ّ5 اگست 2019، بدن کشمیر پر رستا گھاؤ

334

اگست کا مہینہ شروع ہوتے ہی اہل جموں و کشمیر کے بدن پر لگے گہرے گھاؤ تازہ ہوکر درد سے کراہنے لگتے ہیں۔ بھارت سرکار کے جابرانہ اقدام کے تحت 5 اگست 2019 کو جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے 5 سال ہوچکے ہیں۔ اگرچہ جموں و کشمیر کے عوام اجتماعی اور انفرادی طور 1947 ہی سے بھارتی ظلم و استبداد کا نہ صرف مشاہدہ کرتے آئے ہیں بلکہ دہائیوں سے عملاً سہہ رہے ہیں۔ 5 اگست 2019 بھارت کی شدت پسند حکومت کے یک طرفہ جابرانہ اقدام نے نہ صرف جموں کشمیر کی عوام کو بنیادی حقوق سے محروم کردیا ہے بلکہ بین الاقوامی قوانین اور اصولوں کو بھی ملحوظ خاطر نہیں رکھا، جو ایک بین الاقوامی جرم تھا لیکن ہندوستان کے اس جرمِ عظیم کو اقوامِ عالم کی چھوٹی، بڑی طاقتوں کے اغراض و مقاصد اور مفادات تلے دفن کرکے مظلوم قومِ کشمیر کو قابض بھارتی افواج کے رحم و کرم کے سپرد کردیا گیا ہے۔ 5 اگست 2019 کو آرٹیکل 370 اور 35A کی منسوخی کے بعد کشمیری عوام ریاستی سرپرستی میں بے مثال ظلم و جبر کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ کشمیری عوام کی رضامندی کے بغیر بھارت کے یکطرفہ فیصلے سے کشمیریوں کی خودمختاری اور شناخت چھین لی گئی، جس کی ضمانت ہندوستانی آئین کے تحت کشمیریوں کو دی گئی تھی اور اقوام متحدہ کی مختلف قراردادیں کشمیریوں کی دی گئی خصوصی حیثیت کی حمایت میں تاحال موجود ہیں۔ مقام افسوس ہے کہ بین الاقوامی ادارے بھارت کی کھلم کھلا خلاف ورزی پر نہ صرف خاموش تماشائی بنے بلکہ ہندوستان کو کشمیریوں پر ظلم و ستم ڈھانے کا بھر پور موقع فراہم کیا ہے۔ گرچہ بھارتی حکمرانوں نے روز اوّل ہی سے کشمیریوں کو ستم در ستم میں مبتلا کیے رکھا تھا لیکن خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد ارض کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں بے تحاشا اضافہ دیکھا گیا ہے جیسے غیر قانونی حراست، جسمانی اور نفسیاتی تشدد، ماورائے عدالت قتل، خواتین اور بچوں سمیت معصوم کشمیری ہندوستان کے وحشیانہ اور غیر انسانی اقدامات کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔

بھارت کے اس ظلم و جبر اور تشدد کو اقوامِ عالم کے سامنے لانے والے ادارے بدترین نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ مواصلاتی بلیک آؤٹ اور ذرائع ابلاغ پر بدترین پابندیوں نے کشمیر کو شہر خاموشاں میں بدل دیا ہے، زمینی حقائق کا پردہ چاک کرنے کی ہمت اور حوصلہ کرنے والے صحافیوں، انسانی حقوق کی تنظیموں، وکلا، تاجر، سماجی اور مذہبی حلقوں کو نہ صرف ہراساں کیا گیا بلکہ انہیں کالے قوانین کے تحت بغیر کسی شنوائی کے قید و بند کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔

5 اگست 2019 کے بعد طویل لاک ڈاؤن اور کرفیو نے جموں کشمیر کی معیشت کو مفلوج کردیا ہے، جس سے بڑے پیمانے پر بے روزگاری اور غربت میں اضافہ ہوتا گیا، ایک زمانے میں کشمیر کی ترقی پذیر سیاحت، دستکاری اور پھلوں کی صنعتیں اب تباہی کے شکار ہیں، مسلسل معاشی بدحالی اور مفقود مستقبل نے کشمیری عوام کو ذہنی دباؤ جیسے مرض میں مبتلا کردیا ہے اور آج ہر چوتھا کشمیری ڈپریشن کا شکار ہے اور کم و بیش 20 لاکھ کشمیری منشیات کی لعنت میں مبتلا ہوچکے ہیں جن میں نو عمر بچوں سے لیکر اسکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں کے طلبہ و طالبات اور ضعیف العمر مرد و زن شامل ہیں۔

بھارت سرکار کا بنیادی منصوبہ غیر کشمیریوں کو جموں کشمیر میں آباد کرکے خطے کی آبادیاتی ساخت کو تبدیل کرنے کا عمل شد و مد سے جاری ہے اور اب تک تقریباً 40 لاکھ غیر ریاستی باشندوں کو ڈومیسائلز اجراء کیے جاچکے ہیں جو کشمیر کے ثقافتی، سماجی اور مذہبی تانے بانے کے لیے خطرہ بن چکے ہیں۔

حصولِ حق کے لیے کشمیری عوام تسلسل سے عالمی برادری سے مطالبہ کرتے آئے ہیں کہ ان کے ساتھ روا رکھے گئے سنگین ناانصافیوں کو دور کرنے کے لیے فوری اور فیصلہ کن اقدام کیے جائیں اقوامِ عالم کو اس نازک وقت پر خاموشی اختیار کرنے کی اجازت نہیں جب جموں کشمیر کی پوری آبادی کو محکوم بنایا جارہا ہو اور ان کے حقوق پامال کیے جارہے ہوں۔ جموں کشمیر کی عوام اقوام متحدہ، اسلامی تعاون تنظیم، سارک تنظیم، شنگھائی تعاون تنظیم، آسیان، یورپی یونین اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ان کے حقوق کی بحالی کے انتظامات اور ان کے بنیادی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ہندوستان پر دباؤ ڈالیں۔ ان سب حالات و واقعات کے پیش نظر ریاست جموں کشمیر میں بین الاقوامی مبصرین کو زمینی صورتحال کی نگرانی کے لیے تعینات کرنے کی ضرورت ہے جو غیر جانبدارانہ رپورٹ مرتب کرکے اقوامِ عالم کے سامنے لایا جائے تاکہ دنیا کشمیریوں کے ساتھ روا رکھے گئے بھارتی حکمرانوں کے غیر انسانی سلوک اور ان کی حالت زار سے واقف ہوسکیں۔ اس کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی ادارے بات چیت کے ماحول کو سازگار بنانے میں اپنا کردار نبھائیں، کشمیر کے دیرینہ تنازعے کا پر امن اور منصفانہ حل تلاش کرنے کے لیے ہندوستان، پاکستان اور کشمیری کے درمیان بات چیت کی میز کو سجانے کا اہتمام کریں تاکہ نیوکلیائی ہتھیاروں کی خوفناک مہم جوئی سے جنوبی ایشیائی خطے کو محفوظ کیا جاسکے۔