ڈونلڈ لو امریکا کے اسسٹنٹ سیکرٹری برائے جنوبی ایشیا ہیں ان کا نام پاکستانیوں کو اس لیے از بر ہو چکا ہے کہ وہ پاکستان میں ڈھائی برس سے جاری سیاسی بحران کا مرکزی کردار رہ چکے ہیں۔ رجیم چینج کا تانا بانا کہاں بْنا گیا اور کون کون سے پردہ نشین اس میں شریک رہے یہ تو لمبی کہانی ہے مگر اس کھیل میں اچانک اور تیزی سے وہ نام اور کیریکٹر پردہ سیمیں پر اْبھرا جنہیں ڈونلڈ لوکہا جاتا ہے۔ اس کے بعد سائفر کہانی شروع ہوئی جو اسلام آباد میں حکومت کی تبدیلی پر منتج ہوئی۔ ڈونلڈ لو نے جنوبی اور وسطی ایشیا کے بارے میں امریکی امداد کا بجٹ ایوان نمائندگان میں پیش کرتے ہوئے پاکستان کے لیے دس کروڑ دس لاکھ ڈالر کی امداد کی تجویز پیش کی۔ امریکی ایوان نمائندگان کے اس سیشن کا مقصد جنوبی اور مشرقی ایشیا میں چین کے اثر رسوخ کو محد ود کرنا اور ان ملکوں کو چینی امداد کے چنگل سے نکالنا تھا۔ پاکستان کے لیے امداد کا مطالبہ کرتے ہوئے ڈونلڈ لو نے یہ کہنا ضروری سمجھا کہ چین پر پاکستان کا انحصار کم کرنے کے لیے یہ امداد ضروری ہے۔ ڈونلڈ لو کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان میں سرمایہ کاری کے حوالے سے چین ماضی جبکہ امریکا مستقبل ہے۔
امریکی اسسٹنٹ سیکرٹری آف اسٹیٹ کی طرف سے چین کو پاکستان کا ماضی قرار دینا کئی سوالات کو جنم دے رہا ہے جن میں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اس بدلتی ہوئی صورت حال میں گیم چینجر کہلانے والے منصوبے پاک چین اقتصادی راہداری کا مستقبل کیا ہوگا؟۔ امریکا یہ خواہش اور کوشش تو نئی نہیں کہ پاکستان چین کے ساتھ اپنے تعاون کو دوطرفہ حدود کے اندر رکھے۔ گویا کہ ان تعلقات کی زد بھارت سمیت کسی تیسرے ملک پر نہ پڑنے پائے۔ یہاں بھارت کا وہ خوف صاف جھلکتا محسوس ہوتا ہے جس میں اسے مستقبل کے کسی موڑ پر چین اور پاکستان کے ساتھ بیک وقت جنگ کا خدشہ ہے۔ 1962 کی چین بھارت جنگ میں پاکستان کی قیادت نے یہ موقع خود ہی گنوادیا تھا اور مستقبل کے حوالے سے یہ تھیوری موجود ہے کہ پاکستان اور چین میں سے ایک ملک بھارت کو سامنے سے انگیج کرکے دوسرا پیچھے سے وار کرسکتا ہے۔ خود بھارت کے عسکری ماہرین اور جرنیل یہ کہتے چلے آرہے ہیں کہ وہ اپنی فوج کو بیک وقت دو محاذوں کی جنگ کے لیے بھی تیار کر رہے ہیں۔ دومحاذوں کی جنگ چونکہ خطے میں طاقت کا توازن تبدیل کرسکتی ہے اور یوں امریکا کی سرپرستی میں قائم ورلڈ آرڈر کی چولیں ہل سکتی ہیں۔ یہ کشمیر کے بھارت کے ہاتھ سے نکلنے کی صورت میں ہی کیوں نہ ہو امریکا کو یہ قبول نہیں۔ اس لیے امریکا پاکستان کو چین کے ساتھ تجارت اور خرید وفروخت سے تو منع نہیں کرتا مگر ان کے اسٹرٹیجک اتحاد کو کسی تیسرے ملک کے خلاف استعمال ہونے کا کھلا مخالف ہے۔ کچھ یہی معاملہ روس کے ساتھ پینگیں بڑھانے سے متعلق ہے۔ یہی وجہ ہے امریکا سی پیک کا کھلا مخالف رہا اور اس معاملے میں امریکا اور بھارت کا تعاون بھی کئی حوالوں سے سامنے آتا رہا۔ بھارت یہ اعتراض کرتا رہا کہ یہ ریاست جموں وکشمیر اور گلگت بلتستان مہاراجا کے الحاق کے ساتھ ہی اس کا حصہ بن چکے ہیں اس لیے ایسے علاقے میں چین کو کسی سرگرمی کا حق حاصل نہیں۔
بھارت میں سی پیک کی عملی مخالفت کا اتنا دم خم نہیں تھا اگر اسے پس پردہ امریکا کی اشیر باد حاصل نہ ہوتی۔ امریکا اور بھارت کے تعاون نے پاک چین اقتصادی راہداری کو پاکستان کے لیے مشکل اور تھکا دینے والا سفر بنا دیا۔ چینی کارکنوں پر پہ در پہ حملوں کے پیچھے یہی گریٹ گیم تھی اور ان حالات سے تنگ آکر ہی چینی کمپنیوں نے ایک بار پھر اسی طرح اپنا کام روک دیا جس طرح 2013 میں گوادر بندرگاہ کے ساتھ ہوچکا تھا۔ جب گوادر میں کام کرنے والے غیر ملکی ادارے علاقہ چھوڑ کر جا چکے تھے اور اسی صورت حال کو ایشیا ٹائمز اخبار نے یوں بیان کیا تھا کہ گوادر چین کے لیے گرم آلو بن چکا ہے۔ چین منہ جلنے کے باعث اسے اْگل چکا ہے۔ امریکا کی اس قدر مخالفت کے باوجود پاک چین اقتصادی راہداری کے معاہدے پر دستخط ہونا ایک غیر معمولی بات تھی۔ پاکستان نے یہ دباؤ کیسے رد کیا؟ شاید بس امریکیوں کی پلک جھپکنے کے دوران ہی پاکستان نے اس معاہدے پر دستخط کردیے۔ یہ وہ وقت بھی تھا جب پاکستان اور امریکا کے درمیان وسیع خلیج پیدا ہوچکی تھی اور امریکا پاکستان پر افغانستان میں ڈبل گیم کا الزام عائد کر رہا تھا اور اس ضد میں پوری طرح بھارت کی پزیرائی کر رہا تھا۔ پاکستان کی فوجی امداد یا تو بند ہونے کے قریب تھی یا مکمل طور پر بند ہو رہی تھی۔ امریکا پاکستان کو چین کے اتحادی کے طور پر ناقابل اصلاح سمجھ کر چھوڑ رہا تھا۔ اس دوری اور کشمکش کے ماحول میں پاکستان نے سرعت کے ساتھ سی پیک کے معاہدے پر دستخط کردیے اور ان منصوبوں پر کام تو آہستہ روی سے جاری ہی تھا مگر معاہدے کے بعد ان میں تیزی آتی چلی گئی۔ پاکستان میں رجیم چینج کا اصل مقصد چین اور پاکستان کے تعلق کو محدود کرنا تھا۔ اس کے بعد یہ تعلق محدود ہوتا چلا گیا۔ یہاں تک کہ اب پاکستان کے لیے چین کی گرم جوشی سرد مہری میں ڈھل چکی ہے۔
امریکا یہ جانتا ہے کہ وہ پاکستان کے لیے چین کا متبادل نہیں بن سکتا اس کے باوجود وہ پاکستان کو چین کی طرف لڑھلنے سے روکنا چاہتا ہے۔ اس کا تعلق نظریۂ ضرورت سے ہے۔ بھارت نے امریکا کی خطے میں ہر خواہش کو ماننے میں عدم دلچسپی دکھانا شروع کی تو امریکا کا پاکستان پر انحصار بڑھنے لگا۔ افغانستان سے نکالے جانے اور بھارت کی طرف سے چین کے خلاف کھلے بندوں استعمال سے انکار کے بعد امریکا کے پاس پاکستان کے راستے ہی خطے میں واپس آنے یا اپنے قدم جمانے کا واحد آپشن تھا۔ یہ کام تکمیل کو پہنچ چکا ہے۔ چین پاکستان کے معاملات میں پیچھے ہٹ گیا اور اس کی جگہ امریکا کی گرم جوشی بڑھ رہی ہے۔ اس میں دس کروڑ ڈالر کی امداد ایک فیصلہ کن حیثیت رکھتی ہے۔ یہ امداد اس شرط پر ہی دی جانی مقصود ہے کہ پاکستان چین پر اپنا انحصار کم کرے گا۔ تعاون کی کون سی شکلوں میں امریکا ترمیم چاہتا ہے یہ تو معلوم نہیں مگر سی پیک کا ایسا استعمال کہ وہ چین کے اقتصادی اور تزویراتی مقاصد کو اس کی سو فی صد خواہشات کے مطابق ہو اس امداد کا ہدف ہو سکتا ہے۔ اب یہ پاکستان کی فیصلہ سازی کا امتحان ہے کہ وہ امریکا امداد سمیٹتے ہوئے چین کے ساتھ اپنے تعلق کو کسی بڑے نقصان سے کیسے بچاتے ہیں؟۔