امت مسلمہ کا درد رکھنے والا نبیوں کی سرزمین کا محافظ، فلسطین کا سابق وزیراعظم اور حماس کا سیاسی سربراہ اسماعیل ہنیہ ایران کے دارالحکومت تہران میں اسرائیلی حملے میں شہید ہوگئے وہ نومنتخب ایرانی صدر کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے لیے ایران گئے تھے۔ ان کی المناک شہادت سے عالم اسلام ایک عظیم مجاہد اور رہنما سے محروم ہوگیا۔ ان کی شہادت پر پوری دنیا میں اندھیرا چھا گیا ہے۔ اسماعیل ہانیہ کی شہادت سے قبل ان کے تین جوان بیٹے، پوتوں سمیت خاندان کے 71 افراد سرزمین فلسطین کی حفاظت میں قربان ہوگئے انہوں نے اپنی جان، مال اپنی اولادیں اور خاندان سب اللہ کی راہ میں قربان کردیا اور جنت الفردوس میں ان کے بچے ان کا والہانہ استقبال کررہے ہوں گے۔ ان کی بہو اور بیٹی نے اس عظیم سانحہ پر جس استقامت، صبر کا مظاہرہ کیا وہ ناقابل بیان ہے۔ ان کے چہروں پر کوئی درد اور غم کے آثار نہیں تھے اوران کی زبان پر شکر کے کلمات جاری تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے ہی لوگوں کے لیے جنت کی بشارت دی ہے۔
اسماعیل ہنیہ کو 2017 میں خالد مشعل کی جگہ حماس کا سیاسی سربراہ مقرر کیا گیا اور 2023 سے وہ قطر میں قیام پزیر تھے۔ اسماعیل ہانیہ 1997 میں حماس کے روحانی رہنما شیخ احمد یاسین کے پرسنل سیکرٹری مقرر کیے گئے۔ 1988 میں پہلے انتفاضہ میں شرکت کرنے پر اسماعیل ہنیہ کو اسرائیل نے چھے ماہ قید میں رکھا۔ 1989 میں دوبارہ گرفتاری کے بعد 1992 میں ان کو لبنان ڈی پورٹ کیا گیا تھا جس کے اگلے سال اوسلو معاہدہ کے بعد اسماعیل ہنیہ کی غزہ میں واپسی ہوئی۔ 2006 میں فلسطین کے الیکشن میں حماس کی اکثریت کے بعد اسماعیل ہنیہ فلسطین اتھارٹی کے وزیراعظم منتخب ہوئے لیکن حماس فتح اختلافات کے باعث یہ حکومت زیادہ دیر نہ چل سکی لیکن غزہ میں حماس کی حکمرانی برقرار رہی اور اسماعیل ہانیہ ہی اس کے سربراہ تھے۔ اسماعیل ہنیہ کی عظیم شہادت سے ان کی تین نسلیں مسجد اقصیٰ پر قربان ہوگئی ہیں۔ اسماعیل ہنیہ کی شہادت نے عالم اسلام کے اس عظیم گھرانہ کو ایک بار پھر جنت میں اکھٹا کردیا ہے۔ اسماعیل ہنیہ اور ان کے اہل خانہ پر اللہ پاک کی کروڑوں رحمتیں ہوں آپ نے اپنے خون سے جہاد کو ایک بار پھر زندہ کردیا اور انبیاء کی سرزمین اور امت کی عظمت القدس کے لیے اپنا گھربار سب اللہ کی راہ میں قربان کردیا۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوا کہ: ’’آخر کار ہر شخص کو مرنا ہے۔ اور تم سب اپنے اپنے اجر قیامت کے روز پانے والے ہو۔ کامیاب دراصل وہ ہے جو وہاں آتش دوزخ سے بچ جائے اور جنت میں داخل کردیا جائے۔ رہی یہ دنیا تو یہ محض ایک ظاہر فریب چیز ہے‘‘۔
اسماعیل ہنیہ جس نے اپنی بہادری اور جرأت مندی سے اسرائیل اور دیگر سپر طاقتوں کا مقابلہ کیا غزہ جنگ کو ایک سال کا عرصہ ہوا چاہتا ہے اس ایک سال میں اس نے اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کو ناکوں سے چنے چبوا دیے اور اپنی جنگی صلاحیتوں کا لوہا پوری دنیا سے منوایا۔ ایک ایسے حالات میں جب اسرائیل کی کمر ٹوٹ چکی ہے۔ اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل نے اسرائیل کے خلاف فیصلے سنا دیے ہیں۔ فلسطین کی آزادی قریب آپہنچی ہے ایسے میں اسرائیل کی جانب سے حماس کے سربراہ کی شہادت پوری دنیا کو جنگ میں جھوکنے کی سازش ہے۔ اسماعیل ہانیہ پر حملے سے ثابت ہورہا ہے کہ نیتن یاہو کو دنیا کے امن سے کوئی غرض نہیں ہے۔ اسماعیل ہنیہ کی شہادت کا مقصد غزہ جنگ کو علاقائی سطح پر پھیلانا ہے۔ اسماعیل ہنیہ کی شہادت چونکہ ایران میں ہوئی ہے ایسے میں فرقہ پرستوں کو اور زیادہ ہوا ملے گی کہ وہ اپنا کھیل کھیلیں گے جو امت کے اتحاد ویکجہتی کے لیے زہر قاتل اور انتہائی نقصان دہ ثابت ہوگا۔
ساری دنیا جانتی ہے کہ ایران میں اسرائیل کا جاسوس نیٹ ورک شروع ہی سے بہت مضبوط ہے۔ ایران اپنے صدر کی حفاظت نہیں کرسکا اور گزشتہ دنوں ہی ہیلی کاپٹر حادثے میں ایرانی صدر اپنے ساتھیوں سمیت جاں بحق ہوگئے تھے تو ایسے حالات میں ایران اسماعیل ہانیہ کی کیا حفاظت کرتا۔ امت کی حفاظت کرنے والا امت کی ہمت بڑھانے والا ایک عظیم مجاہد اسماعیل ہنیہ اپنے ربّ سے اپنی نذر پوری کرچکا۔ اب 58 سے زائد مسلم حکمرانوں کی ذمے داری ہے کہ وہ بزدلی کا طوق اتار پھینکے۔ امت مسلمہ اس وقت ایک کرب اور دکھ کی حالت میں ہے۔ اسماعیل ہنیہ کی شہادت امت مسلمہ کے لیے ناقابل برداشت ہے مسلم حکمراں فوری طور پراپنا کردار ادا کریں۔ نیتن یاہو پر اسماعیل ہنیہ کا عالمی عدالت میں قتل کا مقدمہ چلایا جائے اور اسے تختہ دار پر لٹکایا جائے۔ اسرائیلی مصنوعات پر پوری شدت اور طاقت کے ساتھ بائیکاٹ کیا جائے ورنہ امت مسلمہ کا صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا تو اسرائیل کے ساتھ ساتھ بزدل مسلم حکمرانوں کو بھی جائے پناہ نہیں ملے گی اور حماس کی تحریک دیگر عرب ملکوں میں بھی برپا ہوجائے گی اور امت مسلمہ پر اسماعیل ہنیہ کا خون ایک قرض ہے اور امت کے نوجوان اسماعیل ہنیہ کے خون کا بدلہ لیں گے۔ اسماعیل ہنیہ نے اپنے خانوادے کے ساتھ ارض مقدس فلسطین کی حفاظت کے لیے اپنی جانیں قربان کر کے امام عالی مقام ؓ کی سنت کو زندہ کیا ہے۔ سیدنا حسین ؓ نے کوفہ اپنے خاندان کے 72 شہداء کی قربانیوں سے ایک عظیم تاریخ رقم کی تھی اور اس دور میں نبیؐ کے ایک امتی اور انبیاء کی سرزمین کے محافظ اسماعیل ہانیہ نے بھی اپنے خاندان کے 71 افراد کی شہادتوں سے یہ بات ثابت کردی کہ جہاد قیامت تک جاری رہے گا اور ارض فلسطین جلد آزاد ہوگی۔ امت کے بیٹے اسماعیل ہنیہ کی شکل میں آتے رہے گے اور اللہ کے دین کو دنیا میں غالب کیا جائے گا۔
یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا