مبارک ثانی کیس: عدالت عظمیٰ کے فیصلہ پر ہمارا موقف

1503

مبارک احمد ثانی کیس کے فیصلے پر نظر ثانی سے متعلق درخواستوں پر تین سماعتوں کے بعد بروز بدھ، 24 جولائی 2024 عدالت عظمیٰ کی طرف سے فیصلہ سنا دیا گیا۔ اس کیس کے بارے میں راقم اپنی تفصیلی رائے عدالت کی معاونت کے لیے تحریراً مختلف مواقع پر حوالہ جات کی صورت میں اور کمرۂ عدالت کے باہر تفصیل کے ساتھ تقریراً پیش کر چکا ہے۔ حالیہ فیصلے کے بارے میں چند نکات بطور تبصرہ پیش خدمت ہیں:

1۔ یہ فیصلہ پاکستان کے تمام مکاتب فکر کے نمائندہ جید علماء اور اسلامی نظریاتی کونسل، ملی یکجہتی کونسل اور عدالت عظمیٰ کے مجوزہ دس اداروں کے اجماع کے خلاف ہے۔

2۔ مبارک ثانی کیس قادیانیوں کے غیر مسلم ہونے یا عوامی سطح پر اپنے مذہب کی تبلیغ سے متعلق نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق مذہبی آزادی کے تناظر میں خلوت میں اپنے طلبہ کو اپنے اداروں میں اپنی مذہبی تعلیم دینے سے ہے۔

3۔ ماضی میں قادیانیوں کے غیر مسلم ہونے اور عوامی سطح پر اپنے عقائد کی تبلیغ کرنے سے متعلق قوانین کو متعین کر دیا گیا تھا البتہ اس مرتبہ اپنی چار دیواری اور نجی اداروں میں اپنے مذہب پر جیسا کہ وہ اسے خود سمجھتے ہیں عمل کرنے کی اجازت سے متعلق مسئلہ زیر بحث ہے۔

4۔ قادیانیوں کی ’’تفسیر صغیر‘‘ محض ایک ممنوع کتاب نہیں بلکہ قرآن مجید کا عربی متن، تحریف شدہ اسلامی عقائد سے متصادم اردو ترجمہ اور توہین آمیز مواد پر مبنی تفسیر ہے۔ اس کتاب کی اس حیثیت کو اس فیصلہ میں نظرانداز کر دیا گیا۔ یاد رہے کہ پاکستان کے قوانین کے مطابق کوئی مسلمان بھی بغیر اجازت نامہ کے قرآن کا متن مع اردو ترجمہ شائع نہیں کر سکتا چہ جائیکہ کسی غیر مسلم کو مذہبی آزادی کے نام پر تحریف شدہ ترجمہ چھاپنے اور پڑھانے کی اجازت دی جائے۔

5۔ عدالت عظمیٰ کے طاہر نقاش اور مبارک ثانی کیس کے فیصلوں سے یہ بات طے ہو گئی ہے کہ قادیانیوں کو ’مذہبی آزادی اور گھر کی خلوت‘ کے نام پر اپنے گھروں، عباد ت گاہوں اور اپنے نجی مخصوص اداروں کے اندر تحریف قرآن اور توہین رسالت کی اجازت دے دی گئی ہے، کیونکہ قادیانیت محض انکار ختم نبوت نہیں، بلکہ قرآن کی لفظی اور معنوی تحریف، تکفیر اہل اسلام، توہین رسالت اور اہل بیت و صحابہؓ کی اہانت کا نام ہے۔ مرزا قادیانی کی جھوٹی وحی کا مجموعہ ’’تذکرہ‘‘ اس بات کی دلیل ہے کہ قادیانیت میں صرف معنوی تحریف ہی نہیں بلکہ قرآن مجید کی لفظی تحریف بھی ہے۔

6۔ پیرا گراف 41 میں ایسے تراجم کی ممانعت کا ذکر کیا گیا ہے ’جو مسلمانوں کے عقیدے بالخصوص نبی کریمؐ پر سلسلہ نبوت کے ختم ہونے کے خلاف ہو‘ جبکہ پیرا گراف 42 میں انہیں گھر کی خلوت کے نام پر اس کی اجازت دے دی گئی ہے جو فیصلہ میں واضح تضاد ہے اور ایسی اجازت شریعت اسلامیہ کے خلاف ہے۔

7۔ اسلام میں جس طرح تحریف قرآن اور توہین رسالت عوامی سطح پر کفر و حرام اور قابل سزا جرم ہے اسی طرح خلوت میں کفر و حرام اور قابل سزا جرم ہے۔ مذہبی آزادی کے نام پر ’گھر کی خلوت کے حق‘ کے طور تحریف قرآن اور توہین کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ یہی وہ بنیادی فرق ہے جسے بار بار تحریراً اور تقریراً واضح کیا گیا اور اس پر شرعی دلائل بھی پیش کیے گئے۔ کیونکہ زیر بحث مسئلہ میں ’’تفسیر صغیر‘‘ اور دیگر قادیانی تراجم و تفاسیر پر بات کی جا رہی ہے تو اس کا لازمی نتیجہ یہی ہے کہ اب ان تمام تحریف شدہ تراجم کی قانوناً اجازت دے دی گئی ہے۔

8۔ عدالت عظمیٰ کی معاونت میں ہم یہ واضح کر چکے ہیں کہ مسجد ضرار اور مسجد بنو حنیفہ کے لوگوں کی مسجد اور عبادت گاہ کو ضراراً، کفراً، تفریقاً اور ارصاداً کے طور پر استعمال کرنے سے عہد رسالت و خلفاء راشدین میں نہ صرف ان کو روکا گیا بلکہ ان عمارتوں کو منہدم کرتے ہوئے، قرار واقعی سزا بھی دی گئی۔ اس بارے میں پیرا گراف 19 میں یہ کہنا کہ ’’یہ عبادت گاہ جن لوگوں نے بنائی تھی انہوں نے اسے نام مسجد کا دیا تھا جس سے بعض مسلمان دھوکے میں پڑ سکتے تھے جبکہ پاکستان کے قانون میں پہلے ہی سے یہ پابندی ہے کہ قادیانی اپنی عبادت گاہ کو مسجد نہیں کہہ سکتے اور نہ ہی خود کو مسلمان کے طور پر پیش کر سکتے ہیں‘‘ بالکل غلط ہے کیونکہ استدلال کی نوعیت یہ ہے کہ رسول اللہؐ اور خلفاء راشدین نے منافقین اور منکرین ختم نبوت کو مذہبی آزادی کے نام پر کفر، ارصاد، تفریق اور ضرار (جن علتوں کا ذکر بطور نص سورہ توبہ ۹ آیت ۱۰۷ میں ہے) کی اجازت نہیں دی، بلکہ اس عمل سے ان کو روکا گیا۔ امام رازی اس آیت کے بارے میں فرماتے ہیں:

’’سیدنا ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ اس سے مراد یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کو نقصان پہنچانا چاہتے تھے اور نبی کریم اور آپؐ جو کچھ اپنے ساتھ لے کر تشریف لائے وہ اس کا انکار کرنا چاہتے تھے۔ ابن عباسؓ کے علاوہ دیگر نے کہا کہ انہوں نے یہ مسجد اس لیے بنائی تھی تاکہ اس مسجد میں نبی کریمؐ اور اسلام پر (نعوذ باللہ) طعنہ زنی کے ساتھ کفر کا ارتکاب کریں‘‘۔

غور کیجیے کہ اگر اس بات کو مان بھی لیا جائے کہ اس کا مقصد مسجد کے نام کی وجہ سے مسلمانوں کو دھوکے میں پڑنے سے بچانا تھا تو قرآن مجید، تفسیر، عائشہ، دینیات، مدرسۃ البنات، قرآن کا اردو بامحاورہ ترجمہ، مدرسۃ الحفظ ان اسلامی معروف اصطلاحات سے تو مسلمان بدرجہ اولیٰ دھوکے میں پڑ سکتے ہیں اور پڑ رہے ہیں تو کیا عدالت کا یہ شرعی فرض نہیں تھا کہ وہ قادیانیوں کو اس التباس سے بزور قوت روکے؟ یاد رہے کہ مبارک ثانی اگر چہ ’’تفسیر صغیر‘‘ کا مصنف وطابع نہیں ہے، تاہم بحیثیت پرنسپل، استاذ اور نصاب تیار کرنے والے اس پرقرآن ایکٹ کے مطابق Commented upon کا اطلاق ضرور ہوتا ہے جس کو نظر انداز کر دیا گیا۔

پیراگراف 4 میں یہ تسلیم کیا گیا ’’مدرسۃ الحفظ، عائشہ دینیات اکیڈمی و مدرسۃ البنات کی سالانہ تقریب نصرت جہاں کالج فار ویمن کے گراؤنڈ میں منعقد کی گئی، جہاں تفسیر صغیر کو تقسیم کیا گیا اور یہ مبینہ واقعہ 2019 میں رونما ہوا‘‘ قابل توجہ بات یہ ہے کہ یہ گھر کی چار دیواری اور گھر کی خلوت نہیں بلکہ مدرسہ و اکیڈمی کی سالانہ تقریب ہے جو کالج کے گراؤنڈ میں منعقد کی گئی۔ اب اس گراؤنڈ کی تقریب کو بھی خلوت کا حق قرار دے کر تحریف شدہ ترجمہ قرآن تقسیم کرنے کی اجازت دینا عدل کے منافی ہے۔

9۔ فتح مکہ کے موقع پر عام معافی کا ذکر تو فیصلہ کے پیرگراف 47 میں کیا گیا، تاہم ابن خطل اور اس جیسے گستاخوں کو جنہیں کعبے کے پردے میں بھی چھپے ہوں، قتل کر دینے کا حکم دیا، یکسر نظر انداز کر دیا گیا۔

10۔ پیراگرا ف 48 میں رحمت للعالمینؐ کے پیروکار ہونے کا تقاضا یہ بیان کیا گیا کہ ’’مسلمان اپنے مخالفین سے بھی حسن سلوک کا رویہ رکھیں اور سوچیں کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کس کام میں ہے اور کیا ان کے اعمال سے رسول اللہؐ خوش ہوں گے؟‘‘جبکہ اس بات کو مکمل نظر انداز کر دیا گیا کہ قرآن میں تحریف اور تنہائی میں توہین کی اجازت دینا کیا، قرآن و سنت کی کسی نص یا اسلامی تاریخ کے کسی قاضی کے فیصلے سے بھی ثابت ہے؟

نیز یہ کہ کیا اس سے پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ اور ججوں سے اللہ اور اس کے رسولؐ خوش ہوں گے، یا سخت ناراض؟ یقینا قرآن ایسے فیصلوں کے خلاف قیامت کے دن حجت بنے گا۔

11۔ اس فیصلہ کا سب سے زیادہ نقصان یہ ہو گا کہ اب قادیانیوں کو اپنے توہین قرآن، توہین رسالت، توہین اہل بیت، توہین صحابہ اور تکفیر امت مسلمہ پر مبنی لٹریچر کو اپنے ’’گراؤنڈز اور کالجز و مدارس‘‘ میں چھاپنے، تقسیم کرنے، پڑھانے، بطور نصاب متعین کرنے کا قانوناً جواز مل جائے گا۔

پاکستان ایک اسلامی ملک ہے اور نظریہ اسلام کی بنیاد پر قائم ہوا ہے۔ مقاصد شریعت میں سے پہلا مقصد ’’حفاظت دین‘‘ ہے۔ دین کی حفاظت کا محور کتاب اللہ ہے۔ اگر مذہبی آزادی کے نام پر تحریف قرآن کی اپنے گھر اور گراؤنڈ کی خلوت میں اجازت دے دی جائے تو شریعت اسلامیہ کے تمام مقاصد فوت ہو جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ پاکستان کی حفاظت فرمائے۔

وہ لوگ جو عالمی انسانی حقوق کے منشور کے تحت مذہبی آزادی کا نعرہ لگا رہے ہیں ان سے سوال یہ ہے کہ کسی مذہبی اقلیت کو اپنے مذہب کے مطابق عبادت کی اجازت دینا اور بات ہے، مگر کیا اس آزادی کے نام پر مذہبی اکثریت کے جذبات مجروح کرتے ہوئے، نقض امن کے اسباب پیدا کرنے کے ساتھ مذہبی اقلیت کو تحریف قرآن کی اجازت دینا شرعاً اور قانوناً جائز قرار دیا جا سکتا ہے؟ نعوذ باللہ من ذلک نیز ہمیں عدالت عالیہ کے تحریر کردہ فیصلے میں بار بار قادیانیوں کے لیے خالصتاً اسلامی اصطلاح ’’احمدی‘‘ کے استعمال پربھی شکوہ ہے کہ پنجاب حکومت کی قرارداد اور فیصلے کے مطابق قادیانی اپنے آپ کو ’’احمدی‘‘ نہیں لکھوا سکتے جبکہ اس فیصلے میں بھی بار بار احمدی لکھا گیا ہے۔ عدالت عالیہ کے فیصلے میں موجود یہ آئینی و قانونی اسقام قادیانیوں کو کھلی چھوٹ دینے اور اسلام کے مسلمہ اصول و عقائد کی تضحیک و توہین کرنے کے مترادف ہیں‘‘۔