امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے بجلی کے ہوشربا بلوں، بجٹ میں تنخواہ دار طبقے پر ظالمانہ ٹیکسوں اور حکمران ٹولے کی ناجائز مراعات کے خلاف عوامی دھرنے کی کال دی ہے۔ یہ دھرنا 26 جولائی سے شروع ہوا ہے اور اس وقت تک جاری رہے گا جب تک عوام کے مطالبات تسلیم نہیں کرلیے جاتے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت جماعت اسلامی کے سوا کوئی عوام کی بات نہیں کررہا، سب سیاسی اندیشوں اور قیاس آرائیوں میں گھرے ہوئے ہیں۔ خواتین کی مخصوص نشستوں سے متعلق عدالت عظمیٰ کے جرأت مندانہ فیصلے نے فسطائی قوتوں اور غیر نمائندہ حکومت کی چولیں ہلا دی ہیں اور ہر طرف یہی بات زیر بحث ہے کہ موجودہ جعلی حکومت برقرار رہے گی یا نہیں۔ اگر برقرار رہے گی تو اس کے لیے کیا حربے اختیار کیے جائیں گے۔ کیا عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر عملدرآمد کو روکنے کے لیے ملک میں ایمرجنسی پلس لگادی جائے گی یا ملک میں ٹیکنوکریٹس کی حکومت قائم کرکے موجودہ حکمرانوں کو ذلت و رسوائی سے بچالیا جائے گا۔ اس سیاسی کنفیوژن نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ پی ٹی آئی جو اس کنفیوژن میں مرکزی کردار کی حیثیت رکھتی ہے اس کی ساری توجہ اپنے لیڈر کی رہائی پر مرکوز ہے، وہ چاہتی ہے کہ عمران خان جلد از جلد رہا ہوں اور ان لوگوں سے چن چن کر بدلہ لیں جو پی ٹی آئی کے لیے مصائب کا سبب بنے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن اسٹیبلشمنٹ کو للکار رہے ہیں انہیں کچھ خبر نہیں کہ عوام پر کیا بیت رہی ہے۔ رہا مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم پر مشتمل ٹھگوں کا ٹولہ تو اس کی پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں ہے۔ وہ پاکستان کو آئی ایم ایف کے پاس رہن رکھ کر فارغ ہوگیا ہے اور یہ عالمی مہاجن بجلی کے بلوں، گیس کے بلوں اور پٹرول کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ کرکے عوام کو بُری طرح نچوڑ رہا ہے اور ٹھگوں کا ٹولہ اس کا آلہ کار بنا ہوا ہے۔
ایسے میں صرف جماعت اسلامی ہی ہے جو عوام کو درپیش مسائل پر بات کررہی ہے اور عوام کو ان مسائل سے نکالنے کے لیے میدان عمل میں آکودی ہے۔ حافظ نعیم الرحمن نے خبردار کیا ہے کہ اگر عوام کے مطالبات تسلیم نہیں کیے گئے تو یہ دھرنا پورے ملک میں پھیل جائے گا اور ’’حکومت گرائو تحریک‘‘ شروع ہوجائے گی جسے روکنا آسان نہ ہوگا۔ حکومت نے اس صورت حال سے عہدہ برا ہونے کے لیے جماعت اسلامی کو مذاکرات کی پیش کش کی ہے جسے امیر جماعت اسلامی نے قبول کرلیا ہے اور نائب امیر جماعت لیاقت بلوچ کی قیادت میں چار رکنی مذاکراتی ٹیم بنادی ہے جو حکومت مذاکراتی ٹیم سے بات چیت کرے گی، تاہم دھرنا حصولِ مقصد تک جاری رہے گا۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حکومت کی مذاکراتی ٹیم کے پاس عوام کے مطالبات کو منظور کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ وہ نہ بجلی کے بلوں میں کمی کرسکتی ہے، نہ آئی پی پیز کے ساتھ کیے گئے ظالمانہ معاہدے منسوخ کرسکتی ہے، نہ حکمران اشرافیہ کو دی گئی مفت مراعات ختم کرسکتی ہے اور نہ ہی وہ تنخواہ دار طبقے پر ٹیکسوں کا بوجھ کم کرنے کی مجاز ہے۔ اگر حکومتی ٹیم نے اس حوالے سے کوئی وعدہ کیا بھی تو وہ محض ایک دھوکا ہوگا اور وقت ٹالنے کے لیے یہ حربہ اختیار کیا جائے گا۔ کہا جارہا ہے کہ حکومت نے سرکاری افسروں اور اداروں کو مفت بجلی دینے اور مفت پٹرول دینے کا سلسلہ ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ مبصرین کے مطابق یہ ادھورا فیصلہ ہے اگر حکومت یہ فیصلہ کرتی ہے تو اس کا اطلاق حاضر سروس اور ریٹائرڈ ججوں، جرنیلوں اور بیوروکریٹس پر یکساں ہونا چاہیے۔ کیا حکومت یہ فیصلہ اتنی آسانی سے کرسکتی ہے۔ بجلی، گیس اور پٹرول کی قیمتوں میں کمی کا تعلق براہِ راست آئی ایم ایف سے ہے۔ کیا آئی ایم ایف عوام کا دبائو قبول کرلے گا؟ حقیقت یہ ہے کہ حافظ نعیم الرحمن نے عوامی دھرنا شروع کرکے ایک بہت بڑے انقلاب کا آغاز کردیا ہے، یہ انقلابات مذاکرات سے نہیں، راست اقدام سے آئے گا۔ راست اقدام کی عملی صورت یہ ہے کہ عوام اس دھرنے میں زیادہ سے زیادہ شریک ہوں اور اپنے تمام مطالبات منوائے بغیر دھرنے سے اُٹھنے کا نام نہ لیں۔ یہ وہ مطالبات ہیں جن میں کٹوتی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ خاص طور پر حکمران اشرافیہ مراعات کی آڑ میں قومی وسائل کی جو لوٹ مار کررہی ہے اسے ختم کیے بغیر ملک کو بدحالی سے نہیں نکالا جاسکتا۔ واقعہ یہ ہے کہ سات سمندر پار سے آئے ہوئے انگریز حملہ آوروں نے بھی اس ملک کو اس طرح نہیں لوٹا جس طرح یہ دیسی حکمران لوٹ رہے ہیں۔ یہ لوگ کھکھ پتی سے کھرب پتی بن گئے ہیں اور مالا مال ملک کو دیوالیہ بنادیا ہے۔ بے غیرتی اور کم ظرفی ملاحظہ ہو کہ اپنی دولت ملک پر صرف کرنے کے بجائے پوری دنیا میں بھیک مانگتے پھر رہے ہیں اور عالمی مہاجن آئی ایم ایف کے آگے ناک رگڑ رہے ہیں جو محض قرضہ ہی نہیں دیتا، قومی معیشت پر بھی قبضہ کرتا ہے، ٹیکس لگانے، پٹرول، بجلی اور گیس کی قیمتیں بڑھانے اور عوام کا گلا دبانے کا اختیار بھی اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے۔ آئی ایم ایف سے نجات حاصل کرنا بھی دھرنے کے بنیادی مقاصد میں شامل ہے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب حکمران اشرافیہ کو تمام مراعات اور امیرانہ سہولتوں سے محروم کرکے سادہ زندگی گزارنے پر مجبور کردیا جائے۔ صرف عوام کا دبائو ہی یہ کام کرسکتا ہے اور یہ دبائو عوام کے دھرنے سے پیدا ہوگا۔ دھرنا کتنا طول کھینچے گا؟ ہم کچھ نہیں کہہ سکتے لیکن امیر جماعت نے اشارہ دے دیا ہے کہ یہ طول پکڑ سکتا ہے۔ یہ جتنا طول پکڑے گا اسی قدر حکمرانوں کے اعصاب پر اثر انداز ہوگا اور ملک میں ایک صحت مند جمہوری انقلاب کی نوید ثابت ہوگا۔