ایک آدمی کو کتنی زمین درکار ہوسکتی ہے

384

آج کچھ نہیں کہنا بس لیو ٹالسٹائی کی ایک شارٹ اسٹوری How much land does a man need کی تلخیص آپ کی خدمت میں پیش کرنی ہے۔ ملاحظہ فرمائیے:
پیکھم جو گائوں میں ایک چھوٹا سا کسان تھا اس کی بیوی کی بڑی بہن شہر میں ایک مالدار بزنس مین سے بیاہی گئی تھی۔ بڑی بہن گائوں میں اپنی چھوٹی بہن سے ملنے آئی تو اترا اترا کر اپنی شہری زندگی کے عیش وآرام اور دولت مندی کے قصے بیان کرتی اور چھوٹی بہن کی گائوں کی غربت زدہ زندگی پر افسوس اور دکھ کا اظہار کرتی رہی۔ ’’کہاں تم اس گائوں میں پڑی ہوئی ہو‘‘ یہ کہتے ہوئے اس کے لہجے میں توہین کا پہلو بہت نمایاں تھا۔ بڑی بہن کی شیخیوں اور جامے سے باہر باتوں سے پیکھم کی بیوی ذرا متاثر نہیں ہوئی۔ گائوں کی سادہ اور پر مسرت زندگی کی تعریف کرتے ہوئے کہتی ہے ’’ہم جہاں بھی ہیں جیسے بھی ہیں بہت خوش اور مزے میں ہیں‘‘۔ پیکھم اپنی بیوی اور اس کی بڑی بہن کی باتیں سن رہا تھا، وہ کہتا ہے ’’مجھے کوئی افسوس نہیں کہ میں ایک کسان ہوں۔ اگر میری پاس تھوڑی سی زمین بھی ہوتی تو میں دنیا کو دکھا دیتا کہ میں کیا ہوں۔ میں اپنی بیوی اور بچوں کو خوشحالی کی وہ زندگی دیتا کہ دنیا دیکھتی رہ جاتی۔ پھر میرا کوئی بھی کچھ نہیں بگاڑ سکتا تھا حتی کہ شیطان بھی نہیں‘‘۔
پیکھم کی یہ بات تنور کے پیچھے بیٹھے شیطان نے سنی تو اس کے ہونٹوں پر طنزیہ مسکراہٹ آگئی ’’اتنا بڑا دعویٰ! اچھا بیٹا تو دیکھ اب میں تیرے ساتھ کیا کرتا ہوں۔ تجھے زمین کی خواہش ہے نا تو میں تجھے زمین ہی دونگا اور پھر تجھے اپنے قابو میں کروں گا‘‘۔
پیکھم جس زمیندارنی کی زمین پر کام کرتا تھا شہر منتقل ہونے کے لیے وہ اپنی وسیع وعریض زمین چھوٹے چھوٹے قطعات میں کاٹ کر بیچ رہی تھی۔ پیکھم نے جیسے تیسے کرکے اس سے بیس ایکڑ زمین خریدلی۔ اسے امید تھی کہ وہ اس زمین پر خوب محنت کرے گا اور جلدہی سارے قرضے اُتار دے گا اور اپنی بیوی بچوں کو ایک اچھی زندگی دے سکے گا۔ پیکھم کا یہ منصوبہ کامیاب رہا لیکن اس کامیابی نے اسے تند خو بنادیا، اتنا کہ اس کے پڑوسی کسان تنگ آکر اپنی زمینیں بیچنے پر مجبور ہو گئے۔ پیکھم نے ان کی زمینیں خریدنے کا پروگرام بنایا لیکن اسی دوران اس کے سامنے ایک اور اچھا سودا آگیا۔ ایک دن ایک کسان نے اسے بتایا کہ والگر ایور کے قریب ایک گائوں بس رہا ہے جہاں آباد ہونے والے لوگوں میں سے مردوں کو فی کس 25 ایکڑ زمین دی جارہی ہے۔ پیکھم کے خاندان میں چار افراد تھے جس کا مطلب تھا سو ایکڑزمین۔ وہ اپنے خاندان کے افراد کو یہاں لے کر آیا تو یہاں کے لوگوں نے اس کا بہت گرمجوشی سے استقبال کیا اور ساتھ ہی سو ایکڑزمین بھی اسے دیدی۔ اب پیکھم کے پاس پہلے سے تین چار گنا زیادہ زمین تھی۔
اس کامیابی پر پیکھم قانع ہو کر نہیں بیٹھ گیا۔ اسے اور زیادہ زمین کی حرص ہو گئی۔ اس نے سوچا اگر وہ تعلقہ کی زمین پٹے پر لے لے تو زیادہ رقبے پر کاشت کرکے جلد ہی بہت امیر ہو جائے گا۔ ایک زمیندار جو دیوالیہ ہو گیا تھا اپنی زمین اونے پونے بیچ رہا تھا۔ پیکھم نے سوچا کہ یہ بہتر موقع ہے زیادہ سے زیادہ زمین خریدنے کا۔ وہ یہ سودا کرنے ہی جارہا تھاکہ ایک بیوپاری نے اسے بتایا کہ میں ابھی ابھی ’’بشکر لینڈ‘‘ سے آرہا ہوں جو کہ ایشیا کی طرف ہے وہاں نے میں ایک ہزار روبل (روسی کرنسی) میں 13 ہزار ایکڑزمین خریدی ہے۔ وہاں کی زمین بہت زرخیز ہے۔ لوگ محنت طلب کاموں سے جی چراتے اور بس عیش کی زندگی گزارنے پر یقین رکھتے ہیں۔ اگرتم ان کے لیے بہت سارے تحائف لے جائو تو بدلے میں وہ بھی تم سے فیاضی سے پیش آئیں گے۔ پیکھم کو یہ مشورہ بہت پسند آیا۔ اپنی بیوی اور بچوں کو وہیں چھوڑ جلد ہی وہ بشکر لینڈ پہنچ گیا۔
تحفے تحائف ملنے پر بشکر لینڈ کے لوگ اس کی دریا دلی سے بہت خوش ہوئے اور اس کی خوب آئو بھگت کی۔ پیکھم نے انہیں زمین خریدنے کے اپنے ارادے سے آگاہ کیا تو ان کے سردار نے کہا ’’فکر مت کرو تمہیں جتنی زمین چاہیے مل جائے گی۔ ہمارے پاس بہت زمین ہے۔ جتنا دور تک تم پیدل جاسکتے ہو اتنی زمین تمہاری ہے۔ ایک دن کا بھائو ایک ہزار روبل ہے۔ سورج طلوع ہوتے ہی تمہارے سفر کا آغاز ہوجائے گا لیکن سورج ڈوبنے سے پہلے تمہیں واپس اسی مقام تک آنا پڑے گا جہاں سے تم نے شروع کیا تھا۔ اگر تم ایسا نہ کرسکے تو تمہارے ایک ہزارر وبل ڈوب جائیں گے‘‘۔ پیکھم بخوشی تیار ہوگیا۔ صبح جلد اٹھنے کی خوشی میں بمشکل اسے نیندآئی۔ اس نے خواب میں دیکھاکہ بشکر سردار، وہ بیوپاری جس نے اسے بشکر لینڈ سے متعلق آگاہ کیا تھا اور وہ کسان جو اپنی زمینیں فروخت کررہا تھا تینوں شیطان کی صورت میں ڈھل گئے۔ وہ اپنے سامنے پڑی ایک آدمی کی ننگی لاش پر ہنس رہے ہیں جو کہ اسی کی لاش تھی۔ صبح جب کدال ہاتھ میں لیے پیکھم سفر پر نکلا تو اس کے ذہن میں خواب کہیں موجود نہیں تھا۔
بشکر لینڈ کے لوگوں کے ہلّے گلّے اور سردار کی موجودگی میں نقطہ آغاز پر جھنڈا گاڑ کر پیکھم نے اپنی دوڑ کا آغازکیا۔ شروع میں وہ بہت تیز دوڑا۔ وہ جانتا تھا کہ صبح کا وقت ہے گرمی زیادہ نہیں وہ پوری طاقت سے دوڑ سکتا ہے۔ دو سے ڈھائی گھنٹے میں دس میل کا فاصلہ سیدھا طے کرکے وہ اس مقام تک پہنچ جاتا ہے جہاں سے اسے الٹے ہاتھ مڑنا تھا۔ وہاںکدال سے نشان لگا کر وہ پھر دوڑنا شروع کرتا ہے تو آہستہ آہستہ سورج کی حدت میں بھی اضافہ ہونے لگتا ہے۔ پیکھم کی ہمت کم ہونے لگتی ہے۔ تھوڑا کھاپی کرد وہ پھر دوڑنا شروع کردیتا ہے۔ الٹے ہاتھ آٹھ میل کے برابر طے کرنے کے بعد اس کی حالت بگڑنے لگتی ہے۔ سورج عین اس کے سر کے اوپر چمک رہا تھا۔ اسے اندازہ ہوجاتا ہے کہ ہدف کا حصول بہت مشکل ہے۔ آٹھویں میل سے ہی وہ واپس مڑنے کا سوچتا ہے کہ اس سے زیادہ کی اس میں ہمت نہیں تھی لیکن زیادہ سے زیادہ پانے کی خواہش میں وہ پھر دوڑنا شروع کردیتا ہے۔
گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ تک وہ برابر دوڑتا رہتا ہے جس کے نتیجے میں پسینے سے شرابور ہونے کے ساتھ ساتھ چکر اور بدحواسی بھی اسے آلیتی ہے۔ وہ پھر بیٹھنے اور کچھ کھانے پینے کا فیصلہ کرتا ہے۔ اسے لگنے لگتا ہے کہ نقطہ آغاز پر واپس پہنچنا اب ناممکن ہے لیکن پھر بھی زندگی میں ملنے والے اس نادر موقع کو وہ کھونا نہیں چاہتا۔ وہ دیکھتا ہے کہ سورج بھی ڈھلنا شروع ہو گیا ہے۔ وہ بھاگتا ہے۔ پوری ہمت کے ساتھ وہ واپس دوڑتا ہے حتی کہ اسے وہ پہاڑی، بشکر لینڈ کے لوگ اور جھنڈہ دکھائی دینے لگتا ہے۔ اسے کامیابی کی امید ہونے لگتی ہے وہ سوچتا ہے کہ چونکہ اب وہ مجھے دکھنے لگے ہیں لہٰذا میں پہنچ جائوں گا۔ وہ فیصلہ کرتا ہے کہ اپنے بدن کی تمام طاقت کو استعمال کرکے اس مرحلے کے بھی پار پہنچے گا۔ وہ پھر بھاگتا ہے۔ جسم وجان کی پوری طاقت کے ساتھ۔ وہ دوڑتا ہے، وہ دوڑتا ہے وہ اور دوڑتا ہے۔ آخر کار وہ نقطہ آغاز پر پہنچ جاتا ہے لیکن اس وقت جب سورج ڈھل چکا ہوتا ہے۔ پھر بھی وہ دیکھتا ہے کہ اب بھی سارے بشکی اس کی ہمت بڑھا رہے ہوتے ہیں۔ وہ سمجھ جاتا ہے کہ پہاڑی کی اونچائی پر سورج ڈھلتا دکھائی نہیں دے رہا۔ اپنی تمام طاقت مجتمع کرکے بالآخر وہ پہاڑی کے نقطہ آغاز پر پہنچ کر، بے دم ہوکر گر پڑتا ہے۔ سب لوگ تالیاں بجاتے ہیں۔ اس کی کامیابی پر خوش ہوتے ہیں۔ جب وہ پیکھم کو سیدھا کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ اس کے منہ سے خون کی دھار بہہ رہی ہے۔ اس کی سانسیں ختم ہوچکی ہیں۔ وہ زندگی کو الوداع کہہ چکا ہے۔ اس کے ہاتھ سے کدال الگ کر لی جاتی ہے۔ ایک صدا گونجتی ہے ’’اس کی قبر کھود دو اسے صرف دو گز زمین کی ضرورت تھی‘‘۔