نسلی شناخت کی سیاست

297

امریکا اور یورپ میں تارکین ِ وطن اب سیاسی سطح پر بھی غیر معمولی کردار ادا کر رہے ہیں۔ معیشت اور معاشرت میں تارکین ِ وطن کا کردار بہت پہلے سے جاندار رہا ہے۔ امریکا اور یورپ کے آجرین کی اکثریت قانونی اور غیر قانونی دونوں ہی طرح کے تارکین ِ وطن سے کام لینے کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ وہ کم اجرت پر کام کرنے پر راضی ہو جاتے ہیں۔ مغربی ممالک میں غیر قانونی طور پر داخل ہونے والوں کا آجروں کی طرف سے ہمیشہ خیرمقدم کیا گیا ہے۔ اب معاملہ یہ ہے کہ تارکین ِ وطن سیاست میں بھی اپنے آپ کو منوانے کے لیے بے تاب ہیں۔ دو بار امریکی صدر رہنے والے بارک اوباما بھی ایک تارکِ وطن کی اولاد ہیں۔ گزشتہ ماہ تک برطانیہ کے وزیر ِ اعظم رہنے والے رشی سُنک بھارتی نژاد برطانوی ہیں۔ لندن کے میئر صادق خان کا آبائی تعلق پاکستان سے ہے۔ امریکا کی نائب صدر اور ڈیموکریٹ صدارتی امیدوار کملا ہیرس کے والدین بھی تارکین ِ وطن تھے۔ اُن کی والدہ شیاملا گوپالن ہیرس بھارت کی جنوبی ریاست تامل ناڈو کے دارالحکومت چنئی (مدراس) سے تعلق رکھتی تھیں اور والد ڈونلڈ جے ہیرس کا تعلق جزائر ِ غرب الہند سے ہے۔ چار سال قبل نائب صدر کی امیدوار بنتے وقت بھی کملا ہیرس کی نسلی شناخت کا اِشو کھڑا ہوا تھا۔ کملا ہیرس کو اپنی نسلی شناخت پر فخر رہا ہے۔ نائب صدر کے انتخاب میں وہ انڈین امریکن کے طور پر ابھری تھیں اور اُنہیں امریکی ووٹرز نے قبول کیا تھا۔
کملا ہیرس کی نسلی شناخت کو ایک بار پھر اِشو میں تبدیل کیا جارہا ہے۔ وہ جو کچھ بھی ہیں سامنے ہیں۔ کوئی بھی اُنہیں دیکھ کر کہہ سکتا ہے کہ وہ سیاہ فام نہیں اور سفید فام بھی نہیں۔ یعنی نسلی طور پر اُن کا امریکی سرزمین سے تعلق نہیں۔ ری پبلکن صدارتی امیدوار سابق صدر ڈونلٹ ٹرمپ نے نسلی شناخت کی بنیاد پر کملا ہیرس کو ہدفِ استہزا بنانا شروع کردیا ہے۔ اس معاملے میں وہ خاصی بدتمیزی اور بے شعوری کا مظاہرہ کر رہ ہیں۔ ایک انتخابی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا ہے کہ کملا ہیرس اچھی خاصی انڈین امریکن تھیں، اچانک بلیک امریکن کیسے ہوگئیں؟ اُن کی اس بات کو سوشل میڈیا پر اُچھالا بھی جارہا ہے اور اُنہیں ’’ٹرول‘‘ بھی کیا جارہا ہے۔ کملا ہیرس کو کسی جواز کے بغیر نشانے پر لیا جارہا ہے۔ ٹرمپ کے نسل پرستانہ ریمارکس کے بعد اب ری پبلکن پارٹی کے ایک سرکردہ رہنما وویک راما سوامی بھی میدان میں آگئے ہیں۔ انہوں نے الزام لگایا ہے کہ کملا ہیرس اپنی نسلی شناخت کو متبادل کے طور پر استعمال کرنے کی عادی رہی ہیں۔ وویک راما سوامی کا آبائی تعلق بھی چنئی ہی سے ہے۔ اُس کے والدین قانونی تارکین ِ وطن تھے۔ وویک راما سومی کا کہنا ہے کہ چار سال قبل نائب صدر کا انتخاب لڑتے وقت کملا ہیرس نے بھارت سے اپنے آبائی تعلق پر فخر کا اظہار کیا تھا اور خود کو انڈین امریکن کہلوانا پسند کیا تھا۔ اب وہ خود کو غیر سفید فام امریکن کہلوانا پسند کرتی ہیں۔
امریکا کو اور امریکا کے ہاتھوں دنیا کو بہت سے مسائل کا سامنا ہے۔ ایسے میں لازم ہے کہ چھوٹی چھوٹی، لایعنی باتوں میں الجھنے کے بجائے انتخابی مہم کو بنیادی اور سنگین مسائل پر متوجہ رہنے کے لیے استعمال کیا جائے۔ صدر جو بائیڈن کا انتخابی دوڑ سے الگ ہونا ڈونلڈ ٹرمپ کو اچھا نہیں لگا ہے۔ صدر بائیڈن اُن کے لیے نرم اور آسان ہدف تھے۔ کملا ہیرس مضبوط امیدوار ہیں۔ انہوں نے انتخابی دوڑ میں شریک ہوتے ہی ٹرمپ کو ٹف ٹائم دینا شروع کردیا ہے۔ یہ بات ٹرمپ اور اُن کی ٹیم سے ہضم نہیں ہو پارہی۔ امریکا میں صدارتی انتخابی مہم ہمیشہ الزامات سے لبریز رہی ہے۔ دونوں امیدوار ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ اُن کی کوشش ہوتی ہے کہ ایک دوسرے کو زیادہ سے زیادہ نیچا دکھائیں تاکہ ووٹرز کی نظر میں اُس کا امیج گندا ہو اور اِس کے نتیجے میں پولنگ کے وقت ووٹرز اُس کے بارے میں زیادہ نہ سوچیں۔
کملا ہیرس چار سال قبل نائب صدر منتخب ہوئی تھیں۔ امریکی ووٹرز نے اُن پر بھرپور اعتماد کا اظہار کیا تھا۔ اب بھی ووٹرز اُنہیں پسند کرتے ہیں۔ جب چار سال قبل اُن کی نسلی شناخت کوئی مسئلہ نہیں تھی تو اب اِسے مسئلہ کیوں بنایا جارہا ہے؟ کملا ہیرس کو ڈیموکریٹس نے صدارتی امیدوار اِس لیے بنایا ہے کہ وہ اِس کی اہل ہیں۔ اُن کی ذات پر کیچڑ اُچھالنے سے پہلے ٹرمپ اور اُن کی ٹیم کو یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ وہ محض صدارتی امیدوار نہیں بلکہ ملک کی نائب صدر ہیں۔ اگر صدر بائیڈن کی حالت زیادہ خراب ہوجائے تو کملا ہیرس نومبر کے صدارتی انتخابات سے پہلے بھی امریکی صدر کے منصب پر فائز ہوسکتی ہیں۔
فاکس نیوز سے ایک انٹرویو میں وویک راما سوامی نے کہا کہ بہت سے امریکیوںکو اس بات سے تکلیف پہنچی ہے کہ کملا ہیرس نے اپنی انڈین امریکن شناخت کو ایک طرف ہٹاکر اب خود کو مین اسٹریم امریکن شناخت اپنالی ہے۔ وویک راما سومی کی یہ بات انتہائی حیرت انگیز ہے۔ اگر کملا ہیرس نے انڈین امریکن کی شناخت کو بالائے طاق رکھ بھی دیا ہے تو کسی کے لیے اِس میں نقصان کا کیا پہلو ہے؟ یہ تو اُن کا خالص ذاتی معاملہ ہے۔ اور یوں بھی کملا ہیرس کو محض ایک نظر دیکھ کر بھی کوئی بھی بتاسکتا ہے کہ اُن کی جڑیں جنوبی ایشیا میں ہیں۔ امریکا کے لیے یہ انتخابی مہم بہت اہم ہے۔ عالمی حالات کے تناظر میں صرف کلیدی مسائل پر بات کی جانی چاہیے۔ جنہیں کل امریکی صدر کی کُرسی پر بیٹھنا ہے اُنہیں لایعنی باتوں کے ذریعے انتخابی مہم کو داغ دار نہیں کرنا چاہیے۔
(انڈیا ٹوڈے)