بین الاقوامی سیاست میں امریکا اور اسرائیل کا ایک گٹھ جوڑ ہے، اور بالخصوص مشرق وسطیٰ کی سیاست میں جس طرح امریکا اسرائیل کی سرپرستی کرتا وہ تو پوری دنیا جانتی ہی ہے لیکن پچھلے سال کے اکتوبر کی سات تاریخ سے فلسطینیوں کا جو قتل عام شروع کیا ہوا ہے اس میں اسرائیل کو قدم قدم پر امریکا کی مشفقانہ سرپرستی حاصل رہی ہے۔ اب تک 40 ہزار فلسطینی اسرائیلی بمباری سے شہید ہوچکے ہیں یہ تو وہ تعداد ہے جن کے جسد خاکی ہاتھ میں آئے اور پھر انہیں دفنا دیا گیا۔ لیکن فلسطینیوں کی ایک بہت بڑی تعداد وہ ہے جو مسنگ پرسن ہیں اب خدا ہی جانے کہ وہ اسرائیل کی قید میں ہیں یا انہیں قتل کرکے کہیں دفنا دیا گیا جب جنگ ختم ہوگی تو جگہ جگہ سے اجتماعی قبروں کی دریافت ہوگی یہ تعداد بھی کئی ہزاروں میں جاسکتی ہے لیکن اس سے بھی کہیں زیادہ تعداد ان لوگوں کی ہیں جو ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔ جنگ کے بعد جب غزہ کا ملبہ صاف کیا جائے گا تو ہزاروں کی تعداد میں ملبے میں دبی ہوئی لاشیں ملیں گی۔ اس لیے میرا خیال ہے کہ فلسطین کے شہداء کی تعداد ایک لاکھ سے ڈیڑھ لاکھ کے درمیان ہے۔
31 جولائی کے دن اسماعیل ہنیہ کی شہادت پر اگر اسرائیل یہ سمجھتا ہے کہ جنگ ختم ہوگئی یہ اس کی بھول ہے بلکہ جنگ تو اب شروع ہوئی ہے اسرائیل اور امریکا کے خوف کا یہ حال ہے کہ دونوں میں سے کسی نے بھی اسماعیل ہنیہ کے قتل کی ذمے داری لینے سے راہ فرار اختیار کی ہے۔ امریکا نے تو صاف انکار کردیا کہ اس قتل میں امریکا کا کوئی ہاتھ ہے، اسرائیل کا عجیب وغریب بیان آیا ہے کہ تہران کی اس بلڈنگ میں حماس مجاہدین چھپے ہوئے تھے۔ اسماعیل ہنیہ سے قبل حماس کے دیگر رہنمائوں کو بھی اسرائیل نے قتل کیا۔ جنوری 1996 میں اسرائیل نے غزہ میں حماس کے فوجی رہنما یحییٰ عیاش کو شہید کیا۔ مارچ 2004 میں حماس کے بانی شیخ احمد یاسین کو شہید کیا جبکہ ایک ماہ بعد اپریل 2004 میں شیخ احمد یاسین کے جانشین عبدالعزیز رنتیسی بھی غزہ میں اسرائیلی میزائل حملے میں شہید ہوئے۔ جنوری 2024 میں حماس کے سینئر اہلکار صالح العروری بیروت میں اسرائیلی ڈرون حملے میں شہید کیے گئے۔ اب اسرائیل نے ایرانی صدر کی تقریب حلف برداری شرکت کرنے والے حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کو گائیڈڈ میزائیل سے شہید کردیا۔
اسرائیل نے 24 گھنٹے گزر جانے کے باوجود نہ تو حملے کی ذمے داری قبول کی ہے اور نہ ہی تردید کی ہے۔ ایرانی میڈیا کے مطابق اسماعیل ہنیہ کی شہادت سے متعلق ابھی شواہد و تفصیلات کی جانچ کی جارہی ہے حتمی معلومات حاصل ہونے پر میڈیا کو آگاہ کردیا جائے گا۔ قطر کے نشریاتی ادارے الجزیرہ نے انکشاف کیا ہے اسماعیل ہنیہ کے قتل میں ایرانی حکومت کے مخالفین اور اسرائیلی انٹیلی جنس موساد نے اہم کردار ادا کیا ہوگا جنہیں امریکی انٹیلی جنس کی بھی مدد حاصل ہوگی جبکہ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے اسماعیل ہنیہ کی موت میں کسی بھی صورت میں امریکا کے ملوث ہونے کی تردید کی ہے جبکہ اسرائیل نے اس معاملے پر حیران کن طور پر تاحال طویل چپ سادھ رکھی ہے۔ قطر یونیورسٹی کے پروفیسر حسن براری کا کہنا ہے کہ وہ اسماعیل ہنیہ کے قتل پر حیران نہیں ہوئے یہ اسرائیل کی اعلان کردہ پالیسی ہے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کہتے رہے ہیں کہ وہ غزہ کے اندر یا باہر حماس کے رہنمائوں کو نشانہ بنائیں گے۔ جب اسرائیل نے دمشق میں ایرانی قونصل خانے کو نشانہ بنایا تو ایرانیوں نے کس طرح ردعمل ظاہر کیا اور کس طرح عالمی برادری نے اسرائیل کی پشت پناہی کی اور جنگ کے امکان کو ختم کرنے کی کوشش کی۔ امیر جماعت اسلامی صوبہ سندھ محمد حسین محنتی نے کہا ہے کہ حماس سربراہ کی شہادت ایرانی انٹیلی جنس کی ناکامی ہے۔ ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو ایک اتنا بڑا ایونٹ جس میں دنیا بھر کے سربراہان مملکت یا ان کے نمائندے شریک تھے ایرانی حکومت نے سیکورٹی کے فول پروف انتظامات تو کیے ہوں گے لیکن اس کے باوجود ایرانی حکومت کو اپنے انٹیلی جنس اداروں کی کارکردگی چیک کرنا ہوگی۔ ایران کے سابق صدر کے ہیلی کاپٹر حادثے کو موسم کی خرابی کا نام تو دیا گیا جبکہ اس کے ساتھ کا دوسرا ہیلی کاپٹر اسی موسم میں صحیح و سلامت واپس آگیا۔ ایسا لگتا ہے کہ ایران کے قریبی سمندروں میں امریکی جدید بحری بیڑوں نے گھیرا ڈالا ہوا ہے ان بحری بیڑوں میں ہوسکتا ہے کہ ایسا کمپیوٹرائزڈ سسٹم ہو جس میں ایران کی اہم تنصیبات نشانے پر ہوں۔ اسی طرح الجزیرہ کی اس رپورٹ کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ اس سانحے میں ایرانی حکومت کے مخالفین کا ہاتھ ہو کہ آج ہی نیویارک ٹائم کی ایک خبر ہے کہ اسماعیل ہنیہ کے کمرے میں پہلے سے ٹائم بم لگا ہوا تھا جو ریموٹ کنٹرول سے اُڑا دیا گیا اگر اس خبر میں کوئی صداقت ہے تو اس کا مطلب ہے کہ کچھ ایرانی حکومت کے مخالفین بھی اس سازش میں ملوث ہو سکتے ہیں۔
ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے کہا ہے کہ اسماعیل ہنیہ کے قتل کا بدلہ لینا تہران کا فرض ہے انہوں نے کہا کہ اسرائیل نے اپنے لیے سخت سزا کی بنیاد فراہم کی ہے مجرم اور دہشت گرد صہیونی حکومت نے ہمارے گھر میں ہمارے مہمان کو شہید کیا اور ہمیں سوگوار کیا آیت اللہ خامنہ ای نے کہا کہ اسماعیل ہنیہ نے ایک قابل عزت راہ میں جان دائو پر لگا کر جدوجہد کی اور شہادت کے لیے ہمیشہ تیار رہے جبکہ انہوں نے اپنے لوگ اور بچے بھی اس راہ پر قربان کیے۔
نائب امیر جماعت اسلامی لیاقت بلوچ نے کہا ہے کہ اسماعیل ہنیہ کے خاندان کے بیش تر افراد شہید ہو گئے، لیکن ان کے ماتھے پر مایوسی یا ملال نہیں آیا آج وہ خود شہادت پا گئے۔ ایرانی صدر کے بعد ان کی شخصیت ہی تقریب کی مقبول ترین شخصیت تھی ایران میں ٹارگٹ بناکر اسماعیل ہنیہ کو شہید کرنا بڑی گہری سازش ہے کہ فلسطینیوں کے حوصلے پست ہوں ایران جو فلسطین کی آزادی کی تحریک کا پشتیبان ہے اس کے خلاف سازش اور عالم اسلام کے درمیان ازسرنو تفریق اور تفرقے کی سازش ہوسکتی ہے ہمیں یقین ہے کہ اسماعیل ہنیہ کی شہادت عالم اسلام میں نئی لہر پیدا کرے گی۔ فلسطین کے عوام اور زیادہ عزم و ہمت اور جوش و جذبے کے ساتھ اپنے وطن کی آزادی کے لیے مزاحمت جاری رکھیں گے۔
ایران کو اسرائیل سے اسماعیل ہنیہ کی شہادت کا بدلہ لینا چاہیے اگر ایران بدلہ نہیں لیتا تو اس کا مطلب ہوگا کہ اسرائیل اور امریکا کے گٹھ جوڑ سے فلسطینی رہنما پر حملے اور قتل کی سازش میں ایران بھی شامل ہے ایران انتہائی کمزور ملک ہے اس کی انٹیلی جنس انتہائی کمزور ہے ایران کے اپنے اندر کے مسائل اور معاملات اتنے پیچیدہ ہیں وہ کسی بھی صورت میں اسرائیل پر حملے کا سوچ بھی نہیں سکتا عملی طور پر دیکھیں تو جب سے یہ معاملات چل رہے ہیں ایران نے سوائے زبانی کلامی نعروں کے کچھ بھی نہیں کیا نہ ہی ایران سے توقعات رکھی جاسکتی ہیں۔ اب اس سوال پر غور کریں کہ شہادت سے فلسطین میں جنگ ختم ہو جائے گی یا اس جنگ کا نیا آغاذ ہوگا۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن نے شہید کی نماز جنازہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مسجد اقصیٰ کی آزادی کی تحریک آگے بڑھے گی اب فلسطین کی آزادی کو کوئی نہیں روک سکتا۔ اسماعیل ہنیہ کی شہادت ہمارے اندر ایک روح پھونک رہی ہے امریکا اور اسرائیل اس تحریک کو روک نہیں سکیں گے انہوں نے کہا کہ فلسطینیوں کی کوئی ریگولر آرمی نہیں ہے لیکن انہوں نے بتادیا کہ کس طرح بے دست و پا لڑا جاسکتا ہے مزاحمت ہی میں زندگی ہے، فلسطینی مزاحمتی تحریک جاری ہے، حماس پوری دنیا کے لیے ایک رول ماڈل ہے۔