ہانیہ بھی نہیں رہے:
یہ ہفتہ بھی گزشتہ 10 ماہ کی طرح غزہ میں شہادتوں کا ڈھیر لیے ہوئے تھا۔ اس میں تحریک مزاحمت کے رہنما اور فلسطین کے مقبول ترین منتخب وزیراعظم اسماعیل ہنیہ کی ایران میں، حزب اللہ کمانڈر فواد شکر کی بیروت میں، اور حماس کے کمانڈر محمد دائف کی غزہ میں اندوہناک شہادتیں موضوع بن گئیں۔ ایسے لوگ عشروں میں تیار ہوتے ہیں۔ فواد پر تو امریکا نے 50 لاکھ ڈالر کا انعام رکھا ہوا تھا۔ اس کے علاوہ ’الجزیرہ‘ کے دو صحافیوں اسماعیل اور الرفیع کو نشانہ لے کر اُس وقت شہید کردیا گیا جب وہ اسرائیلی درندگی دنیا کو دکھا رہے تھے۔ شیخ یاسین سے شروع ہونے والا شہادتوں کا سفر عزیمت کی نئی منازل طے کرچکا ہے۔ نہ صرف اسماعیل ہنیہ کا خاندان اس جدوجہد میں قربان ہوچکا، بلکہ اب تو غزہ کے ہر گھر کا یہی حال ہے۔ وہ صرف بارود سے ہی نہیں بلکہ بھوک، موسم کی شدت، علاج کی عدم سہولت، پانی، بے سرو سامانی سمیت ہر طرح کی سخت آزمائش میں گھرے ہوئے ہیں۔ کسی لغت میں کوئی لفظ ہی نہیں جو اہلِ غزہ کی صورتِ حال کا عشرِ عشیر بھی سمجھا سکے۔ انہوں نے پوری دنیا میں امت کو مزاحمت سے جینے کا پیغام دیا۔
سوشل میڈیا پر اس خبر کے ساتھ ایک انتہائی لغو مہم چلنا شروع ہوئی جسے دیکھ کر مزید دھچکا لگا۔ جنہوں نے زندگی میں غلیل کا ایک پتھر بھی تحریکِ مزاحمت کو نہیں دیا تھا اُن میں کسی کو کوفہ، کسی کو مہمان کی سیکورٹی یاد آرہی تھی۔ 10 ماہ سے تحریکِ مزاحمت کس کے اسلحے کے ساتھ لڑ رہی ہے یہ بتائے بغیر بے پَرکے کمنٹس کی بھرمار تھی۔ اس تقسیم سے صرف اسرائیل کو ہی فائدہ ہورہا ہے۔ ایران اس تحریک کا عَلانیہ ساتھی ہے، جبکہ باقی تو نام بھی نہیں لیتے۔ ایران مستقل امریکا اور اسرائیل کے نشانے پر ہے۔ ایران کے دو آرمی چیف امریکی و اسرائیلی حملوں کا ایسے ہی شکار ہوچکے ہیں۔ ایران کے دارالحکومت میں یہ حملہ غیر معمولی ہے، اس کا بدلہ لینے کے لیے ایران جو چاہے کرے، مگر پچاس سے زائد اسلامی ممالک کل بھی خاموش تھے، آج بھی خاموش ہیں۔ یقین مانیں مصنوعات کا بائیکاٹ تک ہم سے نہیں ہوسکا۔ پیپسی کو ’’ٹیم‘‘ لانچ کرنی پڑگئی، ’’کولا نیکسٹ‘‘کے مالکان اغوا ہوگئے مگر لوگوں کے منہ سے اب بھی کے ایف سی ، مکڈونلڈ، پیپسی،کوک، نیسلے چھوٹ کے نہیں دے رہے۔ ہم مغموم ہیں، شرمندہ ہیں، اپنے وجود پر ندامت ہے کہ کچھ بھی نہیں کر پا رہے۔
اولمپکس:
اولمپک کھیلوں کی تاریخ تقریباً 3000 سال پہلے قدیم یونان کے پیلوپونیس سے جوڑی جاتی ہے۔ 1894ء میں فرانسیسی ماہرِ تاریخ نے معاصر اولمپک کی تشکیل کی، جس کا پہلا ایڈیشن 1896ء میں ایتھنز، یونان میں منعقد ہوا۔ اِس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ سب ممالک آپس میں لڑتے رہتے تھے اور دشمنی بڑھتی رہتی تھی، تو اس مسابقت کو کھیلوں میں ڈھال دیا گیا۔ اس لیے اولمپک کھیلوں کو باہمی صلح کی روایت سے جوڑا گیا اور اس دوران تمام جنگیں روک دی جاتی تھیں، یوں بظاہر امن قائم ہوجاتا۔ پیرس اولمپکس کے منتظمین کا سمجھنا ہے کہ کھیل زندگیاں اور تعلقات بدل سکتے ہیں، تاہم یہ سب سرمایہ دارانہ نظام کے فروغ کی منظم عالمی سرگرمی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ محض کھیل برائے کھیل نہیں، کھیل برائے صحت بھی نہیں، کھیل برائے امن بھی نہیں۔ کیسے نہیں ہے؟ اِس کے دلائل آگے پڑھنے پڑیں گے۔
چند پرانے واقعات:
ہٹلر کی میزبانی میں 1936ء کے برلن اولمپکس میں یہودی کھلاڑیوں کے خلاف متعصب رویہ اپنایا گیا۔ جنوبی افریقا کو کالوں کے ساتھ اپارتھیڈ پالیسیوں کی بنا پر کئی سال اولمپکس میں حصہ لینے سے روک دیا گیا تھا۔ جنگِ عظیم دوم کے بہانے 1948ء کے اولمپکس میں جاپان اور جرمنی کو شرکت کی اجازت نہیں دی گئی۔ زمبابوے کو 1972ء میں روک دیا گیا، 2000ء میں افغانستان کی ٹیم کو روک دیا گیا کہ اُن کو طالبان کی حکومت کی پالیسیاں پسند نہیں تھیں۔1972ء میں میونخ میں 11 اسرائیلی کھلاڑی ایک حملے میں مارے گئے، گو کہ اُس وقت ’ٹیررسٹ‘ اصطلاح نہیں تھی، پھر بھی اسی عنوان سے آج اسے جوڑا جاتا ہے۔ یہ اولمپک کی دیگ کے صرف چند چاول ہیں، ایونٹ کی ’نان نیوٹرل‘ پوزیشن سمجھانے کے لیے۔
منافقت کا گولڈ میڈل:
امسال فرانس کے شہر پیرس میں یہ اولمپکس ہورہے ہیں جو 26 جولائی سے 11 اگست تک جاری رہیںگے۔ پیرس اولمپکس 2024ء میں کُل 32 کھیل شامل ہیں جن کے 329 مقابلے ہوں گے۔ کچھ نئے کھیل مثلاً بریک ڈانس، اسکیٹ بورڈنگ، سپورٹ کلائمبنگ، اور سرفنگ شامل کیے گئے۔ فرانس نے اولمپکس کی آڑ میں جو گھنائونے اور ہولناک کام کیے ہیں، اُن پر احتجاج جاری ہے۔ معروف برطانوی مسلم صحافی ایون ریڈلی نے تو فرانس کو منافقت کا گولڈ میڈل دے دیا۔ روسی وزارتِ خارجہ نے پیرس اولمپکس میں حجاب پہنی کھلاڑی پر پابندی کی مذمت کی، جس سے یہ معاملہ مزید اُٹھا۔ اِس سے پہلے روس اور بیلاروس کے کھلاڑیوں کو بھی بہانوں سے الگ کیا گیا تھا جبکہ اولمپک سے ایک ماہ قبل عوام کا مستقل مطالبہ تھا کہ سابقہ اولمپک پالیسیوں کے تحت اسرائیل کو باہر کیا جائے کیونکہ عالمی عدالت بھی اب اس کو جنگی مجرم کہہ چکی تھی۔ مگر اولمپک کمیٹی نے اتنے احتجاج، اتنی درخواستوں اور اپنے قواعد کے خلاف معاملے پر کان نہیں دھرے اور اسرائیل کی ٹیم کو انٹری دے دی۔ یہ سب کام امن، مساوات، رواداری جیسے جعلی لیبل کے تحت کیا گیا۔ پھر سیکولرازم کو اپناتے ہوئے اُن خواتین کھلاڑیوں کو باہر کیا گیا جو سر پر حجاب رکھنا چاہتی تھیں۔ سیکولرازم کی مذہبی قدر سے نفرت اتنی زیادہ ہے کہ وہ عورت کے ننگے بازو، ننگی ٹانگیں قبول کرلیتا ہے لیکن اگر وہ ننگی لڑکی سر پر محض کپڑا رکھنا چاہے تو مذہب کی وجہ سے وہ اس کو بھی قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتا (گوکہ خواتین کا باہر نکلنا ہی اصل مسئلہ ہے)۔ یہ وجوہات تھیں جن کی وجہ سے ایون ریڈلی نے فرانس کو منافقت کے گولڈ میڈل کا حق دار قرار دیا۔ بات یہاں تک نہیں رہی، مزید کیا ہوا یہ بھی دیکھیں۔
شرم ناک گستاخیاں:
اولمپکس کی افتتاحی تقریب سین دریا پر ہوئی جو سب سے زیادہ متنازع بنی۔ 26 جولائی کو 4گھنٹے کی افتتاحی تقریب کے اس گھنائونے تماشے میں زبردستی ’بائبل‘ کے آخری مضمون ’لاسٹ سپر‘کو بھی پیش کیا گیا۔ یہ اتنا گھنائونا فعل تھا کہ عیسائیوں کو اس قدر شرمندگی ہوئی اور غصہ آیا کہ ایک امریکی صحافی نے لکھا ’’توہینِ مذہب کی تلافی کے لیے دعا کرنی چاہیے، روزہ رکھنا چاہیے تھا‘‘۔ پیرس اولمپکس کے منتظمین نے اس ردعمل پر معافی نامہ جاری کیا، لیکن جواب دیا کہ اُن کا ارادہ ’لاسٹ سپر‘ کی منظرکشی کا نہیں تھا، بلکہ انہوں نے یونانی دیوتا ڈیونیسس کی منظرکشی کی تھی۔ اُن کا یہ جواب کسی کی سمجھ میں نہیں آیا۔ اِس متنازعہ افتتاحی تقریب میں صرف بائبل کی پیروڈی نہیں کی گئی بلکہ ایک زرہ پہنے دھاتی گھوڑے پر اولمپک پرچم کے ساتھ لڑکی کی انٹری تھی۔ لوگوں نے اس کو فرانسیسی نژاد مذہبی لڑکی سینٹ جون آف آرک سے تشبیہ دی جس نے 15 ویں صدی میں عیسائیت کی مذہبی اقدار بچانے کے لیے انگریزوں سے جنگ کی تھی۔ لیکن منتظمین نے اُس کو بھی اپنے جواب میں کسی یونانی دیوتا سے جوڑ دیا۔ ایک اور متنازع منظر میں ایک گلوکار کو ملکہ میری اینٹوینیٹ کے سر کٹے ہوئے جسم کا روپ دھارتے دکھایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ہم جنس پرستوں کو زبردستی نمائندگی کے نام پر ٹھونسا گیا اور اس کا رنگ بھی مذہبی بنایا گیا۔ یہ ٹھیک ہے کہ اولمپکس کا تعلق یونان سے ہے، مگر بڑے عیسائی مبلغین، جو ساری تاریخ جانتے ہیں، وہ سب ایک ہی بات کررہے ہیں کہ یہ غلط ہوا ہے تو ہمیں بھی ماننا ہی ہوگا۔ ویٹی کن سٹی سے تمام بشپ اور عیسائیوں کی موجودہ تمام مذہبی قیادت نے پیرس اولمپکس میں ہونے والے اس عمل کو مسترد کیا ہے اور اسے دنیا بھر میں کیتھولک عیسائیوں کے مذہبی جذبات مجروح کرنے کے مترادف قرار دیا ہے۔
سوشل میڈیا پر ردعمل:
افسوس یہ ہے کہ وزیر اعظم پاکستان کے مشیر رانا ثناء اللہ بھی وہاں موجود ہیں۔ اصولاً تو اُن سے مطالبہ ہونا چاہیے کہ وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اہانت کے سنگین معاملے پر اپنا مؤقف ریکارڈ کرائیں۔ حال یہ ہے کہ عیسائی دنیا سے شدید ردعمل آگیا ہے۔ ذرا تصور کریں، یہ وہ لوگ ہیں جہاں مذہبی آزادی کا نعرہ ہے، ہر چیز کے اظہار کی آزادی ہے۔ دوسری طرف مسلمان ہے، جو تمام انبیائے کرام کی ذاتِ اقدس پر ایمان لایا ہے اور سب کی تکریم کرتا ہے۔ ذرا دیکھیں تو سہی کہ عیسائی دنیا نے ردعمل میں کس جانب اشارے کیے ہیں۔
ایلون مسک نے ایکس پر پوسٹ کیا: ’’اگر سچ اور حق کے لیے کھڑے ہونے کی بہادری نہ ہوگی تو عیسائیت ختم ہوجائے گی‘‘۔ سیاست دانوں کو بھی اس منظر سے نفرت ہوئی، یورپی پارلیمنٹ کی کیتھولک فرانسیسی رکن ماریون ماریچیل نے ایکس پر جاکر کہا: ’’دنیا کے اُن تمام عیسائیوں کے لیے جو پیرس کی تقریب دیکھ رہے ہیں اور لاسٹ سپر کی اس ڈریگ کوئن پیروڈی سے بے عزتی محسوس کررہے ہیں، جان لیں کہ یہ فرانس نہیں ہے جو بول رہا ہے بلکہ ایک بائیں بازو کی اقلیت ہے جو کسی بھی اشتعال انگیزی کے لیے تیار ہے۔‘‘ امریکی ریاست مینی سوٹا کے بشپ رابرٹ بیرن نے کہا کہ ’’فرانس نے، جسے چرچ کی سب سے بڑی بیٹی کہا جاتا ہے، واضح طور پر عیسائیت کے اس مرکزی سبق کا مذاق بنایا ہے۔ کیا وہ کبھی اسلام کا اسی طرح مذاق اڑانے کی ہمت کریں گے؟ اِس انتہائی سیکولر، مابعد جدید معاشرے میں عیسائیوں کو تقدیس مذہب کی خاطر’مزاحمت‘ کرنی چاہیے۔‘‘
حل تو مزاحمت ہی ہے:
ہمیں سمجھنا ہوگا کہ یہ سیکولرازم، مذہب کو ختم ہی نہیں کرتا بلکہ اس کی تضحیک، اس سے نفرت پیدا کرکے وہ ساری عقیدت ختم کردیتا ہے جو آپ سے اپنے مذہب پر عمل کرواتی ہے۔ ڈاونچی بنائے یا کوئی اور، جب پہلی بار دستیاب انجیل کے اسباق کو تصویری شکل میں چاہے نیک مقصد کے لیے سہی، شروع کیا گیا، وہی آغاز تھا تباہی کا۔ اس لیے مقدسات کی توہین کے خلاف سخت قانون ہر ملک میں بننا چاہیے۔ اس کی سزا بھی تمام سزائوں سے منفرد اور سخت ترین ہی ہونی چاہیے۔ اس قانون کا نہ ہونا ہی سارے مسائل جنم دیتا ہے، جیسے مغرب کے اندر آج ہورہا ہے۔ بشپ صاحب! اس توہین پر روزے اور دعائیں نہیں کی جاتیں، سخت جواب دیا جاتا ہے کہ آئندہ کوئی ہمت نہ کرے۔ میں اپنی دو سال قبل کی تحریر سے حوالہ دوں کہ جب آسکر ایوارڈ کی تقریب میں امریکی اداکار ول اسمتھ نے اسٹیج پر جاکر میزبان کو تھپڑ مارے، اُس میزبان نے صرف ایک مزاحیہ جملہ بولا تھا ول اسمتھ کی بیوی کے بارے میں جو خود بھی اداکارہ و گلوکارہ تھی۔ مگر ول اسمتھ سے برداشت نہ ہوا، اُس نے بھری مجمع کے سامنے اُس ساتھی اداکار کے منہ پر تھپڑ دے مارا، گالیاں دیں اور کہا کہ میری بیوی کا مذاق نہ بنائو۔ بس یہ مثال بہت کچھ سمجھانے کے لیے کافی ہے۔
چیف جسٹس پر انعام:
علامہ ظہیر الحسن نے قادیانی مبارک ثانی کو جیل سے رہا کرنے اور اُس کو تحریفِ قرآن کی عدالتی اجازت دینے کے خلاف ایک کروڑ روپے کا انعام چیف جسٹس آف پاکستان کے سر کی قیمت کے طور پر پیش کردیا۔ یہ تقریر دیکھتے ہی دیکھتے وائرل ہوگئی۔ لوگ ثواب سمجھ کر بڑھا رہے تھے۔ فتویٰ اُن کا ذاتی تھا مگر اُن کی جماعت کے خلاف کریک ڈائون شروع ہوگیا۔ سب کی نظریں تھیں کہ کیا ہوگا مگر 30 جولائی کو اسمبلی اجلاس شروع ہوا تو حیرت انگیز طور پر حامد رضا، علی محمد، غفور حیدری، حنیف عباسی اور عبدالقادر پٹیل نے جو ردعمل دیا اس کے کلپس بھی وائرل ہوگئے۔ یہ ٹھیک ہے کہ کسی نے علامہ ظہیر کا نام لے کر حمایت نہیں کی، مگر اِن سب کا مؤقف یہی تھاکہ چیف جسٹس نے اصل فتنہ پھیلایا ہے، آئین کے برخلاف فیصلہ دیا ہے اور مجبور کیا ہے کہ لوگ ایسے انعامی فیصلوں کی طرف جائیں۔