امریکا کے لیے پورس کا ہاتھی

299

جب تک جو بائیڈن انتخابی دوڑ کا حصہ تھے تب تک سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پُرسکون تھے کہ اب اُن کی راہ میں کوئی دیوار حائل نہیں۔ اُنہیں دوبارہ امریکی ایوانِ صدر تک کا سفر بہت آسان محسوس ہو رہا تھا۔ 21 جولائی کو جب صدر جو بائیڈن نے انتخابی دوڑ سے الگ ہونے کا اعلان کرکے نائب صدر کملا ہیرس کے صدارتی امیدوار بننے کی راہ ہموار کی تب ٹرمپ کو اندازہ ہوا ؎

خوشی کے ساتھ دنیا میں ہزاروں غم بھی ہوتے ہیں
جہاں بجتی ہے شہنائی وہاں ماتم بھی ہوتے ہیں

اب اُنہیں اندازہ ہوچکا ہے کہ صدارتی انتخاب کے اکھاڑے میں حریف کو پچھاڑنا لوہے کے چنے چبانے جیسا معاملہ بھی ہوسکتا ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے چار سال تک امریکی صدر کا منصب سنبھالا ہے۔ اِس دوران اُنہوں نے جو کچھ کیا وہ بھی ڈھکا چُھپا نہیں۔ اُنہوں نے امریکی پالیسیوں کو اُلٹ پَلٹ کر رکھ دیا۔ کئی ممالک سے تعلقات خراب ہوئے۔ چین سے تجارتی جنگ شروع ہوئی جو کسی نہ کسی شکل میں اب بھی جاری ہے۔ کیا امریکا میں یہ سب ایک بار پھر ہوگا؟ کیا امریکی ووٹرز کو اب بھی عقل نہیں آئی؟ یہ تو تین ماہ بعد معلوم ہو ہی جائے گا۔ اس وقت معاملہ یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ انتہائی دائیں بازو کی جماعت کے یعنی ری پبلکن امیدوار کی حیثیت سے قوم پرستی کا کارڈ بھی کھیل رہے ہیں اور مذہب کا بھی۔ ایک طرف وہ امریکیوں کو یقین دلارہے ہیں کہ دوبارہ صدر منتخب ہونے پر وہ تمام غیر قانونی تارکینِ وطن کو نکال باہر کریں گے اور اِس کے لیے فوج سے مدد لینا پڑے تو اِس سے بھی دریغ نہیں کریں گے۔ اور دوسری طرف وہ مذہب کو بھی ہتھیار بنانے پر تُل گئے ہیں۔

امریکی ریاست فلوریڈا کے شہر ویسٹ پام بیچ میں ٹرننگ پوائنٹ ایکشن نامی کیتھولک کرسچین گروپ کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ’’میرے پیارے عیسائی بھائیو! میں بھی عیسائی ہوں اور تم بھی عیسائی ہو۔ بس ایک بار پھر تھوڑی سی زحمت کرو، ووٹ کاسٹ کرو۔ میں یقین دلاتا ہوں کہ اگر میں جیت گیا تو معاملات کو ایسا درست کروں گا کہ پھر آپ کو ووٹ نہیں ڈالنا پڑیں گے‘‘۔

ڈونلڈ ٹرمپ کو مجبور ہوکر یہ کارڈ کھیلنا پڑا ہے۔ کملا ہیرس کی شکل میں اِس وقت اُن کے سامنے ایک مضبوط صدارتی امیدوار کھڑی ہے۔ کملا ہیرس کی مقبولیت میں صرف ایک ہفتے کے دوران 8 فی صد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے ایک ہفتے میں انتخابی عطیات کی مد میں 20 کروڑ ڈالر بھی جمع کرلیے ہیں۔ یہ سب کچھ ٹرمپ کے لیے خطرے کی گھنٹی نہیں بلکہ گھنٹا ہے۔ وہ سمجھ چکے ہیں کہ دال آسانی سے گلے گی نہیں۔ اب اُنہیں کچھ ایسا کرنا پڑے گا جو ووٹرز کو سوچنے پر مجبور کرے۔ اِس کا ایک اچھا اور آسان حل تو اُنہیں یہ سُوجھا ہے کہ معاشرے میں تفریق پیدا کی جائے اور مذہب کو بنیاد بناکر امریکا بھر کے ووٹرز کے درمیان دیوار کھڑی کردی جائے۔

امریکی میڈیا نے ٹرمپ کی اِس روش کی شدید مذمت کی ہے۔ امریکا اپنے سیاسی نظام کو لبرل ڈیموکریٹک سسٹم کہتا ہے یعنی اُس میں مذہب کی بنیاد پر تنگ نظری کی کوئی گنجائش نہیں۔ ری پبلکنز کا جُھکاؤ مذہب کی طرف کم اور مذہبیت کی طرف زیادہ ہے۔ وہ ایک زمانے سے امریکیوں کو مختلف چیزوں سے ڈراکر ووٹ بٹورتے آئے ہیں۔ جب لوگ مذہب کے نام پر بے وقوف بننے سے انکار کردیتے ہیں تو اُنہیں اس بات سے ڈرایا جاتا ہے کہ اگر وہ نہ جاگے تو دنیا بھر کے لوگ آ آکر امریکا میں آباد ہوتے رہیں گے اور مقامی باشندے ایک دن اقلیت میں تبدیل ہوجائیں گے۔

امریکا ہر دور میں لبرل اقدار کا علم بردار رہا ہے۔ امریکی معاشرے میں مذہبیت بھی ہے مگر ایک خاص حد تک یعنی بہت کم۔ مجموعی طور پر لوگ لبرل مائنڈ سیٹ کے تحت زندگی بسر کرتے ہیں۔ لبرل ہونے کا مطلب محض اخلاق باختہ یا دہریت پر مبنی زندگی گزار نا نہیں بلکہ معقولیت اور معروضیت کے ساتھ جینا ہے۔ یہی سبب ہے کہ امریکی معاشرے میں رنگ و نسل یا مذہب و فرقے کی بنیاد پر تنگ نظری کبھی پروان نہیں چڑھ سکی۔ عام امریکی اِن ساری باتوں پر یقین نہیں رکھتا۔ وہ حقیقت پسندی کی عینک سے معاملات کا جائزہ لے کر فیصلے کرتا ہے۔

تارکینِ وطن کا ہوّا اِس بار بھی کھڑا کیا گیا ہے مگر اِسے ناکافی سمجھتے ہوئے اب عیسائیت کا ڈول ڈالا گیا ہے۔ یہ ترکیب کہاں تک کارگر ثابت ہوسکتی ہے اِس کے بارے میں پورے یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ ڈونلڈ ٹرمپ اپنے سارے گھوڑوں کو اصطبل سے نکال کر دوڑانا چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کسی نہ کسی طور ووٹرز کو حقیقت پسندی کی راہ سے ہٹاکر وہم و گمان اور شکوک و شہبات اور تحفظات کی شاہراہ پر ڈالا جائے تاکہ اُن کے ذہن الجھ کر رہ جائیں۔ ویسٹ پام بیچ میں عام امریکیوں کو عیسائی کی حیثیت سے پُکار کر اُن کے ووٹ مذہبی تنگ نظری کی بنیاد پر حاصل کرنے کی کوشش ٹرمپ کو مہنگی پڑسکتی ہے۔ امریکا میں اس بنیاد پر ووٹ مانگنے کو کبھی اچھی نظر سے نہیں دیکھا گیا۔

کملا ہیرس بھارتی نژاد ماں کی بیٹی ہیں۔ وہ کیتھولک عیسائی ہیں۔ اُن کے والد کا تعلق جزائرِ غرب الہند سے تھا۔ بارک اوباما کا پس منظر مسلم تھا اور اُن کے والد مسلمان تھے۔ اس کے باوجود امریکیوں نے اُنہیں ووٹ دیے۔ کملا ہیرس کو امید ہے کہ امریکی اُنہیں ترجیح دیں گے اِس لیے وہ بہت متوازن رہتے ہوئے چل رہی ہیں۔

(بہ شکریہ گارجین، نیو یارک پوسٹ، نیو یارک ٹائمز)