سماج میں بہت سے لوگ ہیں جو حقوق اللہ کے سلسلے میں بہت زیادہ حسّاس ہوتے ہیں، لیکن حقوق العباد کے سلسلے میں اتنے ہی بے پروا ہوتے ہیں۔ وہ بڑے عبادت گزار اور نماز روزے کے پابند ہوتے ہیں، تہجد گزاری اور آہِ سحرگاہی ان سے کبھی نہیں چھوٹتی، لیکن پڑوس میں رہنے والے فقراء و مساکین انھیں نظر نہیں آتے اور ان کی بے چارگی پر انھیں ترس نہیں آتا۔
قرآن سماج کی بے اعتدالی کے اس مظہر پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہتا ہے:’’نیکی یہ نہیں کہ تم اپنے چہرے مشرق کی طرف پھیر لو یا مغرب کی طرف‘‘۔آگے وہ بتاتا ہے کہ اصل نیکی کیا ہے؟ وہ عقائد و اعمال کے درج ذیل تین مجموعوں کو ’’نیکی‘‘ قرار دیتا ہے:
ـ(1) ایمانیات: اللہ، آخرت، ملائکہ، کتاب اور نبیوں پر ایمان۔
ـ(2) اعمال: مال کی محبت کے باوجود اسے خرچ کرنا، رشتے داروں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں، مانگنے والوں پر اور گردنوں کو چھڑانے پر، نماز پڑھنا اور زکوۃ ادا کرنا۔
ـ(3) اخلاقیات: عہد کو پورا کرنا اور صبر کرنا تنگی میں، پریشانی میں اور جنگ کے دوران۔
ان کے مجموعے کو قرآن اصل نیکی کہتا ہے اور ان سے متصف لوگوں کو ایمان میں سچے اور متقی قرار دیتا ہے۔ (البقرہ: 177)
اس آیت میں یہ بات قابل غور ہے کہ نماز اور زکوٰۃ، جو فرائض میں داخل ہیں، ان سے پہلے انفاق (مال خرچ کرنے) کو بیان کیا گیا ہے اور اسے اہمیت دی گئی ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ دین میں اصل اہمیت ایمان کو حاصل ہے، وہ نہ ہو تو تمام اعمال اکارت ہیں اور بارگاہِ الہی میں ان کی حیثیت پرِکاہ کے برابر بھی نہیں۔ نماز اور زکوٰۃ کا تذکرہ عملی اور قانونی اعتبار سے ہے، ایمان کا عملی مظاہرہ نماز کے ذریعے سے ہوتا ہے اور انفاق کی قانونی شکل زکوٰۃ ہے۔ زکوٰۃ وہ کم سے کم مقدار ہے جسے ایک مسلمان کو اپنے مال میں سے خرچ کرنا لازم ہے۔ اس سے مطلوب اور پسندیدہ یہ ہے کہ اس سے جتنا زیادہ سے زیادہ ہو سکے، خرچ کرے۔ بہترین انفاق یہ ہے کہ آدمی اس وقت خرچ کرے جب وہ خود ضرورت مند ہو۔ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا ہے: ’’افضل صدقہ یہ ہے کہ تم اس وقت خرچ کرو جب صحت مند اور پیسوں کے ضرورت مند ہو، مال کے امید وار ہو اور فقر کے اندیشے میں مبتلا ہو‘‘۔
انفاق کا اولین مصرف رشتے دار ہیں، پھر سماج کے دیگر افراد، مثلاً یتیم، مسکین، مسافر، ہاتھ پھیلانے والوں کو بھی دینا چاہیے اور سماج کے ایسے ضرورت مند افراد کو بھی تلاش کر کے ان کی ضرورت پوری کرنی چاہیے جو اپنی سفید پوشی کی وجہ سے ہاتھ پھیلانے کی ہمت نہیں کر پاتے۔
اس آیت میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ مال کا ایک بہترین مصرف ’’گردنوں کو چھڑانا‘‘ ہے۔ پہلے اس کی ایک شکل غلاموں کو خرید کر آزاد کرنا تھی۔ موجودہ دور میں اس کا اطلاق ان لوگوں پر ہوتا ہے جو ریاستی دہشت گردی کا شکار ہیں، قید و بند کی مصیبت جھیل رہے ہیں، مقدمات کی پیروی میں وہ گراں بار ہوگئے ہیں اور ان کے پس دیوارِ زنداں ہونے کی وجہ سے ان کے اہل و عیال نانِ شبینہ کے محتاج ہوگئے ہیں۔