طلبہ تحریک صرف تیلی تھی

392

کیا بین الاقوامی قوتوں نے بنگلا دیش کو ایک بار پھر نشانے پر لے لیا ہے؟ جو کچھ اس وقت بنگلا دیش میں ہو رہا ہے وہ انتہائی خطرناک اور انتہائی تشویش ناک ہے۔ کئی عشروں کی محنت کے بعد بنگلا دیش میں جو سیاسی اور معاشی استحکام پیدا ہوا تھا اْسے عوامی لیگ کے تسلسل ِ اقتدار نے ٹھکانے لگادیا۔ وزیر ِاعظم شیخ حسینہ واجد کی پالیسیوں نے معاملات کو پوائنٹ آف نو ریٹرن تک پہنچایا۔

بنگلا دیش میں عوامی لیگ کی حکومت ڈیڑھ عشرے سے جو کچھ کر رہی تھی اْس کے نتیجے میں ایک دن تو بارود کے اِس ڈھیر کو پھٹنا ہی تھا۔ اپوزیشن کی جماعتوں پر الزام دھرتے ہوئے شیخ حسینہ واجد کی حکومت پتلی گلی سے نکلنا چاہتی تھی مگر ایسا نہ ہوسکا۔ فوج نے بھی اْس کا حکم ماننے سے انکار کردیا تھا۔ حالات کی سنگینی کا اندازہ اِس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ طلبہ تحریک چلانے والوں نے سِول نافرمانی کی کال دی اور پہلے ہی دن ایسی ہنگامہ آرائی ہوئی کہ 100 سے زائد افراد ہلاک ہوگئے۔ ان میں 14 پولیس اہلکار بھی شامل تھے۔ سراج گنج کے عنایت پور پولیس اسٹیشن پر حملے میں یہ ہلاکتیں واقع ہوئیں۔

بنگلا دیش میں فوج ایوانِ اقتدار کا باضابطہ حصہ نہیں۔ دو عشروں سے بھی زائد مدت سے فوج کے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں۔ سابق آرمی چیف اقبال کریم بھوئیاں نے بھی کال دی تھی فوج کسی بھی حال میں مظاہرین سے نہ ٹکرائے۔ ایک پریس کانفرنس میں اْنہوں نے کہا تھا کہ عوام سے ٹکرانا فوج کے لیے زیبا نہیں۔ لازم ہے کہ جہاں تک ممکن ہو، عوام کا ساتھ دیا جائے، اْن کا تحفظ یقینی بنایا جائے۔

بنگلا دیش کئی عشروں تک شدید سیاسی و معاشی بحران کا شکار رہا۔ عوام کے لیے معیاری زندگی بسر کرنا ایک خواب سا ہوکر رہ گیا تھا۔ معاشی ابتری نے معاملات کو بہت الجھادیا تھا۔ ڈاکٹر محمد یونس جیسے ماہرین نے گرامین بینک اور دیگر اداروں اور منصوبوں کے ذریعے عوام کو ڈھنگ سے جینے کے قابل بنایا۔ 15 سال قبل جب عوامی لیگ نے دوبارہ اقتدار پر تصرف حاصل کیا تب معاملات ایک بار پھر بگڑنے لگے۔ بھارت نے بنگلا دیش کو اپنا بغل بچہ بناکر رکھنے کی کوشش کی ہے۔ دوسری طرف علاقائی طاقتیں بنگلا دیش کو بھی مضبوط کرنے کی کوششوں میں مصروف رہی ہیں۔ چین نے وہاں سرمایہ کاری بڑھانے میں غیر معمولی دلچسپی ظاہر کی۔ روس بھی کچھ دور اِسی راہ پر چلا مگر شیخ حسینہ واجد نے ایوانِ اقتدار میں داخل ہوتے ہی بنگلا دیش کو ایک بار پھر بھارت کے آغوش میں دے دیا۔ تین سال کے دوران بنگلا دیش کے عوام میں یہ احساس تیزی سے پروان چڑھا ہے کہ شیخ حسینہ واجد نے ملک کو ایک بار پھر ہر اعتبار سے بھارت کا بغل بچہ بنادیا اور ہر معاملے میں صرف اْسی کو آگے رکھا جاتا ہے۔ اس حوالے سے شیخ حسینہ کے خلاف جذبات پنپ چکے تھے۔ تین سال سے بنگلا دیش میں اینٹی بھارت مہم چل رہی تھی۔ بھارتی مصنوعات و خدمات کا بائیکاٹ کیا جارہا تھا۔ بھارت پر بنگلا دیش کے انحصار کو خطرناک حد تک شیخ حسینہ واجد نے پہنچایا۔

لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ طلبہ تحریک دھماکا تھی۔ جی نہیں، بارود کا ڈھیر تو پہلے سے موجود تھا۔ طلبہ تحریک نے تو صرف تیلی کا کردار ادا کیا۔ لوگ بھرے بیٹھے تھے۔ اپوزیشن جماعتیں ایک مدت سے تیاری کی حالت میں تھیں۔ مناسب موقع کا انتظار تھا۔ عوامی لیگ کی خالص بھارت نواز حکومت کا خاتمہ یقینی بنانے کے لیے جواز کا انتظار تھا۔ یہ جواز طلبہ تحریک نے بخوبی فراہم کیا۔ بنگلا دیش میں جو کچھ ہوا اْس کے بارے میں سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا۔ بنگلا دیش کے عوام ایک زمانے سے شیخ حسینہ سے نالاں تھے۔ وہ شاید اس خیال سے ڈرتے تھے کہ اگر وہ سڑکوں پر آئے تو ملک کا معاشی استحکام داؤ پر لگ جائے گا۔ سمجھا جارہا تھا کہ شیخ حسینہ بہت مضبوط ہیں مگر جب لوگ گھروں سے نکلے تو ساری مضبوطی دو دن میں دم توڑ گئی۔

بنگلا دیش میں عبوری حکومت قائم کردی گئی ہے۔ آرمی چیف جنرل وقار الزماں نے کہا ہے کہ شیخ حسین واجد سے استعفا نہیں لیا گیا بلکہ اْنہیں برطرف کیا گیا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ بنگلا دیشی فوج عبوری حکومت کو مستقبل حکومت میں بدلنے میں کتنا وقت لیتی ہے۔ بنگلا دیش اس بات کا حقدار ہے کہ وہاں حقیقی نمائندہ حکومت قائم ہو۔ سیاسی قائدین کو آگے بڑھ کر معاملات سلجھانے چاہئیں تاکہ ایک بار پھر فوج کے اقتدار کی راہ ہموار نہ ہو۔ شیخ حسینہ کو برطرف کیا گیا ہے تاہم پارلیمنٹ تو موجود ہے۔ پارلیمنٹ میں موجودہ سیاسی قوتوں کو ساتھ بٹھاکر قومی اتفاقِ رائے کی حکومت قائم کرنا ہی ملک کو آگے لے جانے کی راہ ہموار کرسکتا ہے۔

جو کچھ بھی بنگلا دیش میں ہوا ہے وہ خطے کے بہت سے ملکوں کے لیے سبق ہے۔ پاکستان میں بھی ایک زمانے سے کسی بڑی تبدیلی کی راہ دیکھی جارہی ہے، چند ایک جماعتیں ہی عوام کو سڑکوں پر لانے میں کامیاب رہی ہیں۔ بیش تر بڑی سیاسی جماعتیں کسی نہ کسی شکل میں اقتدار سے چمٹی رہنا چاہتی ہیں۔ بنگلا دیش کے نوجوانوں نے کامیاب تحریک چلاکر خطے کے تمام ممالک کے نوجوانوں کو پیغام دے دیا ہے کہ اگر وہ بھی اپنے ملک کے حالات کو بدلنے یا پلٹنے کے لیے میدان میں آئیں تو بہت کچھ ہوسکتا ہے۔ بنگلا دیش میں زیادہ عدم استحکام بھی نہیں پھیلا اور حکومت چلی گئی۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ حکومت جتنی مضبوط دکھائی دیتی تھی اْس کے 10 فی صد کے برابر بھی مضبوط نہیں تھی۔ خطے کے تمام سمجھداروں کے لیے اشارہ کافی ہے۔
(میڈیا فیڈ کی مدد سے تیار کیا گیا۔)