مال غنیمت نہ کشور کشائی

361

اسماعیل ہنیہ شہید کر دیے گئے‘ وہ دنیا سے رخصت تو ہوگئے مگر فوز عظیم پا گئے‘ فوز عظیم کیا ہے؟ اسے سمجھنے کے لیے فوز عظیم کے اس تصور کو سمجھنا بہت ضروری ہے جو قرآن کے اپنے لفاظ میں بیان کیا گیا ہے اسے وہی سمجھ سکتے ہیں جسے اللہ نے اس کی توفیق دی ہو۔ بلاشبہ اسماعیل ہنیہ خوش قسمت ثابت ہوئے، جس نے اپنی تمام عمر نشان عزم استقلال سے گزاری، دشمن کو لگتا ہے کہ قسام بریگیڈ کی قیادت کو قتل کردیں گے تو یہ راستہ رک جائے گا۔ یہ ان کی بہت بڑی غلط فہمی ہے‘ انہیں پتا ہی نہیں کہ شہید کسے کہتے ہیں؟ شہید کے وارث کون ہیں پوری امت مسلمہ اس کی وارث ہے اور امت مسلمہ میں شہید سے محبت، عقیدت اور پیار کرنے والے اس بات کا عہد کرتے ہیں اور وعدہ کرتے ہیں کہ شہید کا ورثہ جاری رہے کا اور ورثہ بچوں کی قاتل صہیونی حکومت کے خاتمے اور بیت المقدس کی آزادی پر منتج ہوگا۔ صدر ایران جناب مسعود پزشکیان کا بھی شکریہ کہ انہوں نے حلف برداری کی تقریب میں جناب اسماعیل ہنیہ کا ہاتھ پورے احترام کے ساتھ اوپر اٹھایا‘ یہ فلسطین کے روشن و بلند مستقبل کی علامت ہے۔

حماس کے سیاسی سربراہ اسماعیل ہنیہ تو منزل مراد پاگئے‘ وہ ہم سب کے لیے مرکز یقین شاد باد بھی بن گئے ان کی زندگی کے ہر ہر لمحے نے ’شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن، مال غنیمت نہ کشور کشائی‘ کی عملی تصویر بن کر دکھا دیا۔ دنیا سے ان کی رخصتی کے اثرات اور نتائج کا احاطہ کرنا آسان نہیں ہے پُرعزم زندگی گزارنے والے نے ہمارے لیے کا سبق چھوڑا ہے؟ یہی اصل سوال ہے فلسطین کی آزادی کا خواب دیکھنے والے اب خواب نہیں عملی زندگی کی جانب بڑھیں اور اپنی منزل ڈھونڈتے ڈھونڈتے دنیا سے میدان جنگ میں شہادت پا کر رخصت ہوجائیں اس سفر میں ہنیہ خود تنہا نہیں تھے‘ ان کے خاندان کے 70 افراد ان کے استقبال کے لیے پہلے سے جنت میں ان کے منتظر تھے، ان کے تین بیٹوں اور چار پوتے پوتیوں نے بھی جامِ شہادت نوش کیا ہے، اب اسماعیل ہنیہ بھی اُن کے ساتھ جا ملے ہیں ان کی شہادت پر پورا عالم اسلام غم زدہ ہے‘ ملکوں ملکوں اُن کی نمازِ جنازہ ادا کی گئی ہے۔ ایران کے رہبر آیت اللہ خامنہ ای نے انتقام کا پُرزور نعرہ لگایا ہے کہ اسرائیل کو اس کے کیے کی سزا ملے گی۔

اگرچہ اسرائیل نے اِس قتل کی ذمے داری قبول نہیں کی لیکن زبانِ خنجر لاکھ چُپ رہے، آستین کا لہو پکار رہا ہے ہر شخص کو یقین ہے کہ یہ حرکت اسرائیل کے سوا کسی اور کی ہے، نہ ہو سکتی ہے اُن پر حملے کے لیے تہران کا انتخاب کیا گیا‘ یہ بہت اہم نکتہ ہے، یہ سوال ہر ذہن میں اُٹھ رہا ہے اسماعیل ہنیہ کو نشانہ بنا کر ایران کی سبکی کا سامان کیا گیا ہے‘ ایران کو اپنی صفائی کا بھرپور انداز میں پورا پورا موقع ملنا چاہیے اسے خود بھی یہ سوچنا ہے کہ اس کے دامن پر پڑنے والے دھبے کب دھلیں گے اس کے لیے پوری امت مسلمہ منتظر ہے۔ اس مرد جری کی شہادت کے بعد بھی فلسطین کی قیادت پر لازم ہے اور آزاد ریاست کے قیام کے لیے وہ سر دھڑ کی بازی لگانے پر تیار‘ اب متحدہ عرب امارات سمیت وہ تمام مسلم ممالک جنہوں نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر رکھے ہیں‘ اور غزہ کی جنگ کے دوران بھی اس کے ساتھ تجارت کررہے ہیں‘ انہیں اب اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے‘ امید کی جانی چاہیے کہ مراکش، مصر، اردن ضرور اپنا جائزہ لیں گے اور انہیں فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ امت مسلمہ کے ساتھ کھڑے ہیں یا دوسری جانب؟‘

ایک سازشی تھیوری یہ بھی سامنے آئی ہے کہ ہنیہ کو ایران کے اندر ہی سے نشانہ بنایا گیا ہے کہ اور وہ ایک ایسی لابی کا نشانہ بنے ہیں جس کے ذہن میں یہ سوال ہے کہ ایران کا سرمایہ اور وسائل حسن نصراللہ، حماس کے لیے استعمال کیے جارہے ہیں کسی مہدی گروپ کا نام لیا جارہا ہے۔ اس کا جواب دینا بھی ایرانی حکومت کے ذمے ہے‘ جب تک ہنیہ کے قتل کی ایک مکمل غیر جانب دارانہ تحقیقات نہیں ہوں گی ایسے بے شمار سوالات اٹھتے رہیں گے۔ اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے بعد ایک تلخ سوال اور جنم لے چکا ہے کہ آخر کب تک فلسطین کے عوام مسلم حکومتوں کے بجائے مسلم تحریکوں کی مدد سے آگے بڑھتے رہیں گے؟ کیا ایسی کوششوں سے فلسطین کی آزادی کی منزل حاصل کی جا سکتی ہے؟ یہ بات ایران کے لیے سوچنے کا مقام ہے کہ تہران میں اسماعیل ہنیہ کو قتل کر کے ایران کی قائدانہ صلاحیت پر کاری ضرب لگائی گئی ہے کہ وہ اپنے خاص مہمان کی حفاظت نہیں کر سکتا تو عالم ِ اسلام اس سے کیا توقع رکھے؟ ایران نے سرکاری طور پر ابھی تک کچھ نہیں کہا‘ میڈیا کی ان رپورٹس کا جواب دینا بہت ضروری ہے جو ابہام پیدا کر رہی ہیں یہ ایران کی دفاعی صلاحیت پر بھی سوال اٹھا رہی ہیں۔

ایک منظر یہ بھی ہے کہ اب امریکا پوری طرح حرکت میں آ چکا ہے۔ اسرائیل کی حفاظت کے لیے اس نے ازسرِ نو کمر کس لی ہے اور اپنی فوج بھی میدان میں اُتارنے کا فیصلہ کیا ہے، گویا ایک نئی جنگ کی بنیاد رکھی جارہی ہے‘ کیا اسلامی سربراہ کانفرنس کے زعماء کو سر جوڑ کر بیٹھ نہیں جانا چاہیے؟ اور ان سب سے اہم بات اپنے ملک کی حکومت سے ہے۔ ہماری حکومت اور دفتر خارجہ، دو ریاستی قیام کی بات کر رہا ہے کیا یہ موقف اس بنیادی روح کے خلاف نہیں کہ جس میں ہم کہتے ہیں کہ اصل سرزمین تو فلسطینیوں کی ہے یہودی تو قابض ہیں اور کیا ہم قابض جارح کے لیے جگہ بنارہے ہیں کہ دو ریاستی موقف اور کیا ہے؟ یہ در اصل اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا دیا ہوا تصور ہے بلکہ اس کا بے بی کہنا زیادہ مناسب ہوگا اور کیا ہم اس کا بے بی مسلم امہ کے جھولے میں ڈالنے کو تیار ہیں؟ پارلیمنٹ اور شہباز حکومت اس بارے میں باقاعدہ کھلا اور واضح موقف قوم کے سامنے رکھے اور سب سے اہم بات یہ کہ ہمیں بحیثیت قوم اس پروپیگنڈہ سے بھی متاثر نہیں ہونا چاہیے کہ ایران میں حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ پر حملے کے بعد جوابی کارروائی کے خوف سے صہیونی حکومت کی نیندیں اُڑ گئی ہیں دشمن کی قاتل مسکراہٹ کو سمجھنا بہی بہت ضروری ہے اس کی قاتل مسکراہٹ دہشت گردی سے کم نہیں۔