قاضی سراج العابدین کی پہلی برسی پریادگاری نگارش

310

قاضی سراج کا کہنا تھا کہ روزنامہ جسارت کی پالیسی کے تحت صفحہ محنت پر ٹریڈ یونین تحریک اور محنت کش طبقہ کی خبریں اور رپورٹیں بلا امتیاز شائع کی جاتی ہیں ۔ لہٰذا ہماری اسی پالیسی کے پیش نظر ہمارا صفحہ محنت ملک بھر کے دائیں اور بائیں بازو کی علمبردار تمام ٹریڈ یونینز اورمحنت کشوں میں یکساں مقبول ہے۔ دراصل اب مزدور تحریک میں دائیں اور بائیں بازو کی اصطلاح بے مقصد سی معلوم ہوتی ہے۔ کیونکہ وطن عزیز کا مزدور صرف مزدور ہے اور وہ اپنے بنیادی حقوق سے بری طرح محروم ہے۔

انہوں نے اس دوران محنت کش طبقہ کی زبوں حالی کا ذمہ دار وفاقی اور صوبائی حکومتوں اور آجر برادری کو قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگرچہ ملک میں محنت کشوں کے لیے مجموعی طور پر ملازمتی قوانین تشکیل شدہ ہیں اوراس طبقہ کی فلاح و بہبود کے لیے متعدد قومی اور صوبائی سطح کے ادارے بھی قائم ہیں۔ لیکن حکومت کی عدم دلچسپی اور آجروں کی جانب سے ان قوانین پر عملدرآمد نہ کیے جانے کے باعث محنت کشوں کی بڑی تعداد اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہے۔ دوسری جانب اگرچہ ملک میں قومی سطح پر محنت کشوں کے حقوق کی علمبردار بے شمار مزدور فیڈریشنز اور ٹریڈ یونینز سرگرم عمل ہیں لیکن اس کے باوجود ملک کی کروڑوں آبادی پر مشتمل محنت کش طبقہ کی ایک بڑی تعداد آج بھی اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہے جو ان کی کارکردگی پر ایک سوالیہ نشان ہے۔

قاضی سراج کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان کا ملک کی محنت کش برادری سے یہ عہد ہے کہ جہاں جہاں جہاں مزدوروں کا استحصال اور ان پر ظلم ہو گا۔ ان شاء اللہ روزنامہ جسارت وہاں محنت کشوں کے حقوق کی پاسداری میں ان کے شانہ بشانہ کھڑا ہو گا۔ قاضی سراج نے ملک کے محنت کش طبقہ کو درپیش مسائل اجاگر کرنے کے لیے جسارت لیبر فورم کی بنیاد بھی ڈالی تھی۔ جس کے تحت شعبہ محنت کے محکموں کے اعلیٰ افسران، مزدور رہنماؤں اور محنت کشوں کو ایک میز پر جمع کر کے انہیں آپس میں مکالمہ اور سوالات و جوابات کا موقع فراہم کیا جاتا تھا۔ اسی طرح قاضی سراج کی انتھک کوششوں سے جسارت لیبر فورم کے تحت مسائل کا شکار مظلوم محنت کشوں کی قانونی رہنمائی اور انہیں سستی قانونی امداد فراہم کرنے کی غرض سے مزدور قوانین کے ممتاز وکلاء ملک محمد رفیق ایڈوکیٹ، رفیع اللہ ایڈوکیٹ (مرحوم) اور ایم اے کے عظمتی ایڈوکیٹ (مرحوم) اور شعاع النبی ایڈوکیٹ کے مزدور قوانین کے موضوع پر لیکچرز کا بھی اہتمام کیا جاتا رہا ۔

قاضی سراج جسارت لیبر فورم کے تحت شعبہ محنت کے متعلق بے شمار موضوعات پر پروگرام منعقد کرچکے تھے اور کراچی کے علاوہ 1995ء میں صوبہ پنجاب کا پندرہ روزہ دورہ کر کے ملتان، لاہور، گوجرانوالہ، گجرات اور فیصل آباد کے صنعتی علاقوں میں بھی کامیاب پروگرام منعقد کر چکے تھے۔ گزشتہ تین دہائیوں سے زائد عرصہ تک مظلوم محنت کشوں کی فلاح و بہبود میں کوشاں رہنے والے بزرگ صحافی قاضی سراج کو خرابی صحت، وسائل کی کمی، مختلف رکاوٹوں اور بار ہا آزمائشوں کا بھی سامنا کرنا پڑا، لیکن اس کے باوجود ان کے پایہ استقامت میں کبھی ذرہ برابر بھی لغزش نہیں آئی تھی۔

2001ء کا ذکر ہے کہ کراچی پریس کلب کے سامنے سندھ الکلیز لمیٹڈ کے محنت کش اپنے مسائل کے حل کے لیے مظاہرہ کرنے میں مصروف تھی اور حکومت نے مظاہرین سے نمٹنے کے لیے اس علاقہ کو حساس علاقہ قرار دے کر دفعہ 144 نافذ کر رکھی تھی۔ لیکن محنت کشوں کے مسائل میں گہری دلچسپی اور ان کے مطالبات سے ہمدردی کے باعث قاضی سراج العابدین بھی محنت کشوں کے شانہ بشانہ مظاہرین کی صف میں شامل تھے۔ لہٰذا پولیس نے جب دفعہ 144 کی خلاف ورزی کرنے پر مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے زبردست لاٹھی چارج کیا تو دیگر محنت کشوں کے ساتھ ساتھ قاضی سراج اور ملک محمد رفیق ایڈوکیٹ کو بھی حراست میں لے کر انہیں آرٹلری میدان تھانہ کی حوالات میں بند کر دیا تھا۔ جہاں آپ محنت کشوں کے ساتھ تقریباً 8 گھنٹے تک پولیس حوالات میں بند رہے اور بالآخر امیر جماعت اسلامی کراچی نعمت اللہ خان کی جانب سے شخصی ضمانت پر رہا ہوئے تھے۔ لیکن دفعہ 144 کی خلاف ورزی کا یہ مقدمہ ایک برس تک عدالت میں چلتا رہا اور قاضی سراج مزدورں کی ہمدردی کی سزا کے طور پر پیشیوں پر پیشیاں بھگتتے رہے اور پھر بالآخر ایک برس بعد اس کیس سے بریت کے ذریعہ خلاصی پائی۔

اسی طرح 2008ء کا ایک افسوس ناک قصہ ہے کہ قاضی سراج دفتر روزنامہ جسارت میں اپنا صفحہ محنت کش ترتیب دے کر شب 11 بجے کراچی کی مشہور زمانہ پبلک ویگن W-11 کے ذریعے اپنے گھر جارہے تھے۔ کراچی کے شہری بخوبی واقف ہیں کہ ویگن W-11کا عملہ مسافروں سے دھونس و بدتمیزی، گاڑیوں میں بلند آواز میں گانے بجانے اور گاڑیوں کی اندھا دھند ریس لگانے کتنا بدنام ہے۔ ان گاڑیوں میں دوران سفر اس قدر بلند آواز میں گانے بجائے جاتے ہیں کہ مسافروں کے کان پھٹ جائیں۔ لیکن مسافروں کے احتجاج کے باوجود اس ویگن کے کنڈیکٹرز اور ڈرائیوروں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ قاضی سراج العابدین نے ویگن ڈرائیور کو بے ہنگم گانوں کاشور شرابہ ختم کرنے اور مسافروں کے سکون کے لیے بارہا یہ گانے بند کرنے کا کہا لیکن ڈرائیور اپنی ضد سے باز نہیں آیا اور پھر ان سے الجھنے لگا۔ کریم آباد کے بس اسٹاپ پر قاضی سراج احتجاجا ویگن سے اتر کر ان کی شکایت کرنے کے لیے ٹریفک پولیس کی چوکی جانب بڑھے ہی تھے کہ اچانک شقی القلب اور سفاک ڈرائیور نے غصہ کے عالم میں ان پر اپنی گاڑی چڑھاکر انہیں روندھنے کی کوشش کی۔ جس کے باعث قاضی سراج ویگن کی زوردار ٹکر سے سڑک پر گرگئے تھے اور آنا فانا گاڑی کے نیچے آگئے تھے۔اسی اثناء میں قاضی سراج کے شور شرابے پر جب لوگ جمع ہوگئے اور انہیں سخت زخمی حالت میں گاڑی کے نیچے سے نکالا گیا اوراس دوران پولیس بھی موقعہ پر پہنچ گئی۔ قاضی سراج کو فوری طور پر عباسی شہید اسپتال لے جایا گیا۔ اس خوفناک حادثہ میں قاضی سراج کے بائیں پاؤں کی پنڈلی اور ٹخنہ کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی اور ویگن کے پہیوں کے نیچے کچلے جانے کے باعث ان کا دایاں ہاتھ بری طرح متاثر ہو گیا تھا جو کافی علاج و معالجہ اور پلاسٹک سرجری کے باوجود مکمل ٹھیک نہ ہوسکا۔

اسپتال میں کافی عرصہ زیر علاج رہنے اور متعدد آپریشنز کے مراحل سے گزرنے اور دائیں ہاتھ کی پلاسٹک سرجری کے بعد قاضی سراج کافی عرصہ بعد صحت یاب تو ہوگئے لیکن اس حادثہ نے ان کے جسمانی اعضاء کو بہت نقصان پہنچایا تھا۔ اس دوران پولیس نے روایتی بے حسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ظالم ڈرائیور سے جوڑ توڑ کرکے اسے چھوڑ دیا تھا۔ لیکن اس ظالم اور سفاک ڈرائیور کی جانب سے کی جانے والی اس جان لیوا حرکت کے باعث درویش صفت بزرگ صحافی قاضی سراج کا بڑی جرأت اور بیباکی سے محنت کشوں کے مسائل اجاگر کرنے والا قلم بردار دایاں ہاتھ تقریباً مفلوج ہوکر رہ گیا تھا اور وہ اپنے دائیں ہاتھ سے بمشکل قلم پکڑ پاتے تھے۔

لیکن ان تمام آزمائشوں اور حوادث کے باوجود قاضی سراج برصغیر کے عظیم المرتبت اور درویش صفت صحافی مولانا حسرت موہانی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے صحافت کا پرچم بلند کیے رہے اور تا زندگی مزدور صحافت کو اپنے خون پسینے سے سینچنے میں کوشاں رہے۔ مادہ پرستی کے اس دور میں قاضی سراج العابدین حسب معمول اپنا قلم کاغذ سنبھالے ایک دردمند مزدورصحافی کی حیثیت سے مظلوم محنت کشوں کی خدمت کے لیے شب وروز کوشاں رہے اوراپنے ہفت روزہ صفحہ محنت کے ذریعہ وطن عزیز کے کمزور اور مظلوم ترین طبقہ کے مسائل کو ارباب اختیار اور ایوانوں تک پہنچانے میں شب وروز مصروف رہے۔
اگرچہ ڈاکٹروں نے قاضی سراج کو گھٹنے میں شدید تکلیف کے باعث زیادہ چلنے پھرنے اور پبلک ٹرانسپورٹ سے سفر اور موٹر سائیکل پر بیٹھنے سے منع کر رکھا تھا اور اسی طرح ان کی قوت سماعت بھی متاثر ہوئی تھی۔ لیکن اپنے سفر حیات کی سات دہائیاں گزارنے کے باوجود درویش صفت اور بزرگ صحافی قاضی سراج زندگی کے آخری دم تک بے لوث طریقہ سے محنت کشوں کے اجتماعات، مظاہروں اور تقریبات کی بھرپور کوریج کرتے رہے ۔

قاضی سراج نے ہمیں بتایا تھا الحمد للہ ! میں نے صحافتی شعبہ میں ساری زندگی کوئی ذاتی مفاد حاصل نہیں کیا۔محنت کشوں کے حقوق کے لیے اپنے قلم کے ذریعہ صدا بلند کرنا میرے لیے کسی اعزاز سے کم نہیں۔ کیونکہ مزدور کو ’’اللہ کا دوست‘‘ قرار دیا گیا ہے۔ لہٰذا مزدور طبقہ کے لیے جدوجہد میرے لیے ایک عبادت کا درجہ رکھتی ہے۔ میرے 30 برسوں سے زائد پر محیط صحافتی سفر کے دوران بے شمارمسائل، آزمائشوں اورجان لیوا حادثات کا سامنا کرنے کے باوجود آج بھی مستقل مزاجی اور ثابت قدمی سے میدان عمل میں سرگرم رہنا صرف اور صرف مزدوروں کی دعاؤں کا نتیجہ ہے۔ گزشتہ 30 برسوں کے دوران قاضی سراج کی رپورٹنگ اور خبروں کے مرتب کردہ صفحہ محنت کے ہزاروں صفحات ملک میں ٹریڈ یونین تحریک ،مزدور قوانین اور محنت کشوں کے مسائل پر ایک قیمتی اثاثہ کا درجہ رکھتے ہیں جو آنے والے دنوں اس شعبہ پر تحقیق کرنے والے ماہرین کے لیے ایک قیمتی حوالہ دستاویز ہوگی۔

قاضی سراج نے اپنے اس انٹرویو کے دوران ہمیں یہ بھی بتایا تھا کہ انہیں مزدور شعبہ میں پروفیسر محمد شفیع ملک،نبی احمد مرحوم،ایس پی لودھی مرحوم اور سلیم رضا مرحوم کی محنت کشوں کے لیے مثالی خدمات نے بیحد متاثر کیا ہے۔ قاضی سراج العابدین کے ملک بھر میں سیکڑوں مزدور رہنماؤں اور ہزاروں محنت کشوں سے ذاتی روابط قائم تھے لیکن ان کے خاص دوستوں اور رفقاء میں معروف مزدور رہنما اور سندھ لیبر فیڈریشن کے صدرشفیق غوری، نیشنل ریفائنری کنٹریکٹر ورکرز یونین کے رہنما شاکر محمود صدیقی، SOWA کے رہنما وسیم جمال اور PCEM یونین کے رہنما محمد سلیم قابل ذکر ہیں۔ جبکہ قاضی سراج کے طویل صحافتی دور میں ان کے ساتھ مختلف افراد بھی منسلک رہے جن میں مختار قریشی ، زاہد شمسی اور سلیم شیخ کا نام قابل ذکر ہے۔

قاضی سراج العابدین کو ٹریڈ یونین تحریک اورمزدوروں کی سرگرمیوں کی بھرپور کوریج اور صفحہ محنت کی بروقت اشاعت سے عشق کی حد تک اور بیحد قلبی لگاؤ تھا اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ اپنی خرابی صحت کے باوجود اپنی وفات سے چند روز قبل تک دفتر جسارت میں صفحہ محنت کی تیاری میں مشغول تھے کہ اس دوران اچانک انہیں اپنی طبیعت کچھ بوجھل سی محسوس ہوئی تو وہ کام نامکمل چھوڑ کر گھر جانے کے بجائے وقفہ وقفہ سے آرام کرتے رہے اور کچھ دیر آرام کرنے کے بعد وہ دوبارہ اپنے کام میں مشغول ہو جاتے۔ انہوں نے اس طرح شدید تکلیف میں کافی وقت گزارا اور پھر انہوں نے حالت غیر ہونے پر شام کو اپنے اہل خانہ کو اپنی طبیعت کی خرابی کی اطلاع دی جس پر انہیں گاڑی بھیج کر گھر بلایا گیا۔ پہلے تو وہ اسے پیٹ کی معمولی تکلیف سمجھتے رہے لیکن جب طبیعت میں افاقہ نہیں ہوا تو انہیں آدھی رات میں ڈاؤ یونیورسٹی اسپتال لے جایا گیا جہاں ان کے کچھ ٹیسٹ کیے گئے جو بظاہر درست معلوم ہوئے لیکن جب دوسرے دن صبح ان کی ایک اور ٹیسٹ کی رپورٹ آئی تو اس سے معلوم ہوا کہ وہ تو کل ہارٹ اٹیک کے خطرناک مرحلہ سے گزر چکے ہیں جس پر ڈاکٹروں کے مشورہ پر انہیں فوری طور پر قومی ادارہ امراض قلب کراچی میں داخل کیا گیا جہاں ان کے ضروری ٹیسٹ اور معائنہ کیا گیا جس سے معلوم ہوا کہ ان کے دل کی حالت تو بیحد کمزور ہوچکی ہے جس کے باعث ان کی کسی قسم کی انجیو پلاسٹی یا بائی پاس کرنے کی کوئی گنجائش نہیں اور اس دوران ان کی سانسیں بھی کمزور پڑنے لگی تھیں اور اس دوران انہیں دوسری مرتبہ ہارٹ اٹیک ہوا جس کے بعد ڈاکٹروں نے انہیں وینٹی لیٹر پر منتقل کردیا تھا۔ لیکن درد بڑھتا گیا جوں جوں دوا کے مصداق ان کی حالت مزید غیر ہوتی چلی گئی اور بالآخر دوران علاج جمعہ 14 جولائی2023 ء کی شب 11:50بجے ہم سب کے ہر دلعزیز دوست اور ہزاروں محنت کشوں کے دلوں کی دھڑکن قاضی سراج العابدین کو فرشتہ اجل نے اچک لیا اور بارگاہ خداوندی میں پیش کردیا۔انا للہ و انا الیہ راجعون
قاضی سراج العابدین نے اپنے پسماندگان میں بیوہ ،2 سعادت مند صاحبزادوں قاضی وہاج اور قاضی معاذ کے علاوہ ہزاروں کی تعداد میں محبت نچھاور کرنے والے مزدور رہنماؤں اور محنت کش برادری کو سوگوار چھوڑا ہے جو آج بھی انہیں بیحد اچھے الفاظ میں یاد کرتے ہیں۔ گزشتہ برس قاضی سراج کی وفات حسرت آیات کے بعد سے ان کے چھوٹے صاحبزادہ قاضی محمد معاذ نے اپنی کاروباری مصروفیات کے باوجود اپنے والد محترم کی یاد کو سینے سے لگا کر رکھا ہوا ہے اوران کے لگائے ہوئے شجر ثمر دار صفحہ محنت کی آبیاری کرتے ہوئے اس کی اشاعت کو اسی طرح جاری و ساری رکھا ہوا ہے جو قاضی سراج العابدین کی زندگی کا مشن تھا۔ جو یقینا ایک قابل ستائش عمل ہے۔