پاکستان کا دھندلا مستقبل اور دھرنا؟

338

پاکستان کا مستقبل غیر یقینی اور دھندلا ہے۔ موجودہ سیاسی اور معاشی حالات، دہشت گرد حملے، سیاسی جماعتوں کے درمیان انتشار اور ملک میں عدم استحکام نے عوام کو مایوس اور بدحال کردیا ہے۔ آئی ایم ایف کے قرضے، معاشی پابندیاں اور دہشت گردی کے واقعات نے ملکی سلامتی کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو ملک کی موجودہ صورتِ حال بدترین سیاسی، معاشی، سماجی تنزل کی نشاندہی کررہی ہے۔ وفاقی بجٹ 2024-25ء کے نفاذ کے بعد سے مہنگائی کی شرح میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ رواں ہفتے مہنگائی کی شرح میں 0.17 فی صد اضافہ ہوا، جس کے نتیجے میں 19 اشیا کی قیمتیں بڑھ گئیں۔ پٹرول کی قیمت عوام کے لیے آزمائش بن گئی ہے، بجلی کی قیمتوں نے عوام کی چیخیں نکال دی ہیں، بجلی کے بلوں میں 13 قسم کے ٹیکس اور چارجز وصول کیے جا رہے ہیں، جس سے عام آدمی پر بوجھ بڑھ رہا ہے۔ ایک بھائی دوسرے بھائی کو قتل کررہا ہے اور لوگ خوکشیاں کررہے ہیں۔ اس وقت ہر کمانے والا پہلے سے زیادہ پریشان ہے۔ تنخواہ دار طبقے نے انکم ٹیکس کی مد میں ریکارڈ 368 ارب روپے ادا کیے، جو برآمد کنندگان اور خوردہ فروشوں کی مشترکہ ادائیگی سے 232 فی صد زیادہ ہیں۔ لیکن اس کے باوجود نئے بجٹ میں ٹیکس کی زیادہ شرحیں اور سب سے زیادہ یہ کہ تنخواہ لینے والوں کے لیے 10 فی صد سرچارج شامل ہے۔ پاکستان بزنس کونسل کے مطابق پاکستان میں تنخواہ دار طبقے کی آمدنی پر ٹیکس بھارت سے 9.4 گنا زائد ہے۔ یہ اعدادو شمار اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ملک میں مالی بوجھ غیر مساوی ہے اور حکومت کے ٹیکس نظام میں اصلاحات کی اشد ضرورت ہے۔ پاکستان کی معیشت کو ٹھیک کرنے کے دعوے تو بہت ہیں اور روزانہ کی بنیاد پر نمائشی اقدامات بھی کیے جاتے ہیں۔ چار بار پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھتی ہیں تو ایک بار کم ہوجاتی ہیں۔ موجودہ حکومت بھی سابقہ حکومت کی طرح انتہائی نااہل ثابت ہورہی ہے۔ گیلپ پاکستان نے بزنس کانفیڈنس انڈیکس 2024 کی رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ کاروباری اداروں نے شہباز حکومت کو معیشت کے لیے خراب ترین حکومت قرار دے دیا ہے۔ اس وقت بزنس کمیونٹی غیریقینی صورت حال سے دوچار ہے اور بھاری ٹیکسوں پر حکومت سے شدید مایوس ہے۔ اس حوالے سے کہا گیا کہ سیاسی انتشار اور نئے ٹیکس سے کاروباری ادارے مستقبل کے حوالے سے شدید مایوسی کا شکار ہیں اور موجودہ و مستقبل کی کاروباری صورت حال اور ملک کی سمت کا اسکور 4 سے 10 فی صد تک کم رہنے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ مالی سال 2024-25ء کے لیے حکومت کا مالیاتی پلان کاروبار کے لیے موزوں نہیں ہے اور پانچ میں سے دو کاروباری ادارے مہنگائی کو سب سے بڑا مسئلہ سمجھتے ہیں۔ ایسے میں عوام کیا کریں وہ جب دیکھتے ہیں کہ اْن کی عسکری و سیاسی قیادت اْن کے ساتھ سنجیدہ نہیں، وہ صرف اپنی ذات کی حد تک محدود ہیں اور پیسے بنارہے ہیں! حال ہی میں آئی پی پیز کے حوالے سے انکشافات سامنے آئے ہیں، سابق نگراں وزیر تجارت گوہر اعجاز نے بجلی کے نام پر ملک کے40 خاندانوں کی جانب سے کی جانے والی لوٹ مار کا انکشاف کرکے تہلکہ مچا دیا ہے جس کے مطابق 40 خاندان آئی پی پیز کی مد میں پاکستانی عوام کی جیبوں سے سالانہ اربوں روپے نکال لیتے ہیں، یہی نہیں بلکہ ان سارے معاملات میں تمام حکومتیں بھی پوری طرح ملوث رہی ہیں۔ ظلم یہ ہے کہ یہ آئی پی پیز بجلی پیدا نہ کریں تب بھی انہیں اربوں روپے ادا کیے جاتے ہیں، کئی سو کھرب روپے کا گردشی قرضہ اس کے علاوہ ہے، اس قرضے کو ختم کرنے یا منجمد کرنے کے لیے ریاست بجلی کے بنیادی ٹیرف میں مزید اضافہ کردیتی ہے۔ ایسے میں عوام کریں تو کیا کریں؟ لوگ سیاست دانوں سے پوری طرح مایوس ہیں کیونکہ وہ نہ تو اصول کی سیاست کرتے ہیں اور نہ حقیقی مزاحمت کی طاقت رکھتے ہیں، ایسے میں صرف جماعت اسلامی امید کی کرن بنی ہے اور اْس نے اس پورے نظام کے خلاف حافظ نعیم الرحمن کی قیادت میں مزاحمت کا راستہ اختیار کیا ہے اور اسلام آباد میں اس کا دھرنا جاری ہے۔ جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمن نے بجلی کی انتہائی حد تک زائد قیمتوں، آئی پی پیز، اور مہنگائی و ٹیکسوں کے خلاف دھرنے کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب سروں سے پانی گزر چکا ہے۔ فوج، سیاست دانوں، ججوں، اور بیوروکریٹس کو اپنی مراعات چھوڑنی ہوں گی۔ ان کے خطاب نے اس بات کو واضح کیا کہ عوام میں بے چینی بڑھ رہی ہے۔ بے یقینی اور مایوسی کا عالم ہے اور عسکری و سیاسی قیادت ملکی مسائل کو نظرانداز کررہی ہے۔ کوئی بھی سیاسی جماعت ملک اور قوم کے مفاد میں کام کرتی نظر نہیں آرہی۔ آئی ایم ایف کی سخت شرائط نے ملک کی معیشت کو جکڑ لیا ہے، جس کے باعث ایٹمی صلاحیت بھی خطرے میں پڑ گئی ہے۔ معاشی بحران نے ملک کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ جماعت اسلامی کا دھرنا عوام کی آواز ہے، حکومت کو مظاہرین کے جائز مطالبات پر غور کرنا ہوگا اور چیلنجز کا سامنا کرنے کے لیے فوری اور موثر اقدامات کرنے ہوں گے۔ اگر ہم نے ان مسائل کا بروقت اور موثر حل نہ نکالا تو ہمارا مستقبل مزید دھندلا اور غیر یقینی ہو سکتا ہے۔ ملک کو بحرانی صورت حال سے نہیں نکالا گیا اور عوام کو ریلیف نہ ملا تو گلی، محلوں، پان کی دکانوں اور ہوٹلوں میں ہونے والی باغیانہ گفتگو حقیقت بن سکتی ہے۔ بنگلادیش کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ ہمیں تاریخ سے سبق سیکھ کر اپنے مستقبل کو محفوظ بنانا ہوگا۔