چیئرمین ایپوا آزادی کے 77 سال مکمل ہونے پر تمام اہل وطن کو مبارک ہو۔ یہ دن ہمارے لیے ایک موقع ہے کہ ہم ماضی کی جدوجہد کو یاد کریں اور اس بات کا جائزہ لیں کہ ہم نے کتنی دوری طے کی ہے اور کہاں کھڑے ہیں۔ پاکستان کی آزادی کی 77 سالہ تاریخ میں جھانکیں تو دنیا میں بہت تبدیلی آی ہے بہت کچھ بدلا ہے اور ہم اسی دقیانوسی محور کے گرد گھوم رہے ہیں ترقی تو کجا ہم قرضوں کے گرداب میں دھنسے چلے جارہے ہیں۔ ٹیکنالوجی کے ہوتے ہوے ہم نے کچھ نہیں سیکھا یا سیکھنا نہیں چاہتے ہیں۔ بعض بنیادی مسائل آج بھی حل طلب ہیں ہمارے ملک کے جابرانہ نظام نے پاکستان کی پہلی نسل کا ڈیٹا تک شوشل پنشن کے ادارے کے پاس محفوظ نہیں ہے۔ ہماری پہلی نسل نے ملک کی ترقی کے لیے بے پناہ محنت کی، لیکن آج ان بزرگوں کی حالت زار افسوسناک ہے۔ وہ لوگ جو ایک وقت ملک کی معیشت کو سنبھالے ہوئے تھے، آج خود کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کی شرافت اور جدوجہد کے بدلے میں انہیں جو کم از کم حقوق اور سہولتیں ملنی چاہئیں، وہ ان سے محروم ہیں۔ملک کے سینئر سٹیزن کے منہ سے دو وقت کا نوالہ بھی چھین لیا گیا ہے۔ ای او بی آئی (ایمپلائیز اولڈایج بینیفیٹس انسٹیٹیوٹ) کے پاس آجر اور آجیر سے وصول کردہ رقم اور اس پر حاصل شدہ آمدن ایک اندازے کے مطابق 5 بلین سے بھی زائد ہیں، وہ پنشنرز جنہوں نے اپنی جوانی کے ماہ
وسال پرائیویٹ کمپنیوں، کارخانوں، فیکٹریوں اور ملوں میں جوانی اور توانای برباد کر دی۔ اور اب اس نا قابل برداشت مہنگائی کا بوجھ اٹھانے کی ہمت باقی نہیں رہی۔ اس لیے ان غریبوں پر اتنا رحم کریں کہ ان کی اپنی ہی جمع شدہ سرماے سے جینے کا حق دیدیں۔ جون 2023 میں شوشل پنشن میں 1500 کے اضافہ کا اعلان کیا گیا اور 10000 کم از کم پنشن مقرر کی گی ہے جو کہ تاحال ہے۔ EOBI کے پنشنرز کی پنشن 10000 نہیں کم از کم37000، روپے ماہانہ کی جائے ورنہ وہ دن دور نہیں جب ان بے بس اور مجبور لوگوں کو بھی اپنے مطالبات کی منظوری کے لیے سٹرکوں پر آنا پڑے گا۔ یہ وقت ہے کہ ہم علامہ اقبال
اور قائد اعظم محمد علی جناح کے خواب کو حقیقی شکل میں لائیں۔ ہم نے کئی بار ایمان، اتحاد اور تنظیم کی باتیں کی ہیں، لیکن عملی طور پر ہمیں اب بہت کچھ کرنا ہے۔ آزادی کا حقیقی مفہوم اسی وقت پورا ہوگا جب ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوگا، قرضوں کی لعنت سے نجات حاصل کرے گا، انصاف کی فراہمی یقینی بنائی جائے گی، اور پسماندہ افراد کو ترقی کے عمل میں شامل کیا جائے گا۔ علامہ اقبال کا 28 مئی 1937 کا خط ہمارے لیے ایک اہم پیغام ہے۔ وہ قائد اعظم سے یہ سوال کرتے ہیں کہ مسلمانوں کے دو سو سالہ زوال اور ہندو کی مہاجن کی حیثیت سے مسلمانوں کے معاشی استحصال کے بعد اب نجات کی راہ کیا ہو گی؟ پھر خود جواب دیتے ہیں کہ: روٹی کا مسئلہ روز بروز شدید تر ہوتا چلا جارہا ہے۔مسلمان محسوس کر رہے ہیں کہ گزشتہ 200سال سے ان کی حالت مسلسل گرتی چلی جارہی ہے۔ مسلمان سمجھتے ہیں کہ ان کے افلاس کی ذمہ دار ہندو ساہوکار و سرمایہ داری پر عائد ہوتی ہے۔ لیکن یہ احساس کہ ان کے افلاس میں غیرملکی حکومت بھی برابر کی ذمہ دار ہے اگرچہ ابھی قو ی نہیں ہوا لیکن یہ نظریہ بھی پوری قوت و شدت حاصل کرکے رہے گا۔ انہوں نے مسلم قوم کی معاشی مشکلات اور ان کے استحصال کا ذکر کیا تھا، اور آج بھی ان مسائل کا حل تلاش کرنا ضروری ہے۔ پاکستان کے بزرگ شہریوں کی سوشل پنشن میں اضافہ صحت کی سہولت اور ان کے معیار زندگی کی بہتری اہم اقدامات ہیں جنہیں فوری طور پر عملی شکل دی جانی چاہیے۔ ایپوا کی طرف سے کیے گئے مطالبات بالکل بجا ہیں۔ ای او بی آئی کے پنشنرز کے لیے پنشن میں مناسب اضافہ نہ صرف ان کی مالی حالت کو بہتر بنائے گا بلکہ ان کی عزت نفس اور ان کے حق کی پاسداری بھی ہوگی۔ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو یہ انتہائی ضروری ہے کہ حکومت اور متعلقہ ادارے اس مسئلے کا سنجیدہ حل تلاش کریں۔ یومِ آزادی کے موقع پر، ہم سب کو اس بات کا عہد کرنا چاہیے کہ ہم اپنے بزرگوں اور محنت کش طبقے کے حقوق کے تحفظ کے لیے موثر اقدامات کریں گے اور ملک کی ترقی کی سمت درست کریں گے۔