلط ملط کرکے رکھ دیا۔ یعنی فرانس میں جو ملکہ اور اس کے حواریوں کے خلاف عوامی انقلاب آیا تھا جس انقلاب میں بعد میں ملکہ سمیت تمام اشرافیہ کی گردنیں کاٹ کر شاہراہوں پر لٹکائی گئی تھیں وہ انقلاب نہیں صرف تبدیلی اقتدار تھی۔ بنگلا دیش میں بھی عوام کا غیظ و غضب اس سطح پر تھا کہ اگر اپنے بیٹے اور اپنی بہن کے اصرار پر جانے کے لیے تیار نہ ہوتیں تو پھر نجم سیٹھی صاحب دیکھتے کہ حسینہ واجد کا کیا حشر ہوتا۔ پھر ان سے پوچھتے کہ یہ انقلاب ہے یا تبدیلی اقتدار۔

اپنے تجزیے میں نجم سیٹھی نے حسینہ واجد کا اقتدار زمیں بوس ہونے کی تین وجوہات بیان کی ہیں پہلی تو انہوں نے یہ کہا کہ جب کسی حکمران کو دس سال ہوجاتے ہیں تو ویسے ہی لوگ تھوڑے سے بور ہونا یا اکتانا شروع ہو جاتے ہیں نہ کہ پندرہواں برس لگ جائے تو لوگ مخالف ہوجاتے ہیں یہ تجزیہ جزوی طور پر تو ٹھیک ہے لیکن کلی طور پر ٹھیک نہیں ہے دنیا میں پچھلی صدی میں ایسے بھی حکمران رہے ہیں جنہوں نے تیس تیس سال اور چالیس چالیس سال حکمرانی کی ہے پھر کچھ حکمران فرار ہوئے کچھ مارے گئے یہاں پر حسینہ واجد کے خلاف نفرت میں اضافہ مدت کی وجہ سے نہیں اس کے ظالمانہ اور آمرانہ اقدامات کی وجہ سے ہوا۔ دوسری وجہ انہوں نے یہ بتائی کہ ملک میں بہتر معاشی اور اقتصادی اقدامات کے باوجود 70 فی صد تعلیم یافتہ نوجوان بیروزگار تھے یہ ان کا غصہ تھا تیسری وجہ جو انہوں بتائی وہ وہی ہے جو عام طور پر پہلے سے انٹر نیشنل میڈیا میں آرہا تھا کہ 1971 کی آزادی بنگلا دیش کی تحریک میں جن بنگالی کارکنا ن اور مکتی باہنی کے لوگوں نے حصہ لیا تھا ملازمتوں میں ان کا کوٹا پانچ سے بڑھا کر 30 فی صد کردیا 25 فی صد کچھ اور مخصوص گروپوں کی تھیں اس طرح اوپن میرٹ کے لیے صرف 45 فی صد کوٹا باقی بچا تھا یہ خاص وجہ تھی جس کی وجہ سے طلبہ احتجاج کے لیے میدان میں آئے پھر یہ مسئلہ تو وہاں کی عدالت عظمیٰ نے حل کردیا تھا کہ بنگلا دیش کی تحریک چلانے والوں کی اولادوں کے لیے کوٹا حسب سابق پانچ فی صد کردیا اور دو فی صد معذوروں کا کوٹا رکھ کر بقیہ 93 فی صد کوٹا اوپن میرٹ کے لیے مختص کردیا اس کے بعد حکومت مخالف تحریک میں کچھ ٹھیرائو آیا حکومت سمجھی کے تحریک ختم ہوگئی لیکن پھر کیا ہوا۔

کیا ہوا بعد میں بتائیں گے پہلے اوپر جو نجم سیٹھی نے تین وجوہات بتائی ہیں ان کے علاوہ بھی کچھ اور اہم وجوہات تھیں جن کا ذکر نہیں کیا یا کیا تو برسبیل تذکرہ کے طور پر پہلے سال تو انہوں نے آتے ہی یہ کیا کہ آئین سے الیکشن کے لیے عبوری حکومت کی شق ہی ختم کردی کہ اب آئندہ جو بھی انتخابات ہوں گے وہ اسی حکومت کی نگرانی میں ہوں گے جو اس وقت حکومت میں ہے اسی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان کا ارادہ تاحیات حکمرانی کا تھا ویسے اگر وہ 45 منٹ اور رک جاتیں تو ان کی یہ آرزو بھی پوری ہوجاتی۔ دوسری میری نظر میں اہم وجہ سیاست کے میدان میں اپنے مخالفین کی آواز کا گلا گھونٹ دینا تھا اب اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ہے یہ سب چیزیں میڈیا کے سامنے آتی رہی ہیں تیسری اہم وجہ جس کی وجہ سے عوام میں حسینہ واجد کے خلاف نفرت شدید اور گہری ہوگئی جماعت اسلامی کے معصوم اور بے قصور لوگوں کو جھوٹے الزامات لگا کر پھانسی کے پھندے پر لٹکانا تھا پھر یہ کہ ان کو صفائی کا موقع دیے بغیر ساری عدالتی کارروائی ہوئی۔ ایک اور اہم چوتھی وجہ تیسرے عام انتخابات میں اپوزیشن کو تہہ تیغ کرکے اپنے مخالفین کو پابند سلاسل کرکے انتخابات میں بہت بڑی دھاندلی کرکے اپنے آ پ کو کامیاب کرانا یہ عظیم کارنامہ کرکے حسینہ واجد بہت خوش ہوئیں انہیں یہ نہیں معلوم تھا کہ وہ خود اپنے اقتدار کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک رہی ہیں۔ پانچویں اہم وجہ بنگلا دیش کو بھارت کی گود میں بٹھادینا تھا۔ بنگلا دیش کی خارجہ پالیسی آزاد نہیں ہے بلکہ وہ بھارت کے تابع ہے یہی وجہ ہے کہ پاکستان سے بنگلا دیش کے تعلقات اب تک مثالی تعلقات نہ بن سکے۔ اس سال جنوری میں جو انتخابات ہوئے اس پر امریکا کی طرف سے شدید اعتراض آیا تھا تو بھارت نے امریکا کو سمجھایا کہ اس طرح بنگلا دیش چین کے قریب ہو جائے گا پھر امریکا نے خاموشی اختیار کرلی۔

نجم سیٹھی نے تین نکات ایسے بیان کیے جن پر گرفت کی جاسکتی ہے کہ اس میں انہوں نے کوئی متوازن نکتہ نظر پیش نہیں کیا مثلاً یہ کہنا کہ حسینہ واجد کے خلاف طلبہ تحریک میں دائیں بازو کی طلبہ تنظیم اسلامی چھاترو شبر کا تو بہت کم رول تھا بلکہ بائیں بازو اور لبرل تنظیموں کا زیادہ عمل دخل تھا اس میں صرف دو باتیں لکھنا چاہوں گا ایک تو انڈیا کے ایک چینل کا یہ تجزیہ وائرل ہوا ہے کہ چار پانچ سال سے بنگلا دیش کی جماعت اسلامی نے تعلیمی اداروں میں اپنے لوگوں کو داخل کرایا اور پھر ان کو اسلامی چھاتر شبر کے پلیٹ فارم سے منظم کیا اور حسینہ واجد کے خلاف تحریک کو منظم کیا دوسری دلیل یہ ہے کہ اگر بائیں بازو اور لبرل تنظیموں نے تحریک چلائی تھی تو اپنی رخصتی سے دو روز پہلے حسینہ واجد نے جماعت اسلامی اور اسلامی چھاترو شبر پر پابندی کیوں لگائی۔ دوسری بات وہ یہ کہتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں بنگلا دیش اور ہندوستان کے تعلقات میں کوئی فرق نہیں پڑے گا اگر نجم سیٹھی کی یہ بات درست مان لی جائے تو پھر وہ بتائیں کہ بھارتی میڈیا یہ کیوں چیخ رہا ہے کہ حسینہ واجد کے خلاف تحریک کی منصوبہ بندی پاکستان کی آئی ایس آئی نے تیار کی تھی۔ تیسری بات جو انہوں نے صریحاً خلاف حقیقت کی کہ بنگلا دیش کے اندرونی حالات اور معاملات میں کوئی فرق نہیں پڑے گا بس سیٹھی صاحب ایک بات کا جواب دے دیں کہ بنگلا دیش کے تعلیمی اداروں کے علاوہ وہاں کے گلی کوچوں میں نوجوان یہ نعرے کیوں لگارہے ہیں کہ توئی کے، آمی کے رجا کار جاکار آسان الفاظ میں اس کے معنی یہ سمجھ لیں کہ تو کون میں کون پاکستانی پاکستانی۔

آخر میں ہم اس سال 25 جولائی کو اپنے ایک مضمون ’’بنگلا دیش میں طلبہ کی احتجاجی تحریک‘‘ کی آخری دو لائنیں پیش کرنا چاہیں گے یہ اس وقت کی بات ہے جب حسینہ واجد بنگلا دیش کی وزیر اعظم تھیں۔ ’’دوتہائی اکثریت حکمرانوں کی طاقت نہیں بلکہ بہت بڑی کمزوری ہے اور یہ آمریت کی ملتی جلتی شکل ہے اس کی وجہ سے چیک اینڈ بیلنس کا نظام ختم ہوجاتا ہے اس لیے حکمرانوں کے خلاف نفرت بڑھ جاتی ہے جو پھر ان کے خلاف ایک منظم تحریک کا سبب بن جاتی ہے آخر میں ہم یہی کہیں گے کہ بنگلا دیش میں اب بہت جلد حسینہ واجد کی حسینی آمریت اپنے اختتام کو پہنچنے والی ہے‘‘۔