کس کو بچانا ہے؟ عوام یا خواص

313

اداکار اور ماڈل جو میزبان بھی ہیں بجلی کے بل سے پریشان ہیں وہ مارننگ شوز میں اپنے آپ کو اور صارف ناظرین کو حوصلہ دیتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’’بس اب معجزے کی ضرورت ہے، وقت آگیا ہے۔ سو سارا پاکستان بجلی کے بلوں کو لے کر پریشان ہے اور سمجھ رہا ہے کہ بس اب وقت آگیا ہے۔ معجزہ حافظ نعیم کی قیادت کی صورت میں عوام کو نظر آرہا ہے۔ آج آٹھواں دن ہے دھرنے کا… حکومت انتظار میں بھی کہ مذاکرات کو لٹکا کر وقت نکالا جاسکتا ہے۔ دوسری طرف صورت حال یہ ہے کہ دھرنے میں شرکت کے لیے قافلے پر قافلے تیار ہیں، خواتین بھی دھرنے کا حصہ بن گئی ہیں۔ لاہور سے نکلنے والے خواتین کے قافلے کو روکا گیا تو انہوں نے وہاں ہی دھرنا دے دیا۔ دوسرے شہروں سے آنے والی خواتین کو بسوں سے اُتار کر بسوں کو تھانے لے گئے تو خواتین نے ملتان روڈ پر ہی دھرنا دے دیا۔ خواتین کو روکنا حکومت کی انتہائی بزدلی کو ظاہر کرتا ہے۔

جماعت اسلامی کا دھرنا، اس کے مطالبات پچیس کروڑ عوام کے دل کی آواز ہیں۔ عوام کو مہنگائی کی دلدل سے نکالنے اور بجلی کے بلوں کے لیے ریلیف دینا مقصد ہے۔ مطالبات میں کوئی نکتہ، کوئی مطالبہ غیر حقیقی نہیں اور نہ ہی یہ جماعت نہ ہی حافظ نعیم کے لیے ہے، دھرنا صرف عوام کے لیے اُن کو ریلیف دلانے کے لیے ہے۔ جو مہنگائی اور بجلی کے بلوں کی ادائیگی کے لیے مشکل میں ہیں کوئی اپنے زیور، کوئی اپنی بائیک بیچ کر بجلی کے بل ادا کررہا ہے۔ اکثریت کی تنخواہ میں بجلی کا بل ادا کرنے کی سکت نہیں۔ روز ہی خودکشی کی خبریں دل دہلاتی ہیں۔ عوام پریشان ہیں لیکن حکومت بے فکر ہے۔ لیاقت باغ راولپنڈی میں مسلسل آٹھواں دن ہے، جماعت اسلامی کے کارکن اور ان کے رہنما وہاں دھرنا دیے ہوئے ہیں، بارش برس رہی ہے، بارش بھی مون سون کی لیکن جماعت اسلامی کے کارکنوں کے جذبے کم نہیں ہوئے بڑھے ہیں۔ ایک دھرنا روکا گیا اب شہروں شہروں میں دھرنے دیے جارہے ہیں۔ جماعت اسلامی کی انتھک کوششیں ہیں لہٰذا عوام میں بھی ہر ایک کے منہ پر جماعت اسلامی کا نام ہے۔ لاہور میں لوگ گرفتار کیے گئے لیکن جماعت اسلامی کے بھرپور مزاحمانہ جذبے کو دیکھتے ہوئے انہیں چھوڑا گیا۔ اور وہ پھر دھرنے میں شرکت کے لیے روانہ ہوگئے۔ حکومتی لوگ پریشان ہیں وزرا کے بیانات کبھی دھمکی آمیز ہیں، کبھی کہتے ہیں کہ جماعت اسلامی کے مطالبات غیر حقیقی ہیں۔ سچ بات یہ ہے کہ جماعت اسلامی کے مطالبات ہی سے عوام سمجھے ہیں کہ یہ دھرنا تو ان ہی کے لیے ہے اب تو دو ہی فریق نظر آرہے ہیں ایک عوام کے حقوق پر قابض لوگ اور ایک عوام جن کے اوپر ہر طرح کا وزن ڈال دیا گیا ہے اور انہیں ہر حق سے محروم کردیا گیا ہے۔

عوام کے حق پر قابض لوگ کہتے ہیں کہ جماعت اسلامی کے مطالبات غیر حقیقی ہیں۔ آئی پی پیز (انڈیپنڈٹ پاور پروڈیوسرز) کے ساتھ معاہدے ختم کرنا مشکل ہیں۔ ان کی پاسداری ضروری ہے۔ حکومت کی بات خود غیر حقیقی اور غیر عوامی ہے۔ کوئی بھی ملک اپنے ہاتھ پیر گروی رکھتے یا ایسے معاہدے کرنے کے جن کے نتیجے میں ایسی صورت حال پیدا ہوجائے جو کہ ہوئی پی ٹی سی ایل، کے ای ایس سی، اسٹیل مل اور اب پی آئی اے کی تباہی اور فروخت کی داستانیں زبان زد عام ہیں۔ آئی پی پیز کے ساتھ سب سے پہلے پیپلز پارٹی نے بے نظیر کے پہلے دور میں 1994ء میں معاہدہ کیا، 16 آئی پی پیز قائم کیے، 2002ء، 2015ء میں 40 آئی پی پیز پاکستان میں کام کررہے تھے جو 50 ارب کی تعمیر کردہ تھیں اور ان کو 400 ارب روپے کی ادائیگیاں کی جاچکی تھیں، اس وقت یہ آئی پی پیز 150 ارب ماہانہ کیپسٹی پیمنٹ میں وصول کررہے ہیں۔ ان نجی آئی پی پیز کے مالکان کی اکثریت پاکستانی ہے، تقریباً 60 فی صد پاکستانی سرمایہ کار ہیں جن میں منشا گروپ، حبیب اللہ گروپ، جبکو، اینگرو، سیفائر گروپ، جہانگیر ترین گروپ، حسین دائود گروپ، وزیراعظم کے بیٹے شہباز شریف، رزاق دائود گروپ وغیرہ شامل ہیں۔

حکومت کیسے یہ کہہ رہی ہے کہ جماعت اسلامی کے مطالبات غیر حقیقی ہیں، غیر حقیقی تو یہ معاہدے تھے جو کیے گئے، اب غریب کے منہ سے نوالہ چھین کر چاہتے ہیں کہ ان کی ادائیگی ہو۔ یہ پاکستانی سرمایہ کار ہیں انہیں خود ہی سمجھنا چاہیے اور اگر نہیں سمجھیں تو سمجھانا چاہیے۔ اس وقت تو ہر سمجھدار کو سمجھنا ہی چاہیے کہ پاکستان ہے تو منافع بھی ہے۔ فیڈریشن آف پاکستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (ایف پی سی سی آئی) نے حکومت پر زور دیا ہے کہ فوری طور پر بجلی کے ان معاہدوں پر نظرثانی کریں تا کہ پاکستان کی ڈوبتی صنعت کو بچایا جاسکے۔ صورت حال یہ ہے کہ 25 فی صد صنعتیں بند چکی ہیں اور سیکڑوں اس قطار میں ہیں۔ حکومت کو فیصلہ کرنا چاہیے ایک طرف 40 سرمایہ دار جن کی آئی پی پیز ہیں، دوسری طرف 25 کروڑ عوام ہیں، وہ کس کو بچانا چاہتے ہیں بلکہ اب تو حکومت خود بھی خطرے میں ہے۔ مطالبات نہ ماننے کی صورت میں دھرنا حکومت کے خلاف دھرنے میں تبدیل ہوجائے گا۔