بنگلا دیش میں جو کچھ ہوا ہے وہ ہر اعتبار سے اُس کے اندرونی حالات کا نتیجہ ہے۔ عوامی لیگ نے 15 سالہ عہدِ اقتدار میں جو کچھ بھی کیا اُس کا نتیجہ بھگتا ہے۔ شیخ حسینہ نے مسلسل 15 سال وزیرِاعظم ہاؤس میں قیام کے دوران جو بویا تھا وہی تو کاٹا ہے مگر لوگ مکافاتِ عمل کے ڈانڈے کہیں اور ڈھونڈ رہے ہیں۔
بھارتی میڈیا نے اپنے آپ کو پروپیگنڈا مشینری میں تبدیل کرتے ہوئے توپوں کا رُخ پاکستان کی طرف موڑ دیا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ بنگلا دیش کی حکومت کا تختہ پاکستان نے چین کے ساتھ مل کر اُلٹا ہے۔ شاید ایسے ہی مواقع پر “ماروں گھٹنا پُھوٹے آنکھ” کہا جاتا ہے۔
بنگلا دیش میں جب حالات قابو نہیں رہے اور شیخ حسینہ کو اندازہ ہوگیا کہ اب اُن کا ٹِکنا ممکن نہیں تو آخری حربے کے طور پر اُنہوں نے سارا ملبہ جماعتِ اسلامی اور اُس کے اسٹوڈنٹ ونگ اسلام چھاتر شِبر پر ڈالنے کی کوشش کی اور دونوں پر پابندی لگادی۔
اس اقدام سے کچھ بھی نہیں ہونا تھا۔ پھر یہ کہا گیا کہ طلبہ تحریک کو ایک بار پھر جماعتِ اسلامی نے زندہ کیا یعنی پابندی لگائے جانے کے بعد دو دن بعد جماعتِ اسلامی کے قائدین نے راتوں رات بہت کچھ طے کیا اور سِول نافرمانی کی کال دے دی۔ اور پھر دنیا نے دیکھا کہ سِول نافرمانی کے نام پر جب طلبہ دوبارہ سڑکوں پر آئے تو پہلے ہی دن 100 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے جن میں 14 پولیس اہلکار بھی شامل تھے۔
اب کہا جارہا ہے کہ بنگلا دیش میں بھارت نواز حکومت پاکستان اور چین سے برداشت نہ ہوسکی اور اُنہوں نے جماعتِ اسلامی اور اُس کے اسٹوڈنٹ ونگ کے ذریعے شیخ حسینہ کی حکومتی بساط لپیٹ دی۔
بھارتی میڈیا آؤٹ لیٹس بنگلا دیش کی صورتِ حال کا تجزیہ کرتے وقت پاکستان اور چین کو لپیٹنے کی کوشش تو کر رہے ہیں مگر یہ وضاحت نہیں کی جارہی کہ مسلسل پندرہ سال سے اقتدار کے بھرپور مزے لُوٹنے والی جماعت یعنی عوامی لیگ کے کارکن اور قائدین کہاں چلے گئے۔ جو سیاسی جماعت پندرہ سال تک ایوانِ اقتدار میں رہے وہ اِتنی کمزور کیسے ثابت ہوسکتی ہے کہ اِدھر چند طلبہ سڑکوں پر آئیں اور اُدھر وہ غائب ہوجائے؟
بنگلا دیش کے میڈیا پر کیے جانے والے تجزیے میں ایسی کوئی بات نہیں کہی جارہی کہ طلبہ تحریک میں پاکستان، چین یا کسی اور ملک کا ہاتھ تھا۔ بنگلا دیشی نیوز چینلز بھی ایسی کوئی بات نہیں کہہ رہے۔ ایک طرف تو یہ کہا جاتا ہے کہ جماعتِ اسلامی ایک معمولی جماعت ہے جو چند نشستیں حاصل کرسکتی ہے، بس۔ اور دوسری طرف، یقیناً کامیڈی کی مد میں، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جماعتِ اسلامی حکومت کے خلاف محض سازش نہیں کرتی بلکہ اُس کا دھڑن تختہ کردیتی ہے۔
بھارتی میڈیا کی پروپیگنڈا مشینری کا واویلا اپنی جگہ، بنگلا دیشی عوام اچھی طرح جانتے ہیں کہ بنگلا دیش میں جو کچھ بھی ہوا ہے اُس کی وجوہ خود عوامی لیگ کے بدمعاشانہ اقتدار نے پیدا کی تھیں۔ عوامی لیگ یہ سمجھ رہی تھی کہ اب اُسے ایوانِ اقتدار سے کوئی نہیں نکال سکتا۔ شیخ حسینہ مسلسل چوتھی بار وزیرِاعظم بنیں تو اُن کے ذہن میں یہ خناس سماگیا کہ اب وہ تاحیات وزیرِاعظم ہیں اور ملک صرف اور صرف اُن کی مرضی سے چلے گا۔
یہی وہ سوچ تھی جس نے بنگلا دیش کی نئی نسل کو سوچنے پر مجبور کیا اور پھر اُنہوں نے سڑکوں پر آنے کا فیصلہ کیا۔ سب سے زیادہ قابلِ ذکر نکتہ یہ ہے کہ طلبہ تحریک سے جڑے ہوئے لوگ سر سے کفن باندھ کر نکلے تھے اور اُنہوں نے طے کرلیا تھا کہ معاملے کو آر یا پار کے انداز سے نمٹایا جائے گا۔ اور یہی ہوا۔
بھارتی پروپیگنڈا مشینری یہ بھول گئی ہے کہ بنگلا دیش کی تحریک میں شامل ایک ایک نوجوان اُسی دھرتی کا ہے۔ کسی نے باہر سے آکر طلبہ تحریک کی قیادت نہیں کی۔ قائدین بھی اُسی سرزمین کے تھے اور ہیں۔
پاکستان اور چین کا نام لے کر بھارتی میڈیا کی پروپیگنڈا مشینری عالمی برادری میں دونوں ملکوں کا امیج گندا کرنا چاہتی ہے۔ بنگلا دیش میں حکومت کا تختہ الٹے جانے کا ملبہ آئی ایس آئی اور چین پر ڈالنے سے یہ حقیقت بدل نہیں جائے گی کہ بنگلا دیش میں جو کچھ بھی ہوا وہ وہاں کے لوگوں نے کیا اور اپنے حالات کے ہاتھوں مجبور ہوکر کیا۔