عوام کے احتجاج میں طاقت ہے۔ بنگلا دیش میں یہ عوام کے جذبات تھے جو ایک لاوے کی صورت پھٹے اور حسینہ واجد اور ان کی حکومت کو بہا لے گئے۔ بظاہر حسینہ واجد کی حکومت کے خلاف طلبہ کا احتجاج کوٹا سسٹم کی بحالی کے بعد شروع ہوا۔ طلبہ کا کہنا تھا کہ سرکاری ملازمتوں پر کوٹا سسٹم کا نظام متعصبانہ ہے۔ اس کی اہلیت کا معیار صرف میرٹ ہونی چاہیے۔ مظاہرین کا یہ مطالبہ تھا کہ نظام میں اصلاحات کی جائیں اور اعلیٰ سرکاری ملازمتوں کو منصفانہ طور پر تقسیم کیا جائے۔ کوٹا سسٹم کا یہ نظام پاکستان میں بھی تیس‘ چالیس سال سے رائج کیا ہوا ہے جس کو ختم کرنے کے لیے ایم کیو ایم نے بڑی سیاست کے دعوے کیے لیکن کبھی ایک انچ بھی کوٹا سسٹم کو نہ ہلا سکی۔ یہاں تک کہ اسمبلی میں بڑی تعداد میں موجود ہونے کے باوجود کوئی بل پاس نہ کروا سکی۔
بنگلا دیش میں پچیس فی صد سرکاری ملازمین کوٹا سسٹم کے تحت جاتی تھیں جن میں تیس فی صد کوٹا 1971ء میں بنگلا دیش بنانے کی تحریک میں حصہ لینے والوں کی اولادوں کے لیے مختص تھا۔ حسینہ واجد کے مخالفین کا کہنا تھا کہ حکمران جماعت عوامی لیگ ملازمتوں اور تعلیمی اداروں میں نافذ کوٹے کو اپنے سیاسی حامیوں اور کارکنوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے استعمال کرتی ہے۔ طلبہ کا یہ احتجاج جاری تھا۔ حسینہ واجد چوتھی دفعہ اقتدار کے نشے میں چور تھیں۔ انہیں لگا کہ وہ آسانی سے ان پر قابو پا لیں گی۔ پولیس کو نمٹنے کا حکم دیا گیا۔ آنسو گیس اور ربر کی گولیوں سے سیکڑوں زخمی ہوئے۔ طلبہ کے مقابلے کے لیے عوامی لیگ کی طلبہ تنظیم کو اُتارا گیا اس کو اسلحے سے لیس کرکے نہتے طلبہ پر ٹوٹنے کا حکم دیا گیا لیکن سامنے بھی جوان خون تھا‘جرأت اور استقلال کے ساتھ وہ اپنے سینے پیش کرتے رہے خاص طور سے ایک طالب علم جس نے سینہ تان کر کہا ’’چلائو گولی…‘‘ اور پھر ایک نہیں‘ چار چار گولیاں اس کے سینے میں اُتار دی گئیں اور وہ جان سے گزر گیا۔ لیکن اس کا خون تحریک کے لیے زندگی اور کامیابی بن گیا۔ اب بھی حسینہ واجد کا خیال تھا کہ وہ مظاہرین پر قابو پا لیں گی۔ انہوں نے پاکستان دشمنی کے جذبے کو استعمال کرنے کی کوششیں کی اور مظاہرین کو ’’رضا کار‘‘ قرار دیا۔
بنگلا دیش میں رضا کار 1971ء میں مشرقی پاکستان میں فوج کی مدد کرنے والوں کو کہا جاتا ہے۔ حسینہ واجدکے اس طنز و طعنے نے طلبہ کو اور زیادہ مشتعل کیا۔ لیکن ساتھ ہی طلبہ نے کہا کہ ’’ہاں ہم رضا کار ہیں‘‘۔ اب حسینہ واجد نے اس مسئلے کا حل جماعت اسلامی اور اس کی طلبہ تنظیم ’’چھاترو شبر‘‘ پر پابندی لگانا سمجھا۔ ایگزیکٹیو آرڈر کے ذریعے پابندی لگا دی گئی لیکن احتجاج اور بڑھا۔ سوشل میڈیا پرجوشیلی مہم چلائی گئی‘ ترانے ایسے کہ گونج دور دور تک پھیل گئی۔ ٹک ٹاک کے ذریعے بات پہنچائی گئی۔ حسینہ واجد ہل گئیں لیکن اب بھی انہیں ادراک نہیں ہوا تھا۔ انہوں نے موقف یہ اختیارکیا کہ احتجاج میں طلبہ شامل نہیں ہیں بلکہ یہ اپوزیشن پارٹیاں جماعت اسلامی اور بنگلا دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کی کارستانی ہے۔ جماعت اور اس کے طلبہ تنظیم پر پابندی لگانا مسئلے کا حل سمجھا لیکن اب معاملات ان کی سوچ سے اوپر جا چکے تھے۔
طلبہ تنظیم نے عدالت عظمیٰ کے کوٹا سسٹم کو ختم کرنے کے باوجود حسینہ واجد کے استعفے تک سول نافرمانی کی تحریک چلانے کا اعلان کیا۔ اس دوران تین سو کے قریب ہلاکتیں ہوئیں۔ طلبہ نے اب ڈھاکہ کی طرف مارچ کی کال دی۔ حسینہ واجد نے ملک بھر میں کرفیو لگا دیا‘ انٹرنیٹ بند کر دیا گیا۔ اس کے باوجود ہزاروں لوگوں نے نواحی علاقوں سے ڈھاکہ کی طرف مارچ کیا۔ اسی دوران فوج نے مداخلت کی اور حسینہ واجد کو فوری مستعفی ہونے کے لیے کہہ دیا۔ سیاست کے میدان میں ڈیڑھ عشرے سے تنہا بزور قابض رہنے والی حسینہ واجد ہیلی کاپٹر پر انڈیا روانہ ہوگئیں۔ بنگلا دیش کے عوام میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ سجدۂ شکر ادا کیا گیا، جھنڈے لہرائے گئے، مٹھائیاں تقسیم کی گئیں۔ طلبہ نے پوری ہوش مندی کے ساتھ فوج کو عبوری حکومت بنانے سے روک دیا اور کہا کہ عبوری حکومت کے سربراہ ڈاکٹر محمد یونس ہوں گے۔ ڈاکٹر محمد یونس بنگلا دیش کے عوام میں عزت و احترام کے ساتھ جانے جاتے ہیں۔ احتجاج کرنے والے طلبہ کے اتحاد اسٹوڈنٹس اگینسٹ ڈسکریمینیشن (ایس اے ڈی) کے ایک مرکزی راہ نما آصف محمود نے اپنی وال پر لکھا ’’ہمیں ڈاکٹر یونس پر بھروسا ہے‘‘ اس میں شک نہیں کہ لاکھوں لوگوں کو غربت سے نکال کر اپنے پیروں پر کھڑا کرنے والے ڈاکٹر یونس قابل بھروسا ہیں۔ اس کے ساتھ نوجوان طلبہ تنظیموں کی سیاسی سمجھ داری پر بنگلا دیشی عوام کا بھروسا بھی سمجھ میں آتا ہے۔