ملکی بحران: حل کے پانچ اْصول
اسلامی نظام ہی مسائل کا حل ہے: اس بات کو طے شدہ امر سمجھا جائے کہ پاکستان میں اسلام کو نافذ ہونا ہے، اور یہ اسلام قرآن و سنت کا اسلام ہے…۔ اگر اس بات کو طے شدہ امر سمجھ لیا جائے تو ترقی کی سب سے بڑی رکاوٹ دْور ہوجائے گی۔ جس چیز نے پاکستان کو کھوکھلا کیا ہے وہ سرکاری مشینری میں بدعنوانی ہے۔ کرپشن سرکاری مشینری میں اتنی پھیل چکی ہے کہ ان کی رگ رگ میں سرایت کرگئی ہے اور یہ روز بروز بڑھ رہی ہے۔ اس وقت کرپشن مارشل لا سے پہلے سے دو سو گنا زیادہ ہوگئی ہے۔ اس کے علاوہ اخلاق کا دیوالیہ نکل رہا ہے، بداخلاقیاں بڑھتی جارہی ہیں۔ اگر ان سب چیزوں کی اصلاح کسی چیز سے ہوسکتی ہے تو وہ اسلام ہے اور اسلام کے ذریعے چند برسوں میں حالات بدل جائیں گے۔ اگر یہ خیال ہے کہ یہاں یورپ اور امریکا سے فلسفہ لاکر اصلاح کی جائے گی تو اسے دل سے نکال دیں کیونکہ یورپ اور امریکا کے نظریات اپناتے اپناتے آپ کو سو ڈیڑھ سو سال لگ جائیں گے اور تب جاکر آپ کہیں اسلام کو ختم کر کے یہاں مادہ پرستی لاسکیں گے کیونکہ پاکستان میں 99 فی صد افراد مسلمان ہیں اور بچے کی پیدایش سے لے کر اس کی موت تک ہر مرحلے پر خدا کا نام لیا جاتا ہے اور اسلام ساتھ ساتھ چلتا ہے اور لوگوں کے دلوں میں قرآن کی محبت ہے۔ ایسی صورت میں اسلام کو فراموش کرانے اور متبادل نظام کو یہاں لانے میں ڈیڑھ سو سال کا عرصہ درکار ہے۔ البتہ اگر اسلام کے ذریعے یہاں اصلاح کی جائے تو پانچ سال کے عرصے میں مکمل اصلاح کی جاسکتی ہے اور اس حالت میں پاکستان کیا سے کیا ہوجائے گا۔
٭…٭…٭
ملک عوام کا ہے: اس بات کو ماننا پڑے گا کہ یہ ملک پاکستان کے باشندوں کا ہے، کسی طبقے یا گروہ کا نہیں ہے۔ اس لیے اس بات کا کسی کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ عوام کو نظرانداز کر کے خود اختیارات سنبھال لے۔ اگر یہ سلسلہ ہمیشہ جاری رہا کہ ایک شخص یا طبقہ قوم کو محروم کر کے خود اختیارات سنبھال لے تو اس ملک کو خانہ جنگی سے نہیں بچایا جاسکتا، اور اس طرح اقتدار کے حصول کے لیے ایک دوسرے کو محروم کرنے کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہے گا اور یہ دوڑ کبھی ختم ہونے کو نہ آئے گی۔ اس لیے یہ اصول تسلیم کیا جائے کہ یہ ملک عوام کا ہے اور انھوں نے ہی اس پر حکومت کرنی ہے۔
٭…٭…٭
عوام کے منتخب نمایندوں کی حکومت: اس اصول کو تسلیم کرنا چاہیے کہ ملک میں حکومت کرنا اس ملک کے باشندوں کے نمایندوں کا کام ہے اور سرکاری ملازموں کا کام ان کی اطاعت کرنا ہے، حکمرانی کرنا نہیں۔ اگر کسی سرکاری ملازم کو عوامی حکمرانوں کی پالیسی سے اتفاق نہ ہو تو اسے چاہیے کہ وہ اپنے عہدے سے استعفا دے کر اپنے نظریات کی بنیاد پر انتخاب لڑے۔ سرکاری ملازم کی حیثیت سے اسے یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ سیاسی گروہ بندیاں کرے۔ اس سلسلے میں مثال کے طور پر عرض کرتا ہوںکہ ڈپٹی کمشنر کو پورے ضلع کے انتظامات امانت کے طور پر دیے جاتے ہیں۔ اس لیے نہیں کہ وہ پورے ضلع کے مالک بن جائیں اور اس کو اپنی جایداد بنالیں۔ ضلع ان کی جایداد نہیں ہے۔ ہر طبقے کے سرکاری ملازموں کو معلوم ہونا چاہیے کہ جب ان کے ہاتھ میں طاقت دی جاتی ہے تو یہ قوم کا ان پر اعتبار ہے، وہ ان کی شرافت پر یقین کر کے یہ خطرہ مول لیتی ہے۔ قوم کو کسی حالت میں دھوکا نہیں دینا چاہیے۔ سرکاری ملازم اگر اقتدار اعلیٰ پر فائز ہونا چاہتے ہیں، وہ استعفا دے کر انتخابات لڑیں اور عوام سے اپنے نظریات پر اعتماد حاصل کریں۔ اگر ایسا نہیں کرسکتے تو قوم کے نمایندوں کے تحت کام کریں۔
٭…٭…٭
صاف اور شفاف انتخابات: ملک کے حقیقی نمایندے وہ ہیں جن کو ملک کے عوام اپنی آزادیِ راے سے منتخب کریں، نہ کہ دھاندلیوں، لالچ یا سرکاری اثر سے جیتنے والے قوم کے نمایندے ہیں۔ وہ دشمن اور غاصب ہیں۔ ان کی انھی حرکتوں سے قوم اب تک خراب ہوتی رہی ہے اور اگر ایسا نہ ہوتا تو یہ نوبت کبھی نہ آتی۔ اگر اب تک کے انتخابات میں جمہوری طریقوں کو اپنایا جاتا تو یہاں جو تباہی آئی ہے وہ نہ آتی۔ انہی انتخابات سے حالات خراب ہوتے چلے گئے ہیں۔ اگر حالات نے کوئی سبق سکھایا ہے تو قسم کھا لینی چاہیے کہ آیندہ انتخابات میں نہ خود بددیانتی کریں گے اور نہ کسی کو بددیانتی کرنے دیں گے۔ جو آدمی ایسا ہے یا کرے گا تو اسے قوم کا دشمن اور غاصب تسلیم کرنا چاہیے۔ دھاندلی سے پیدا ہونے والے خطرے کو محسوس کیا گیا تو آیندہ حالات خراب نہ ہوں گے۔
٭…٭…٭
عوام کی راے کا احترام: ہر آدمی کو حق پہنچتا ہے کہ وہ اپنی راے کو ملک کے باشندوں کے سامنے پیش کرے اور انھیں اپنے اعتماد میں لے۔ کسی کو اس کی راے غصب کرنے کا حق نہیں پہنچتا۔ یہاں اس کے برعکس ہوتا ہے جس کے ہاتھ میں طاقت ہوتی ہے وہ کسی کو اپنی راے تسلیم کرانے نہیں دیتا۔ لہٰذا اس حق کو مان لیا جائے کہ جو شخص عوام کا اعتماد حاصل کرکے اقتدار حاصل کرے اس کا اقتدار جائز، اور دوسرے راستوں سے حاصل کردہ اقتدار ناجائز ہوگا۔ اگر یہ اصول تسلیم نہ کیا گیا تو کسی صورت میں بھی عوام کی زندگی ہموار نہ ہوسکے گی۔ (29 اگست 1962ء کو پشاور میں خطاب)۔(ہفت روزہ شہاب، 16 ستمبر 1962ء)